Express News:
2025-04-26@08:36:44 GMT

ریکوڈک میں ایک دن

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک پہاڑ کو لہٰذا ریکوڈک ریتلے پہاڑوں کا علاقہ ہے‘ یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع چاغی کا حصہ ہے‘ افغانستان کی سرحد اس سے 30 کلومیٹر جب کہ ایران کا تفتان بارڈر 100 کلو میٹر دور ہے‘ نوکنڈی ریکوڈک کا سب سے بڑا قصبہ ہے جس میں 20 ہزار لوگ رہائش پذیر ہیں‘ یہ پورا علاقہ لق ودق صحرا ہے‘ دور دور تک ریت اور مٹی کے سوا کچھ نہیں‘ درمیان میں کہیں کہیں خشک سیاہ پہاڑ ہیں۔ 

سال دو سال بعد ہلکی بارش ہوتی ہے تو تھوڑی بہت گھاس اور جھاڑیاں اگ جاتی ہیں اور اگر کسی سال قدرت مہربانی نہ کرے تو زمین ان سے بھی محروم رہتی ہے لیکن آپ اﷲ کی تقسیم دیکھیے‘ اس بیابان‘ لق و دق اور دور افتادہ زمین میں تانبے اور سونے کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔

حکومت نے ابھی ریکوڈک کا صرف 160 مربع کلومیٹر کا رقبہ سونا اور تانبا دریافت کرنیوالی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بیرک (Barrick) کے حوالے کیا ہے‘ اس کمپنی کے اندازے کے مطابق یہ لوگ شروع میں40 سال اور بعدازاں مزید 30 برس تک تانبا اور سونا نکال سکتے ہیں۔ 

تانبے کے یہ ذخائر ہمیں دنیا کے دس بڑے تانبا پروڈیوس کرنے والے ممالک اور سونے کے ذخائر 14 بڑے ممالک میں شامل کر دیں گے جب کہ پورے ریکوڈک کے ذخائر ہمیں تانبا اور سونا پروڈیوس کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا سکتے ہیں اور ہم اگلا سعودی عرب ہو سکتے ہیں۔

مجھے ہفتے کا دن ریکوڈک میں گزارنے کا اتفاق ہوا‘ یہ ایک دل چسپ اور مختلف تجربہ تھا‘ریکوڈک دور افتادہ علاقہ ہے‘ اس تک عام ذرائع سے پہنچنا مشکل ہے چناں چہ ہم پہلے چارٹرڈ فلائیٹ سے کراچی پہنچے۔

ہماری وہاں بیرک کے سی ای او اور صدر مارک بریسٹو اور اس کی ٹیم سے ملاقات ہوئی‘ مارک ساؤتھ افریقہ کے ٹاؤن ایسٹ کورٹ (Eastcourt) میں پیدا ہوا‘ پیشے کے لحاظ سے جیالوجسٹ ہے‘ جوانی میں اس نے رینڈ گولڈ کمپنی جوائن کر لی اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا کمپنی کے ایکسپلوریشن ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بن گیا‘ 1995ء میں اس نے رینڈ گولڈ ریسورسز کے نام سے اپنی کمپنی بنا لی‘ یہ کمپنی اتنی کام یاب ہو گئی کہ اس نے 2018میں سونا اور تانبا دریافت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بیرک خرید لی اور یوں یہ اس کا صدر اور سی ای او بن گیا۔

بیرک اس وقت ارجنٹائن‘ کینیڈا‘ چلی‘ کوٹ ڈی ایوری (Côte d'Ivoire) کانگو‘ ڈومینکن ری پبلک‘ مالی‘ پاپوانیوگنی‘ سعودی عرب‘ تنزانیا‘ امریکا اور زیمبیا میں کام کر رہی ہے‘ اس کا ہیڈکوارٹر ٹورنٹو میں ہے‘ 2023میں کمپنی نے دنیا کو 40لاکھ اونس کھرا سونا اور 40 کروڑ 20 لاکھ پونڈ تانبا دیا۔ 

کمپنی کے پاس سونے کے 7 کروڑ 70 لاکھ اونس ذخائر ہیں جب کہ بیرک کے اثاثوں کی ویلیو 46 بلین ڈالر ہے‘ مارک نے کھانے کی میز پر بتایا‘ ہم ریکوڈک سے 40سال میں 6 ارب ٹن تانبا اور 4 کروڑ 15 لاکھ اونس سونا نکال سکتے ہیں جس سے پاکستان اور بلوچستان کو بہت فائدہ ہو گا۔

حکومت نے بیرک کے ساتھ بہت اچھا معاہدہ کیا‘ کمپنی ریکوڈک کے 160 مربع کلومیٹرکی آمدنی کی پچاس فیصد رقم کی مالک ہو گی جب کہ 25 فیصد حصہ بلوچستان کو ملے گا اور باقی 25 فیصد وفاق کے حصے آئے گا۔ 

سائیٹ پر تمام انویسٹمنٹ کمپنی کرے گی‘ بلوچستان حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہو گا‘ بیرک کمپنی اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی فلاح وبہبود کی ذمے داری بھی اٹھائے گی۔

یہ معاہدہ اچھا بھی ہے اور پاکستان کے لیے مفید بھی‘ مارک ڈِنر کے دوران بلوچستان کی بہت تعریف کر رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا علاقہ خوب صورت ہے اور قدرت نے اسے نواز بھی رکھا ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان نے آج تک ان وسائل سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟

اس کا کہنا تھا ہم سردست علاقے میں کیمپ‘ سائیٹ اور دوسری سہولتوں کا بندوبست کر رہے ہیں‘ ڈرلنگ 2028میں شرع ہوگی اور اس کے بعد پاکستانی خزانے میں ڈالرز آنے لگیں گے‘ ہم ریکوڈک میں 40 سال کام کریں گے‘ یہ مدت مزید تیس چالیس سال بڑھ سکتی ہے‘ میں نے اسے بتایا میں ساؤتھ افریقہ وزٹ کر چکا ہوں۔ 

وہ اس کے بعد اپنے قصبے ایسٹ کورٹ اور وہاں موجود انڈین آبادی کے بارے میں بتانے لگا‘ ایسٹ کورٹ کی 21فیصد آبادی انڈینز پر مشتمل ہے‘ یہ لوگ قیام پاکستان سے 50 سال قبل ساؤتھ افریقہ چلے گئے تھے‘ مارک کا بچپن اور جوانی ان کے ساتھ گزری تھی‘ وہ ان کے کھانوں اور روایات کے دل چسپ قصے سناتا رہا۔

ہم اگلے دن چارٹرڈ فلائیٹ پر دوبارہ ریکوڈک روانہ ہوئے‘ بیرک کمپنی نے سائیٹ کے قریب اپنا رن وے اور عارضی ائیرپورٹ بنا لیا ہے‘ اس کی سیکیورٹی پاک فوج کے پاس ہے‘ کمپنی کی گاڑیاں بلٹ پروف ہیں اور ان کے آگے اور پیچھے فوج کی گاڑیاں اور جیمرز چلتے ہیں‘ ائیرپورٹ کے دائیں بائیں دور دور تک آبادی کا کوئی نام ونشان نہیں۔

تاہم دائیں جانب سیاہ رنگ کا ایک بڑا پہاڑ دکھائی دیتا ہے‘ لوکل لوگ اسے کوہ دلیل کہتے ہیں‘ کیمپ ائیرپورٹ سے دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ سڑک کچی ہے اور یہ بھی کمپنی نے بنائی ہے‘ کیمپ کنٹینر ہومز پر مشتمل ہے تاہم اس میں تمام سہولتیں موجود ہیں‘ والی بال گراؤنڈ‘ کینٹین‘ ٹک شاپ اور انٹرنیٹ تک دستیاب ہے۔ 

کمپنی نے پانی بڑی گہرائی سے نکالا‘ سولر پینلز اور ہیوی ڈیزل جینریٹرز کے ذریعے بجلی کا بندوبست بھی کر دیا ‘ کیمپ میں ساڑھے چھ سو لوگ رہائش پذیر ہیں جن میں سے 80 فیصد مقامی ہیں‘ بیرک کے غیرملکی ماہرین ان لوگوں کو ٹرینڈ کر رہے ہیں‘ مارک بھی ہمارے ساتھ تھا‘ اس کا کہنا تھا ہم 25 ہزار لوگوں کو ہائر کریں گے جن میں سے 80 فیصد اسی علاقے سے ہوں گے۔

اس سے مقامی آبادی کو روزگار ملے گا اور ان کی زندگیاں تبدیل ہوجائیں گی‘ کیمپ میں خواتین بھی تھیں‘ یہ تمام مقامی اور پڑھی لکھی تھیں‘ کمپنی ان میں سے آدھی خواتین کو ٹریننگ کے لیے اسکالر شپ پر یورپ بھجوا رہی تھی‘ خواتین اس پر بہت خوش تھیں‘ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی ہمیں جوائن کر لیا‘ ان کا جہاز اور ہیلی کاپٹر دونوں بیرک کے رن وے پر اترے‘ ہم کیمپ سے بعدازاں نوکنڈی گئے‘ ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس کا فاصلہ 20 منٹ جب کہ بائی روڈ ایک گھنٹہ ہے۔

نوکنڈی کوئٹہ تفتان روڈ پر غربت کا مارا چھوٹا سا قصبہ ہے‘ کھجوریں‘ گندم اور زیرہ مقامی آبادی کا کاروبار ہیں لیکن یہ کاروبار ان کی ضرورت کے لیے ناکافی ہے‘ افغانستان اور ایران زیادہ دور نہیں چناں چہ اسمگلنگ ان کا بڑا روزگار ہے‘ فوج نے اسمگلنگ کے خلاف آپریشنز شروع کر رکھے ہیں۔

یہ لوگ اس پر شاکی ہیں‘ ان کا کہنا ہے ’’حکومت اگر ہماری اسمگلنگ بھی بند کر دے گی تو پھر ہم کھائیں گے کیا؟‘‘ یہ لوگ اسمگلنگ کو اسمگلنگ نہیں سمجھتے‘ کاروبار سمجھتے ہیں اور بچپن سے اس کام میں جت جاتے ہیں‘ مجھے مقامی سرداروں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا‘ ان کی باتوں میں جان تھی۔ 

ان کا کہنا تھا ہم 70 کلومیٹر سے پانی لے کر آتے ہیں‘ کوئٹہ ہم سے 10 گھنٹے دور ہے‘ علاقہ ویران اور لق ودق ہے‘ بکریوں کے لیے گھاس تک موجود نہیں‘ بارش ہوتی نہیں اور گرمیوں میں خوف ناک گرمی پڑتی ہے چناں چہ آپ خود بتائیں ہم کاروبار (اسمگلنگ) نہ کریں تو کیا کریں۔ 

یہ بلوچستان حکومت سے بھی ناراض تھے تاہم یہ بیرک کمپنی اور مارک کی بہت تعریف کر رہے تھے‘ اس تعریف کی تین بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ بیرک مقامی لوگوں کو ملازمتیں دے رہی تھی‘ دوسرا کمپنی نے نوکنڈی میں اسپتال اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنا دیا۔ 

ہمیں اسپتال اور انسٹی ٹیوٹ دونوں دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ اسپتال انڈس ہاسپٹل کی برانچ تھا جب کہ انسٹی ٹیوٹ ہنر فاؤنڈیشن چلا رہی تھی‘ دونوں کی فنڈنگ بیرک نے کی تھی اور تیسری وجہ کمپنی نے دونوں اداروں کا انتظام مقامی سرداروں کی کمیٹی کے حوالے کر دیا تھا‘ کمیٹی کے سربراہ حاجی صاحب تھے‘ بیرک نے حاجی صاحب کی منظوری سے نوکنڈی میں ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے‘ حاجی صاحب اور ان کے ساتھی اس پر بہت خوش تھے۔ 

سرفراز بگٹی نے اسپتال اور ہنر انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح بھی کیا اور دورہ بھی‘ ہنر انسٹی ٹیوٹ کی بچیوں نے وزیراعلیٰ کو بتایا‘ ہمارے علاقے میں زنانہ کالج نہیں ہے‘ وزیراعلیٰ نے فوری طور پر کالج کا اعلان کر دیا لیکن سرفراز بگٹی کے بعد حاجی صاحب کا دعویٰ تھا اس قسم کے اعلان پہلے بھی ہو چکے ہیں‘ کالج ماضی میں بھی نہیں بنا اور اب بھی نہیں بنے گا۔

میں نے حاجی صاحب کو تسلی دی‘ مجھے یقین ہے سرفراز بگٹی اپنا وعدہ یاد رکھیں گے اور اگر یہ بھول گئے تو ہم انھیں یاد کرائیں گے اور اگر پھر بھی کالج نہ بنا تو میں مارک بریسٹو سے کالج بنوا دوں گا‘ حاجی صاحب اور ان کے دوستوں نے دل سے میرا شکریہ ادا کیا‘ یہ لوگ واقعی مخلص اور سادہ دل تھے‘ ان کی بچیوں کو پڑھنے کا شوق بھی تھا‘ اﷲ کرے نوکنڈی میں کالج بن جائے اور لڑکیاں پڑھ لکھ کر بیرک میں کام کر سکیں۔

ریکوڈک سونے کی زمین ہے‘ اس کے نیچے کھربوں ڈالر کا سونا چھپا ہوا ہے لیکن اوپر غربت‘ بیماری اور ناراضی کی فصلیں لہلہا رہی ہیں‘ لوگوں کے شکوے صرف شکوے نہیں ہیں‘ ان میں حقیقت ہے‘ ریاست کو دیر سے سہی لیکن خیال تو آیا‘ ہم اگر مائننگ میں کام یاب ہو جاتے ہیں اور کل کوئی اور افتخار محمد چوہدری یا قائد انقلاب ریکوڈک کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا تو اس علاقے کا مقدر بدل جائے گا۔ 

بلوچستان میں خوش حالی آ جائے گی اور وفاق کو بھی دردر بھیک نہیں مانگنا پڑے گی لیکن اس کے لیے استحکام اور بزنس اپروچ چاہیے اور ہماری تاریخ میں ان دونوں کی خوف ناک کمی ہے‘ ہم من حیث القوم اینٹی بزنس ہیں‘ خود کاروبار کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں‘ ہم ملک میں استحکام بھی نہیں آنے دیتے‘ اچھی بھلی چلتی گاڑی کو کھول کر بیٹھ جاتے ہیں‘ اﷲ کرے اس بار ہمارا ماضی ہمارے راستے کی رکاوٹ نہ بنے اور اگر یہ ہو گیا تو یقین کریں ملک بدل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں سونے کی یہ زمین بھی اسی طرح بارش کا انتظار کرتی رہ جائے گی اور ہم بھی در در بھیک مانگتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرفراز بگٹی کا کہنا تھا سکتے ہیں کے ساتھ اور اگر بیرک کے ہیں اور اور ان کے لیے

پڑھیں:

وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر

کتنی اچھی تھی وہ بیسویں صدی۔تھوڑے سے ڈاکٹر، اور تھوڑے ہی مریض ہوتے۔ موسمی بخار  اور نزلہ زکام ہی معمول کی بیماریاں تھیں۔ ہاں کسی کو ماں کی بددعا یا فقیر کی آہ لگ جاتی تو دانت یا کان کے درد جیسے ’سنگین امراض‘ بھی لاحق ہوجاتے۔ تشویشناک مریضوں کی اکثریت وہ ہوتی جو ٹرک اور بس کے تصادم میں اوپر پہنچنے کی بجائے اسپتال پہنچ جاتے۔ یوں سرجیکل وارڈ ہی ہر اسپتال کے بڑے وارڈز ہوتے۔ تب پبلک ٹرانسپورٹ کم اور شاہراہیں شہروں میں بھی یکطرفہ پر دو طرفہ تھیں۔ سو تصادم آمنے سامنے کے ہوتے اور ہر دوسرے ہفتے 20 ہلاک 40 زخمی کی خبر اخبارات میں نظر آتی۔ پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور اس نے دو رویہ شاہراہوں کا جال پھیلا کر قوم کو مزید معذور ہونے سے بچا لیا۔  یوں پاکستان نئے دور یعنی اکیسویں صدی میں دو رویہ سڑکوں کے ساتھ داخل ہوا۔

نئی صدی تھی، سو لوگ بھی نئے تھے۔ اور لوگ نئے تھے تو ڈاکٹر بھی نئے تھے۔ بیسویں صدی والا ڈاکٹر بہت بڑی بے ایمانی بھی کرتا تو یہ کہ 50 روپے فیس پتلون میں اڑسنے کے بعد جو دوا لکھ کر دیتا وہ ایسی دیتا کہ مریض پہلے ہی چکر پر ٹھیک نہ ہو۔ کم از کم 50 کا ایک نوٹ مزید دینے کو حاضر ہو پھر بیشک صحت مند ہوجائے۔ مطب بند ہوتا تو شٹر کو چائنا والے 2 عدد تالے لگے ہوتے۔ یوں بورڈ پڑھے بغیر بند شٹرز سے پتہ ہی نہ چلتا کہ کون سا کلینک ہے اور کون سی پرچون کی دکان؟ مطب کھلتا تو کوئی ریسیپشن نہ ہوتا۔ ڈاکٹر اور اس کا  کمپاؤڈرہی کل اہلیان مطب ہوتے۔ اور کمپاؤڈر کمپاؤڈری کے ساتھ مطب کے جھاڑو پوچے اور چوکیداری کے اضافی قلمدان بھی رکھتا۔ بھروسہ اس پر  ڈاکٹر  ٹکے کا نہ کرتا۔ جس کا پتہ یوں چلتا کہ فیس ڈاکٹر صاحب ہر حال میں بدست خود وصول فرماتے اور پتلون کی جیب میں اڑستے جاتے۔ گھر جاتے تو بیگم کو ساتھ ملا کر ان مڑے تڑے 50 کے نوٹوں کو استری کر لیتے۔ بیگم کسی ہفتہ صفائی کے نتیجے میں  کم آمدنی کی شکایت کرتی تو وہ فرماتے

’ڈارلنگ ! بس کسی طرح یہ مہینہ گزار لو۔ اگلے مہینے ساون شروع ہوجائے گا، پھر مریض ہی مریض ہوں گے۔‘

دور نے گزرنا ہوتا ہے، سو وہ دور بھی نہ رہا۔ اب  ہم کھڑے ہیں اکیسویں صدی میں۔

جہاں وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر ایکسپائر ہوچکا۔ اور اس کی جگہ لے لی ہے نئے دور کے نئے ڈاکٹر نے۔ جتنا یہ ڈاکٹر  خود عجیب و غریب ہے اتنی ہی عجیب و غریب یہ بیماریاں ساتھ لایا ہے، جس کے لیے اسے جراثیمی امور کے سائنسدانوں کی مدد حاصل ہے۔ اس کے کلینک کی دیوار شیشے کی  ہے۔ سلائیڈنگ ڈورز ہیں، اور سلائیڈنگ ہی کھڑکیاں۔ جھاڑو پوچے کے لیے سویپر رکھا ہوا ہے۔ باہر ایک کاؤنٹر ہے، اور کاؤنٹر پر ایک دوشیزہ ہے۔ صورت بیشک ڈراؤنی ہے مگر ہے دوشیزہ ہی۔ اندر ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک اسسٹنٹ چوکس و تیار کھڑا ہے۔ جو بوقت ضرورت مریض کا ناڑا کھولنے کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ اور ماشاءاللہ  کلینک میں اے سی بھی چل رہا ہے۔ یوں پہلے صرف ڈاکٹر کی فیس دینا پڑتی تھی جو 50 روپے ہوتی۔ اب ڈاکٹر کے کلینک کے کھڑکی شیشوں کا خرچ بھی مریض نے ہی تاحیات قسطوں میں اٹھانا ہے۔ اے سی کا بل، وہ باہر والی دوشیزہ،  اندر والے اسسٹنٹ اور سویپر کی تنخواہیں بھی مریض کی جب سے جائیں گی۔ یوں جاتے ہم ڈاکٹر کے پاس ہیں مگر فیس ہمیں ان 4 لوگوں کی ادا کرنا ہوتی ہے۔

آپ نے غور کیا؟ اس اکیسویں صدی والے ڈاکٹر کے اسٹاف میں کمپاؤڈر کا ذکر نہیں آیا۔ ہے نا عجیب بات ؟ سوال یہ ہے کہ کمپاؤڈر گیا کہا ں؟ اگر کوئی ارتقاء ہوا ہے تو اس کی جگہ لینے والا اب کیا کہلاتا ہے ؟ یہی تو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے۔ کمپاؤڈر کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے نسل ہی ختم کردی۔ اب آپ کو مطب سے دوا نہیں صرف پرچی ملتی ہے۔ اور پرچی بھی نہیں بلکہ پرچیاں ملتی ہیں۔ وہ 50 روپے والا ڈاکٹر اتنا وضعدار تھا  کہ ہم منہ بنا کر جاتے تو وہ کہتا

’منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟ ہلکا سا بخار ہے دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا’

اور یہ آج کل والے نمونے کے پاس اگر ہنستے مسکراتے جایئے تو یہ فورا کہتا ہے

مجھے لگتا ہے آپ اپنی بیماری کو سیریس نہیں لے رہے !

‘سیریس؟ ہلکا سا زکام ہی تو ہے، اس میں سیریس کیا چیز ہے ؟‘

’نہیں بھئی !  مجھے یہ کچھ اور لگ رہا ہے۔ بس دعا کیجیے کہ جو مجھے لگ رہا ہے وہ ہو ناں۔ یہ پرچی لیجیے، اور ’لٹ مچاؤ لیب‘ سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لائیے تب ہی صورتحال واضح ہوگی۔‘

جو شخص کچھ ہی دیر قبل  بہت پر اعتماد قدموں سے چلتا کلینک میں داخل ہوا تھا۔ وہ خود پر آیت الکرسیاں پڑھتے ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہوجاتا ہے تو  اکیسویں صدی کا ڈاکٹر پیچھے سے آواز دے کر کہتا ہے:

میں ’لٹ مچاؤ لیب‘ کے سوا کسی بھی لیب پر ٹرسٹ نہیں کرتا۔ ٹیسٹ وہیں کے ہونے چاہئیں۔

اور جب وہ 10 ہزار روپے کے ٹیسٹ کرا کر رپورٹس کا لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ پر لا رکھتا ہے تو  یہ رپورٹ پر ایک  نظر ڈالتا ہے اور پھر چہرے پر مصنوعی تبسم پھیلا کر یوں گویا ہوتا ہے

’شکر الحمدللہ ! ! ! ! ! مبارک ہو سر ! مجھے جو خدشہ تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ یہ زکام ہی ہے۔ 5 دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باہر فارمیسی ہے، اسی سے یہ ساری دوائیاں لیجیے گا، کیونکہ باقی سب جعلی دوائیاں فروخت کرتے ہیں۔ پورے شہر میں اصلی دوائیاں صرف اسی فارمیسی سے ملتی ہیں۔ انشاءاللہ دو تین ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔‘

’سر ! زکام کے لیے اتنی ساری دوائیں؟‘

’یہ عام زکام نہیں ہے۔ اسے ہلکا مت لیجیے۔ معمولی سی بھی غفلت برتی  توکووڈ 19 میں کنورٹ ہوجائے گا۔‘

یوں یہ اکیسویں صدی کا ڈاکٹر  لیب اور فارماسیوٹیکل کمپنی دونوں سے کمیشن پاتا ہے۔ اور اس لیے پاتا ہے کہ لیب اور فارما کے لیے ہماری جیبوں بلکہ تجوریوں پر ڈاکہ ڈاکٹر صاحب نے ہی ڈالا ہے۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جس طرح ’ڈاکے‘ والا ڈاکو کہلاتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر بھی ڈاکے سے ہی ماخوذ لگ رہا ہے۔ صورتحال اس قدر افسوسناک ہے کہ نیورالوجسٹ ڈپریشن کےشکار شخص کا ڈیڑھ برس تک اس کے باوجود علاج کرتے ہیں کہ ڈپریشن سرے سے طبی مرض ہی نہیں۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے۔ سو یہ جب بھی سوشل سرگرمیاں کمپرومائز کرے گا، ڈپریشن کا شکار ہونا طے ہے۔ کیا نیورالوجسٹ کو نہیں معلوم کہ ڈپریشن طبی عارضہ نہیں؟ اور اس کا شکار شخص کبھی بھی دوا کے ذریعے اس سے نجات نہیں پاسکتا ؟ وہ اچھی طرح جانتا ہے مگر کلینک آیا شخص تو ڈاکٹر کی روزی روٹی ہے۔ بھلا کوئی روزی روٹی کو بھی لات مارتا ہے؟

اگر آپ ڈپریشن کا شکار ہیں تو کسی ڈاکٹر کے پاس مت جایئے۔ بس اتنا کر لیجیے کہ اپنی سوشل سرگرمی کے تینوں سرکل پوری طرح ایکٹو کر لیجیے۔ پہلا سرکل فیملی کا ہے۔ فیملی کو باقاعدہ وقت دیجیے۔ اہلخانہ سے روز کم از کم گھنٹہ دو گپ شپ کیجیے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام 6 بجھے سے رات 9 تک گھر کا وائی فائی بند رکھیے۔ وہ بند ہوگا سب اہلخانہ ٹی وی لاؤنج میں ہوں گے، اور خود کار طور پر گپ شپ کا ماحول بن جایا کرے گا۔

دوسرا سرکل آپ کے رشتے داروں کا ہے، ان سے اسی طرح میل جول اختیار کر لیجیے جس طرح سوشل میڈیا دور سے قبل والی نسل کا تھا۔

تیسرا سرکل ذاتی دوستوں کا ہے۔ ان میں آپ کے کلاس فیلوز، کولیگز، ٹیم میٹس، اور گاؤں والوں سمیت وہ سب آتے ہیں جن سے آپ کی ذاتی دوستی ہے۔ ان سے بھی آپ کا میل جول متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

اگر آپ کے یہ تینوں سرکل پورے بھی ہیں اور نارمل بھی ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہوں۔ یہ وبا سوشل میڈیا دور کی دین ہے۔ اس کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ سو اس کے علاج کے لیے نیورالوجسٹ سے دور رہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

رعایت اللہ فاروقی

متعلقہ مضامین

  • لاہور، پی ایس ایل کی براڈکاسٹ کمپنی میں شامل بھارتی عملہ پاکستان سے بے دخل
  • وزیر خزانہ  کی واشنگٹن میں عالمی مالیاتی اداروں سے اہم ملاقاتیں، عالمی تعاون اور سرمایہ کاری پر زور
  • قومی ایئرلائن کی خریدار کمپنی پہلے سے بہت زیادہ فائدے میں رہے گی، معاون خصوصی برائے نجکاری
  • جنید جمشید کی کمپنی بک گئی، کیا نام رہے گا؟
  • فضائی کمپنی نے مسافر کو جہاز سے اترجانے کے لیے 3 ہزار ڈالر کی پیشکش کیوں کی؟
  • گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر کیوں، لکی موٹرز نے وجہ بتادی
  • امریکا نے ایرانی ایل پی جی کمپنی اور اس کے کارپوریٹ نیٹ ورک پر بھی پابندیاں عائد کردی
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • ٹیسلا کی فروخت، منافع میں کمی، ایلون مسک کا حکومت میں اپنا کردار کم کرنے کا اعلان
  • ٹیسلا کو بڑا جھٹکا کمپنی کے منافع میں70فیصد کمی