WE News:
2025-09-18@12:05:44 GMT

’اوووو،  اووووو‘

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

وزیر اعظم شہباز شریف نے  لوگوں کو بتایا کہ جاپانی احتجاج کرتے ہیں تو صرف ’ اووو اووو‘ کی آوازیں نکالتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی طرف سے یہ طنز اپوزیشن پر کیا۔ ان کا یہ کہانی سنانے کا مقصد تھا کہ ہماری اپوزیشن کو بھی احتجاج میں صرف ’اووو ، اووو‘ کرنا چاہیے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اپوزیشن نہ دھرنا کر سکتی ہے، نہ لانگ مارچ کر سکتی  ہے نہ وفاق پر کے پی کے حکومت حملہ کر سکتی ہے۔ نہ نعرے لگا سکتی ہے نہ ڈنڈے لہرا سکتی ہے نہ روڈ بلاک کر سکتی ہے۔

نہ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ ہونی چاہیے نہ حکومت کی کارکردگی پر بات ہونی چاہیے نہ اسمبلی میں تقریریں ہونی چاہئیں نہ بھوک ہڑتال کی دھمکی دینی چاہیے نہ خاموش انقلاب کی للکار سنانی چاہیے۔ شاید  وہ کہنا چاہیتے تھے’اووو اووو ‘ سے زیادہ احتجاج کرنے والوں کو نو مئی کے مجرمان کے برابر تصور کیا جائے۔ ان کی زبانیں اور لگامیں دونوں کھینچ لینی چاہئیں۔

ہر قوم، فرد، فرقے کے احتجاج کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم کسی ایک طریقے کو مروج کرنے کی کوشش کرے اور سارا زمانہ اس جانب چل پڑے۔ وزیر اعظم ایک مثال دیں اور سارا معاشرہ سدھر جائے۔ سماج اس طرح نہیں بدلا کرتے۔ خاص طور پر ہمارا سماج جس میں ہر زمانے میں ایک نئے بیانیے کی پنیری لگی۔ ایک نئے طرز حکومت کی ترویج کی گئی، ایک نئے انقلاب کی نوید سنائی گئی۔

 77برس گزر گئے بیانیہ کا چرخہ ہی فٹ نہیں بیٹھ رہا۔ ملک بار بار  پینترے بدل رہا۔ کبھی یہاں زراعت مستحسن ہوتی ہے، کبھی نیشلائزیشن معراج پاتی ہے، کبھی انڈسٹریلائزیشن کا بخار چڑھتا ہے، کبھی جہاد فرض اولین بنتا ہے، کبھی جمہوریت بہترین انتقام کہلاتی ہے، کبھی جمہوریت بہترین انتظام بن جاتی ہے، کبھی ووٹ کی عزت بیانیہ بنتی ہے اور کبھی تان ’تیرا باپ بھی دے گا آزادی ‘ پر ٹوٹتی ہے۔  اس کھچڑی میں ہمیں احتجاج کا نہ سلیقہ رہا نہ قرینہ آیا۔ گرچہ ’اووو اووو ‘ کی کوئی روایت ہمارے ہاں موجود نہیں مگر لوگ پھر اپنے اپنے طریقے سے ’اووو  اووو ‘ کی گنجائش نکال ہی لیتے ہیں۔

 دیکھیے حکومت کے خلاف جس نے احتجاج کرنا ہو تو وہ فارم 47اور 45کی کہانی شروع کر دیتا ہے۔ شہباز شریف کی نقلیں اتارتے ہیں۔  ملک کی خاطر امداد مانگنے کو بھیک مانگنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔’مہنگائی شریف‘ ان کو کہا گیا ۔ دھرنے ان کے خلاف کیے۔ لانگ مارچ ان کے خلاف ہوئے۔ ایک صوبہ وفاق کے خلاف اس حکومت میں صف آرا ہوا۔ سول نافرمانی کی تحریک ان کے خلاف شروع ہوئی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو رقم بھیجنے سے اس دور میں منع کیا گیا۔ کارکردگی کے حوالے سے ان کو تختہ مشق بنایا گیا۔ بین الاقوامی ہزیمت کا سامان ان کے لیے اکٹھا کیا گیا۔ گرنیل نے ان کے خلاف ٹوئٹ کیے۔ یہ اس دور کی اپوزیشن کی ’اوووو اووو ‘ ہے۔

اب اگر اسی مثال میں حکومت اور اپوزیشن کی نشستیں تبدیل کر کے دیکھیں تو 9مئی کے جواب میں گرفتاریاں نہیں ہونی چاہئیں تھیں، صرف ’اووو اووو‘ ہونا چاہیے تھا۔ 26نومبر کو گولی نہیں چلنی چاہیے تھی صرف ’اووو اووو‘ ہونا چاہیے تھا۔ عمران خان کے ساتھیوں کو گرفتار نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ صرف ’اووو اووو‘ کر کے ان کو معاف کر دینا چاہیے تھا۔ بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ نہیں آنا چاہیے تھا صرف ’اووو اووو‘ کا نعرہ لگنا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر کریک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ انہیں بھی صرف ’اووو اووو‘ پر ٹرخانا چاہیے تھا۔

سچ پوچھیں تو اس دور میں احتجاج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی بہت ہوا۔ سلسلہ تو جنرل باجوہ سے شروع ہوا۔ کسی حاضر سروس آرمی چیف کے ساتھ وہ نہیں ہوا جو جنرل باجوہ کے ساتھ ہوا۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو سکتا تھا ہوا۔ جتنی تضحیک توہین اور تذلیل ہو سکتی تھی ہوئی۔ جنرل باجوہ کا بھی دل چاہتا ہو گا کہ یہ انصافی،  جاپانیوں کی طرح صرف ’اووو اووو‘ آوازیں نکالیں اور ان کی جان چھوڑ دیں۔

190 ملین پاؤنڈ،  المشہور القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم کو 14سال قید ہوئی۔ جہاں سب نے  عمران خان کو ’مذہب کا بیوپاری‘ کہہ کر پکارا ۔  وہاں حکومت پر بھی ہر طرف سے گالیوں کی بارش ہوئی۔ اسٹیبلشممنٹ بھی تنقید کے بار تلے آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں ملک ریاض کے خلاف کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ حالانکہ 190 ملین پاؤنڈ بھی ان کے پکڑے گئے اور القادر یونیورسٹی بھی انہوں نے رشوت  میں دی لیکن نہ ان کو عمران خان نے رگیدا،  نہ حکومت نے گرفتاری کی دھمکی دی نہ اسٹیبلشمنٹ نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف نہ میڈیا بولا نہ سوشل میڈیا پر کسی نے بات کی۔ نہ کسی نے  ’اووو ‘ کی نہ ’آآآ‘ کی آواز نکالی۔ نہ کوئی ایف آئی آر ہوئی نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی نہ کوئی عدالت میں حاضری ہوئی نہ ایک دن کی بھی قید مقدر بنی۔

یوں لگتا ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ  اور اپوزیشن کی لڑائی میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے کسی اونچے پلازے کی چھت  پر کھڑا اس سارے نظام پر قہقہے لگا رہا ہے، جس نظام میں سابق وزیر اعظم کو عمر قید دی جا سکتی ہے، حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا سکتی ہے، فوج کی تنصیبات پر آگ لگائی جا سکتی ہے لیکن ملک ریاض  کے خلاف نہ احتجاج ہو سکتا ہے نہ ان سے اختلاف ہو سکتا ہے۔  لگتا ہے اس ملک میں  سب کچھ ملک ریاض ہی  ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس نظام نے کب پینترا بدلنا ہے اور کب صرف ’اووو اووو‘ کرنا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم جنرل قمر جاوید باجوہ شہباز شریف عمار مسعود عمران خان ملک ریاض حسین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم شہباز شریف ملک ریاض حسین ہونا چاہیے تھا ان کے خلاف اووو اووو ملک ریاض سکتی ہے کر سکتی ہو سکتا نہیں ہو

پڑھیں:

 اب سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے، نفرتوں سے حکومت کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا:چیئرمین پی ٹی  آئی

پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اب سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے. نفرتوں سے حکومت کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا۔پشاور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ آج عمر ایوب، شبلی فراز اور عبدالطیف کی نا اہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت تھی. ان مقدمات میں الیکشن کمیشن نے غیر قانونی طور پر نا اہل کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت سے استدعا کی کل سماعت کر لی جائے، عدلیہ سے امید وابستہ ہے.عدلیہ کو کہتے ہیں کہ ریلیف اور انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے. کل اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ افسوس ناک ہے. کسی بھی جج کو عدالتی امور سے روکا نہیں جاسکتا. عوام کا پہلے ہی عدلیہ سے کافی اعتماد اٹھ چکا ہے.سپریم کورٹ اس معاملے میں ایکشن لے. اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے کریمنل کیسز جلد سنے جائیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اس وقت عوام مایوسی کے عالم میں ہیں. چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ ہمارے زیر التوا مقدمات پر قانون کے مطابق کارروائی کریں۔بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ عدلیہ ماتحت عدالتوں پر نظر رکھتی تو ہمارے 3 لوگوں کو 100 سال کی سزا نہ ہوتی.اب سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے. نفرتوں سے حکومت کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • طاقتور حلقوں کو فارم 47 سے بنی حکومت کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، اعظم سواتی
  • ن لیگ نے صوبائیت اور ڈیم کارڈ کبھی نہیں کھیلا، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  •  اب سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے، نفرتوں سے حکومت کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا:چیئرمین پی ٹی  آئی
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • ’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر کتنے ماہ قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے؟
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر