Islam Times:
2025-07-26@19:53:02 GMT

جبل عامل سے کوہ سفید تک

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

جبل عامل سے کوہ سفید تک

اسلام ٹائمز: آج پاڑہ چنار کی صورت حال بھی 2006ء کے جنوبی لبنان اور حزب اللہ کی صورت حال سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج اس خطے کے باسی بھی چاروں طرف سے اپنے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں اور ان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ان ہاتھوں کو کاٹ دیں جن سے وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ پاڑہ چنار کے مظلومین سے یہ مطالبہ ایسی حالت میں کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے تمام دفاعی ادارے محض تماشائی ادارے بنے ہوئے ہیں اور ہمارے وہ سیاسی قائدین جنہیں ہم نے اپنا (؟) سمجھا ہوا ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

پاڑہ چنار کا خطہء ارضی آج کل جدوجہد اور مقاومت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ رقم کر رہا ہے۔ یہ منطقہ، جغرافیائی، تزویراتی، نظریاتی اور مقاومتی اعتبار سے کسی حد تک ”جنوبی لبنان“ کا عکس ہے۔ اپنے جغرافیے کے اعتبار سے یہ علاقہ پاکستان کے قبائلی علاقے ضلع کرم کا وہ دارالحکومت ہے جو اسلام آباد سے مغرب کی جانب 574 کلو میٹر اور پشاور سے 80 میل کے فاصلے پر ”کوہ سفید“ کے دامن میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ پاڑہ چنار کی تین اطراف میں افغانستان اور صرف مشرق میں پاکستان کی سرزمین ہے۔

”پاڑہ چنار“ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کا نام ”حمزہ خیل“ کی ”پاڑے خیل“ شاخ کی ایک معتبر شخصیت ”ملک پاڑے“ کے نام پر رکھا گیا تھا جنہوں نے 200 سال قبل اس علاقے میں ”چنار“ کا پودا لگایا تھا۔ قبیلے کے لوگ اس درخت کے سایے میں بیٹھتے تھے۔ افغانستان کا بادشاہ ”بچہ سقا“ بھی پاڑہ چنار کے ایک بازار کا ماشکی ہوتا تھا۔ پاڑہ چنار کی اکثریت طوری اور بنگش قبائل پر مشتمل ہے۔ طوری قبائل عرصہء دراز سے یہاں آباد ہیں جبکہ بنگش قبائل افغانستان سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ وادیء کرم، وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زیادہ ذرخیز ہے۔

1890ء میں طوری قبائل نے افغانوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر متحدہ ہندوستان کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی۔ 1893ء میں بارڈر کی نشان دہی ہوئی۔ 1948ء میں قائداعظم کے اسرار پر کرم ایجنسی نے بھی دیگر ایجنسیوں کے ہمراہ پاکستان سے الحاق کیا۔ پاڑہ چنار کی زیادہ آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ کسی ایک خطے میں اہل تشیع کا اس طرح سے اکثریت میں ہونا شیعہ دشمن طاقتوں کے لیے ہمیشہ سے سوہان روح بنا رہا ہے۔ لہذا ہر دور میں یہاں کی شیعہ آبادی کا تشخص ختم کرنے کے لیے اس پر لشکر کشی کی گئی لیکن مقامی آبادی نے اپنی بھرپور مقاومت کے ذریعے اپنی سرزمین کا دفاع کیا۔

آج ایک بار پھر اس علاقے کی مظلوم عوام پر ہر طرف سے یلغار کرنے کے منصوبے تشکیل دیے جا رہے ہیں جبکہ یہاں کے عوام بھی اپنے سر پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں موجود ہیں۔ اس علاقے کی آج کی صورت حال اور 2006ء کی جنوبی لبنان کی صورت حال میں قدرے مماثلت ہے۔ لبنان کے اس جنوبی حصے اور ”جبل عامل“ کے اس پہاڑی علاقے میں بھی کبھی صحابی رسولؓ اور ”لسان الصدق“ جناب حضرت ابوذر غفاریؓ نے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں مقاومت کا ایک ایسا پودا لگایا تھا جو آج ایک تن آور درخت بن کر لبنان کے حزب اللہی نوجوانوں کو اپنا سایہ فراہم کر رہا ہے۔

اسرائیل، امریکہ اور اس کےگماشتے آج اس درخت کو اس کی جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صیہونی حکومت کئی بار اس سرزمین کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا چکی ہے لیکن ہر بار اس جارح قوت نے جنوبی لبنان کی تحریک مزاحمت کے ہاتھوں شکست کھائی ہے ۔ 2006ء میں لبنان کی مقاومتی تحریک ”حزب اللہ“ پر بھی ایسا ہی دباؤ تھا جیسا دباؤ آج پاڑہ چنار کے دفاع کے لیے کمر بستہ مجاہدین پر ہے۔

ان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار پھینک دیں اور غیر مسلح ہو جائیں لیکن انہوں نے بھی سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی طرح دوٹوک الفاظ میں کہ دیا ہے کہ وہ یہ کام ایسی صورت میں کبھی نہیں کریں گے جبکہ ان کے مقابل فریق کو کئی طریقوں سے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے۔ حزب اللہ کے انکار اور اس کی سرکشی کا جواب دینے کے لیے 2006ء میں 35000 لشکریوں پر مشتمل اسرائیل کی افواج نے جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا۔ حزب اللہ اس وقت زیادہ طاقتور نہیں تھی۔ اسرائیل کی جدید ریگولر آرمی اور چند ہزار پر مشتمل حزب اللہ ملیشیا کے مابین بظاہر مقابلے کا کوئی تناسب نہیں تھا۔

ہم جو حزب اللہ کے حامی تھے، اس وقت ہمارا بھی یہ خیال تھا کہ حزب اللہ اگرچہ آخری سانس تک ہتھیار نہیں پھینکے گی لیکن شاید وہ اپنے وجود کو باقی نہ رکھ سکے اور اس کی اکثریت راہ سیدالشہداء علیہ السلام پر چلتے ہوئے شہادت کو اپنے گلے لگا لے لیکن جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ ”ان تنصراللہ ینصرکم“ یعنی اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا“ کے مصداق حزب اللہ کو خدا کی جانب سے ایسی نصرت ملی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

آج پاڑہ چنار کی صورت حال بھی 2006ء کے جنوبی لبنان اور حزب اللہ کی صورت حال سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج اس خطے کے باسی بھی چاروں طرف سے اپنے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں اور ان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ان ہاتھوں کو کاٹ دیں جن سے وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ پاڑہ چنار کے مظلومین سے یہ مطالبہ ایسی حالت میں کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے تمام دفاعی ادارے محض تماشائی ادارے بنے ہوئے ہیں اور ہمارے وہ سیاسی قائدین جنہیں ہم نے اپنا (؟) سمجھا ہوا ہے۔

ہمارے قاتلوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہم ان ”اپنوں“ پر گولی کیسے چلائیں؟۔ لمحہء موجود میں غیروں کی ستم ظریفی اور اپنوں کی خاموشی میں چاروں جانب سے اعداء کے نرغے میں گھرے ہوئے پاڑہ چنار کے مظلوموں کا آسرا فقط ذات خداوند پروردگار اور وجود آئمہ اطہار ہے۔ آج ان کا نعرہ بھی وہی نعرہ ہے جو ایسے ہی وقت میں سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے لگایا تھا۔ یعنی ”لبیک یا حسینؑ“۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کیا جا رہا ہے سے یہ مطالبہ ہوئے ہیں اور کی صورت حال حزب اللہ ہے کہ وہ سے اپنے وہ اپنے اللہ کی کے لیے

پڑھیں:

ایک باکمال نثر نگار، حیات عبد اللہ

حیات عبد اللہ بنیادی طور پر کالم نگارکی حیثیت سے جانے پہچانے اور مانے جاتے ہیں، وہ اپنی نثرکی طرح شاعر بھی بہت عمدہ ہیں۔ ہر شاعرکی طرح ان کے نزدیک بھی جمال پرستی خدائی صفت ہے اور حیات عبداللہ کے نزدیک حُسن شاعری میں ہو یا رقص و موسیقی میں، بند کھڑکیوں میں ہو یا کھلے دریچوں میں، گلاب میں ہو یا شبِ ماہتاب میں، تصورکے رنگوں میں ہو یا لکیروں میں، ستاروں میں ہو یا سیاروں میں، آواز میں ہو یا رنگین آنچلوں کی سرسراہٹ میں، حیات عبداللہ کے دل کے دریچے پر بہرحال دستک دیتا ہے۔ بقول ناصر زیدی کہ:

یہ روشنی کا سمندر کہاں سے آیا ہے

بکھر رہے ہیں کئی آفتاب آنکھوں میں

آفتاب کی کرنیں اپنی مٹھی میں سمیٹنے والا، رتجگوں میں ستاروں سے ہم کلام ہونے والا، تازہ گلوں کی مہک سے مہکنے والا، رقص کرتی تتلی کے رنگین پروں کو دیکھنے والا، خزاں میں اُمیدِ بہار رکھنے والا، ہتھیلی پر بجھتے چراغوں کو جلانے والا شخص کیسے اندھیروں کا تعاقب کرسکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب ہمیں حیات عبد اللہ کے کالموں کا مجموعہ ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ کی صورت میں ملتا ہے۔

جو اخبار میں شایع ہونے والے منتخب کالموں پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے ٹائٹل سے معلوم ہوتا ہے کہ اندھیری رات کے سناٹوں میں پڑا دیا کیسے اپنی سمت ایک ایسے شخص کو کھینچ رہا ہے جو نہ صرف آندھیوں کا بلکہ اندھیروں کا تعاقب بھی کر سکتا ہے۔اعزاز احمد آذر کا ایک شعر یاد آیا:

تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا

مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا

حیات عبداللہ ایک نڈر آدمی ہے انھوں نے ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ بڑی جاں فشانی سے کیا ہے، جس کی گواہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان دیتے ہیںکہ ’’ حیات عبد اللہ کے کالمز تحریری جہاد اور قلمی تبلیغ ہیں، وہ بڑے نپے تلے اور جچے لفظوں میں منادی کرتے ہیں، ان کے کالم مکمل معاشرتی تصویر ہے جو کہیں سے کٹی پھٹی،کہیں سے لہولہان، کہیں سے منہ چڑاتی ہوئی اور کہیں رُلاتی ہوئی۔‘‘

حیات عبد اللہ کی اس کتاب ’’ اندھیروں کا تعاقب‘‘ میں بہت سی یادوں کے جگنو ٹمٹما رہے ہیں اورکہیں پر اندھیرے میں گم ہوئے راہی کو منزل کا درست رستہ دکھا رہے ہیں۔ ان کی اس قلمی کاوش کو عبدالستار عاصم ’’جہاد ِ اکبر‘‘ کا نام دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ حیات عبداللہ کے خیالات، مشاہدات، افکار کا مجموعہ ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ قلم فاؤنڈیشن ایک قومی فریضہ سمجھ کر شایع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

ان کے افکار کی روشنی کے مینار ہیں۔ انھوں نے دو عشروں سے کوشش کی ہے کہ اپنے حصے کی شمع قلم کے روشن دان میں سجا کر اس کی روشنی قوم کو پہنچائیں اور ان کا ہر کالم معلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ ان کا ہر کالم ایک کتاب جیسا سبق آموز ہوتا ہے۔‘‘’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ کے بعد ان کی نئی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوا۔ جس میں کشمیر، فلسطین، برما اور شام پر لکھے گئے کالموں کو شامل کیا گیا ہے۔

جس کا انتساب انھوں نے گلشنِ حیات کے نوخیز پھول ارحم عبد اللہ کے نام منسوب کیا ہے۔ حیات عبد اللہ ’’سلام کشمیر‘‘ جہاں مقبوضہ کشمیرکی آزادی کے لیے اپنی جانوں کو قربان کرنے والے تمام شہداء کی عظمتوں اور رفعتوں کو سلام پیش کر رہے ہیں، وہیں فلسطین، برما اور شام کے مسلمان شہداء کو بھی سلام پیش کر رہے ہیں۔

اس سے قبل بھی کشمیر ،برما، فلسطین اور شام کے موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ میرے خیال میں اتنی ساری کتابوں کو دیگر موضوعات پر الگ الگ پڑھنے سے بہتر ہوگا کہ حیات عبد اللہ کی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کا ایک ہی بار مطالعہ کر لیا جائے تو آپ کو کشمیر سے فلسطین اور برما سے شام کے مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم کی داستان پڑھنے کو مل جائے گی۔

’’سلام کشمیر‘‘ کے حوالے سے اپنی رائے میں حافظ محمد سعید لکھتے ہیں کہ ’’حیات عبد اللہ جیسے دردِ دل رکھنے والے اہلِ قلم جس طرح معاشرتی مسائل، اُمتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے قلم اُٹھا رہے ہیں وہ یقینا لائقِ تحسین ہے۔‘‘ اس کے علاوہ کتاب میں الطاف حسن قریشی اور اوریا مقبول جان کی قیمتی آراء کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

حیات عبداللہ صرف صداقت پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انھیں جھوٹ سے سخت نفرت ہیں ، وہ بہت سنجیدہ مزاج اور کم گو انسان ہے۔ ’’ سلام کشمیر‘‘ کے حرفِ آغاز میں بقول ان کہ ’’ ستر سال سے زائد عرصے پر محیط تلخیوں کے آزار سہنے کے باوجود کشمیریوں نے اپنے جذبات اور خیالات میں کوئی مصلحت پیدا نہ ہونے دی۔ اہلِ کشمیرکے دلوں میں پاکستان کی محبت، آنگن میں اتری مانوس خوشبوؤں کی طرح جا گزیں ہے، وہ بندوقوں کے سامنے بھی بہ بانگِ دہل پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہارکرتے ہیں،

اس کے ساتھ ساتھ فلسطین، برما اور شام کے دُکھوں پر مشتمل چند اوراق بھی کتاب کا حصہ ہیں۔‘‘بابائے قوم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے‘‘ مگر ہم اپنے اپنے مفادات کی خاطر کتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنی شہ رگ کٹ جانے کا بھی ڈر نہیں۔ کئی حکمران آتے اور جاتے رہے مگر مسئلہ کشمیر وہیں کا وہیں رہا۔

میرے خیال میں ہمیں اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیے اور حیات عبداللہ کی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کو پڑھ کر قائد کے فرمان کی طرف توجہ مرکوز کر لینی چاہیے اور اپنے اندر اس بات کا احساس پیدا کرلیں کہ جن مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں انھیں ناحق کیوں مارا جا رہا ہے؟ کیا وہ ہماری طرح انسان نہیں بقول سید انوار احمد کے اس شعرکہ :

کیوں مل رہی ہے ان کو سزا، چیختی رہی

سنسان وادیوں میں ہَوا چیختی رہی

متعلقہ مضامین

  • یہ عامل اور جادوگر
  • ایک باکمال نثر نگار، حیات عبد اللہ
  • پارا چنار اور کرم کی شاہراہوں کو کھول دیا گیا
  •  چینی مہنگی ‘مارکیٹ سے غائب :ایک لاکھ ٹن درآمد کرنے کامزید ٹینڈر جاری
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • اسرائیل اور بھارت سے سفید چینی درآمد کرنے پر مکمل پابندی
  • ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کا ایک اور ٹینڈر جاری
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود
  • لاش کی بو چھپانے کیلئے سفید پاؤڈر؟ موت کے بعد حمیرا اصغر کی واٹس ایپ ’ڈی پی‘ کیسے غائب ہوئی؟ تفتیشی ٹیم اُلجھ کر رہ گئی
  • کرایہ