Daily Ausaf:
2025-11-05@00:58:59 GMT

صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

جنگوں کی تاریخ میں لاشوں کی تعداد اور تباہی کی مقدار کو کبھی فتح و شکست کا پیمانہ نہیں سمجھا گیا ، بلکہ حصول مقصد فتح وشکست کی بنیاد قرار پاتا ہے۔ آزادی کی جنگوں میں اس اصول میں ایک اور چیز داخل ہوجاتی ہے اور وہ ہے ، حریت پسندوں کا ثبات ، اگر وہ تن ،من، دھن سب کچھ دائو پر لگا کر بھی اپنے نعرہ مستانہ پر قائم ہیں ، تو فاتح وہی ہیں ،جو کھو دیا وہ ان کی قابل فخر قربانی ہے ، جو تحریک آزادی کا ایسا سرمایہ قرار پاتی ہیں ،جو تحریکوں کو کمزور لمحات میں حوصلہ عطا کرتا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں مایوسیوں کو قریب نہیں آنے دیتا۔ ان قربانیوں پر ان کی نسلیں ہی نہیں ، تاریخ حریت بھی صدا فخر کرتی ہے،کہ سب کچھ قربان کردینے کے بعد بھی وہ اپنے عزم پر قائم رہے اور دشمن اپنی بے پناہ قوت اور بہیمانہ مظالم کے باوجود ان کے قلب وجگر سے جذبہ حریت کو نکالنے میں ناکام رہا ۔تاریخ سرجھکا کر ان مجاہدین کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی پوری نسل قربان کردی ، اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو تڑپتے دیکھا ، بھائیوں کے لاشے کاندھوں پر اٹھائے ، اپنے کوچہ وبازار اور گھروں کو ملیا میٹ ہوتے دیکھا ، مصائب کا مقابلہ کیا لیکن اپنے مقصد سے سر مو بھی انحراف نہیں کیا ۔ یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی اور فتح ہے ، جبکہ دشمن کے لئے ایک شرمناک شکست،شکست فاش ، کہ انسانیت کے درجے سے نیچے گرکر ، شرمناک اور سفاک طرز عمل کےباوجود وہ شمع آزادی کو بجھانا تو کیا اس کی لو کم کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ۔ غزہ کی اس 15مہینوں پر مشتمل جنگ کا ایک ایک لمحہ اور اب جنگ بندی کا یہ معاہدہ حماس کے مجاہدین اور فلسطینیوں کی فتح اور اسرائیل و امریکہ کی شرمناک شکست فاش کا اعلان ہے ۔ حماس اور فلسطینی آج بھی اپنے مقصد پر کاربند ہیں ، مکمل آزادی سے کم کسی چیز کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ، قربانیوں سے تھکے نہیں ، جھکے نہیں ، جنگ بندی کی درخواست لے کر کسی فرعون کے در پر سجدہ ریز نہیں ہوئے ، یہی ان کی فتح اور کامیابی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ جو غزہ کو مٹادینے ، فلسطینیوں کو ختم کردینے کے نعرے بلند کرتے نہیں تھکتے تھے ، جن کا اعلان تھا کہ قیدیوں کی بازیابی تک وہ جنگ بندی نہیں کریں گے ، وہ مجبور ہوئے کہ معاہدے کے تحت سودے بازی کرکے اپنے قیدی رہا کروائیں ۔ ان کےتین مقاصد تھے ، فلسطینیوںکے جذبہ حریت کو ختم کرنا، نہیں کر سکے ، بلکہ اگریہ چنگاری تھی تو اب الائو بن چکی ہے ،دوسرا مقصد تھا حماس کو بے اثر کرنا ، بری طرح ناکام رہے ، پہلے یہ ایک تنظیم تھی ، اب جذبہ اور نظریہ بن چکی ہے ،بلکہ عالمی بساط پر امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں تسلیم شدہ فریق ، تیسرا مقصد تھا قیدیوں کی رہائی ، اس میں بھی شرمناک ہزیمت ان کا مقدر بنی کہ معاہدہ کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے ۔ یہ کامیابیاں حماس مجاہدین کی ثابت قدمی ،للہیت اور بالغ نظر قیادت کی بے لچک مگر زمینی حقائق سے قریب تر حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ حماس کی اس جنگ میں اسماعیل ھانیہ اوریحییٰ شینوار ایسے حکمت کار ، منصوبہ ساز عسکری و سیاسی دماغ کے طور پر دانش عالم کے سامنے آئے ہیں کہ صدیوں تک ان کی عسکری حکمت عملی کو دنیا بھر کے مجاہدین آزادی نمونے کے طور پر اختیار کریں گے ، کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی جنگی درس گاہوں میں حماس کے ان شہ دماغوں کی ستریٹجی کو پڑھا اور پڑھایا جائے گا ۔
المیہ مگر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر سے تذبذب کا شکار ، اپنی شناخت کے حوالہ سے احساس کمتری کے مارے بعض عناصر جو ہر کامیابی میں کیڑے نکالنے کے عادی ہیں ، انہیں پہلے اس جنگ پر اعتراض تھا ، اب وہ جنگ بندی پر بھی معترض ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں ، جو خود تنکا بھی توڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے البتہ دوسروں پر اعتراض کے نشتر چلانے میں ید طولیٰ کے حامل ہواکرتے ہیں۔ ایک اعتراض بڑے شد ومد سے اٹھایا جا رہا ہےکہ’’ صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟‘‘ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ، ایسے نفسیاتی مریضوں سے ، اصولی طور پر یہ لاعلاج مریض ہیں ، انہیں نظر انداز کردینا ہی بہترین حل ہے ، لیکن ’’فرینڈز آف فلسطین پاکستان ‘‘ کے نام سے روز اول سے فلسطینیوں کی حمائت میں سر گرم گروپ نے ان دانش دشمنوں کو مدلل اور مربوط جواب دیا ہے جو ان کے وٹس ایپ گروپ میں شیئر کیا گیا ہے ۔ اس جواب سے سو فیصد متفق ہونے کی بنا کر استفادہ عام کی خاطر پیش خدمت ہے ۔ ’’صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟ جیسے غلط اعتراض کا مدلل جواب۔جب سے صلح کی خبریں آنا شروع ہوئی تب سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر یہ اعتراض کیا جارہا ہے ہے کہ ’’صلح ہی کرنی تھی تو جنگ کیوں چھیڑی؟‘‘ ، تو یہ اعتراض بظاہر معصومانہ لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی غلط فہمیاں اور حقیقت سے انکار موجود ہے۔اس غلط اعتراض کو حماس کی حالیہ جدوجہد کے درست تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
آئیے! پہلے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صلح کی پیشکش کہاں کی جاتی ہے؟صلح کی بات تب ہوتی ہے جب دونوں فریق برابری کے اصولوں پر ایک معاہدے کے لیے تیار ہوں۔جب کہ اسرائیل نے کبھی فلسطینیوں کو مساوی حقوق دینے یا ان کی زمینوں اور گھروں پر ناجائز قبضے ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ جارحیت، زمینوں پر قبضہ، اور انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی رہی ہے۔ ایسے میں بظاہر برابری کی بنیاد پر صلح کی بات کرنا صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے جب کہ حماس اور اسرائیلی معاہدہ کہیں بھی برابری نہیں۔اسرائیل نے حماس کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں چند قیدیوں کے بدلہ ہزاروں فلسطینی رہا کیے جائیں گے۔
اب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ حماس کی جنگ ناگزیر کیوں تھی؟ اوربے گھر فلسطینیوں کا آخر مقدمہ کیا تھا؟اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر پناہ گزین بنا دیا۔ یہ مسئلہ صرف حماس کا نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کا ہے۔بچوں اور عورتوں پر مظالم اسرائیل کے مسلسل حملے، گھروں کی مسماری، اور محاصرے نے فلسطینی عوام کی زندگی کو جہنم بنا ہوا تھا حماس کا اسرائیل پر جوابی حملہ ان مظالم کے خلاف ایک مزاحمت تھی۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: صلح کی

پڑھیں:

شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟

محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔

’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔

فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘

اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘

شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔

جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔

شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ ہائیکورٹ نے ٹی ایل پی پر پابندی کیخلاف درخواست اعتراض لگاکر نمٹا دی
  • حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
  • حماس نے غزہ امن معاہدےکے تحت مزید 3 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالےکردیں
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • حماس نے مزید 3 لاشیں اسرائیل کو واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے ایک فلسطینی شہید
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ