صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
جنگوں کی تاریخ میں لاشوں کی تعداد اور تباہی کی مقدار کو کبھی فتح و شکست کا پیمانہ نہیں سمجھا گیا ، بلکہ حصول مقصد فتح وشکست کی بنیاد قرار پاتا ہے۔ آزادی کی جنگوں میں اس اصول میں ایک اور چیز داخل ہوجاتی ہے اور وہ ہے ، حریت پسندوں کا ثبات ، اگر وہ تن ،من، دھن سب کچھ دائو پر لگا کر بھی اپنے نعرہ مستانہ پر قائم ہیں ، تو فاتح وہی ہیں ،جو کھو دیا وہ ان کی قابل فخر قربانی ہے ، جو تحریک آزادی کا ایسا سرمایہ قرار پاتی ہیں ،جو تحریکوں کو کمزور لمحات میں حوصلہ عطا کرتا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں مایوسیوں کو قریب نہیں آنے دیتا۔ ان قربانیوں پر ان کی نسلیں ہی نہیں ، تاریخ حریت بھی صدا فخر کرتی ہے،کہ سب کچھ قربان کردینے کے بعد بھی وہ اپنے عزم پر قائم رہے اور دشمن اپنی بے پناہ قوت اور بہیمانہ مظالم کے باوجود ان کے قلب وجگر سے جذبہ حریت کو نکالنے میں ناکام رہا ۔تاریخ سرجھکا کر ان مجاہدین کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی پوری نسل قربان کردی ، اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو تڑپتے دیکھا ، بھائیوں کے لاشے کاندھوں پر اٹھائے ، اپنے کوچہ وبازار اور گھروں کو ملیا میٹ ہوتے دیکھا ، مصائب کا مقابلہ کیا لیکن اپنے مقصد سے سر مو بھی انحراف نہیں کیا ۔ یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی اور فتح ہے ، جبکہ دشمن کے لئے ایک شرمناک شکست،شکست فاش ، کہ انسانیت کے درجے سے نیچے گرکر ، شرمناک اور سفاک طرز عمل کےباوجود وہ شمع آزادی کو بجھانا تو کیا اس کی لو کم کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ۔ غزہ کی اس 15مہینوں پر مشتمل جنگ کا ایک ایک لمحہ اور اب جنگ بندی کا یہ معاہدہ حماس کے مجاہدین اور فلسطینیوں کی فتح اور اسرائیل و امریکہ کی شرمناک شکست فاش کا اعلان ہے ۔ حماس اور فلسطینی آج بھی اپنے مقصد پر کاربند ہیں ، مکمل آزادی سے کم کسی چیز کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ، قربانیوں سے تھکے نہیں ، جھکے نہیں ، جنگ بندی کی درخواست لے کر کسی فرعون کے در پر سجدہ ریز نہیں ہوئے ، یہی ان کی فتح اور کامیابی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ جو غزہ کو مٹادینے ، فلسطینیوں کو ختم کردینے کے نعرے بلند کرتے نہیں تھکتے تھے ، جن کا اعلان تھا کہ قیدیوں کی بازیابی تک وہ جنگ بندی نہیں کریں گے ، وہ مجبور ہوئے کہ معاہدے کے تحت سودے بازی کرکے اپنے قیدی رہا کروائیں ۔ ان کےتین مقاصد تھے ، فلسطینیوںکے جذبہ حریت کو ختم کرنا، نہیں کر سکے ، بلکہ اگریہ چنگاری تھی تو اب الائو بن چکی ہے ،دوسرا مقصد تھا حماس کو بے اثر کرنا ، بری طرح ناکام رہے ، پہلے یہ ایک تنظیم تھی ، اب جذبہ اور نظریہ بن چکی ہے ،بلکہ عالمی بساط پر امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں تسلیم شدہ فریق ، تیسرا مقصد تھا قیدیوں کی رہائی ، اس میں بھی شرمناک ہزیمت ان کا مقدر بنی کہ معاہدہ کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے ۔ یہ کامیابیاں حماس مجاہدین کی ثابت قدمی ،للہیت اور بالغ نظر قیادت کی بے لچک مگر زمینی حقائق سے قریب تر حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ حماس کی اس جنگ میں اسماعیل ھانیہ اوریحییٰ شینوار ایسے حکمت کار ، منصوبہ ساز عسکری و سیاسی دماغ کے طور پر دانش عالم کے سامنے آئے ہیں کہ صدیوں تک ان کی عسکری حکمت عملی کو دنیا بھر کے مجاہدین آزادی نمونے کے طور پر اختیار کریں گے ، کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی جنگی درس گاہوں میں حماس کے ان شہ دماغوں کی ستریٹجی کو پڑھا اور پڑھایا جائے گا ۔
المیہ مگر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر سے تذبذب کا شکار ، اپنی شناخت کے حوالہ سے احساس کمتری کے مارے بعض عناصر جو ہر کامیابی میں کیڑے نکالنے کے عادی ہیں ، انہیں پہلے اس جنگ پر اعتراض تھا ، اب وہ جنگ بندی پر بھی معترض ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں ، جو خود تنکا بھی توڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے البتہ دوسروں پر اعتراض کے نشتر چلانے میں ید طولیٰ کے حامل ہواکرتے ہیں۔ ایک اعتراض بڑے شد ومد سے اٹھایا جا رہا ہےکہ’’ صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟‘‘ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ، ایسے نفسیاتی مریضوں سے ، اصولی طور پر یہ لاعلاج مریض ہیں ، انہیں نظر انداز کردینا ہی بہترین حل ہے ، لیکن ’’فرینڈز آف فلسطین پاکستان ‘‘ کے نام سے روز اول سے فلسطینیوں کی حمائت میں سر گرم گروپ نے ان دانش دشمنوں کو مدلل اور مربوط جواب دیا ہے جو ان کے وٹس ایپ گروپ میں شیئر کیا گیا ہے ۔ اس جواب سے سو فیصد متفق ہونے کی بنا کر استفادہ عام کی خاطر پیش خدمت ہے ۔ ’’صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟ جیسے غلط اعتراض کا مدلل جواب۔جب سے صلح کی خبریں آنا شروع ہوئی تب سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر یہ اعتراض کیا جارہا ہے ہے کہ ’’صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟‘‘ ، تو یہ اعتراض بظاہر معصومانہ لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی غلط فہمیاں اور حقیقت سے انکار موجود ہے۔اس غلط اعتراض کو حماس کی حالیہ جدوجہد کے درست تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
آئیے! پہلے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صلح کی پیشکش کہاں کی جاتی ہے؟صلح کی بات تب ہوتی ہے جب دونوں فریق برابری کے اصولوں پر ایک معاہدے کے لیے تیار ہوں۔جب کہ اسرائیل نے کبھی فلسطینیوں کو مساوی حقوق دینے یا ان کی زمینوں اور گھروں پر ناجائز قبضے ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ جارحیت، زمینوں پر قبضہ، اور انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی رہی ہے۔ ایسے میں بظاہر برابری کی بنیاد پر صلح کی بات کرنا صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے جب کہ حماس اور اسرائیلی معاہدہ کہیں بھی برابری نہیں۔اسرائیل نے حماس کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں چند قیدیوں کے بدلہ ہزاروں فلسطینی رہا کیے جائیں گے۔
اب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ حماس کی جنگ ناگزیر کیوں تھی؟ اوربے گھر فلسطینیوں کا آخر مقدمہ کیا تھا؟اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر پناہ گزین بنا دیا۔ یہ مسئلہ صرف حماس کا نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کا ہے۔بچوں اور عورتوں پر مظالم اسرائیل کے مسلسل حملے، گھروں کی مسماری، اور محاصرے نے فلسطینی عوام کی زندگی کو جہنم بنا ہوا تھا حماس کا اسرائیل پر جوابی حملہ ان مظالم کے خلاف ایک مزاحمت تھی۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: صلح کی
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن