Express News:
2025-06-09@21:49:33 GMT

ریکوڈک میں ایک دن

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک پہاڑ کو لہٰذا ریکوڈک ریتلے پہاڑوں کا علاقہ ہے‘ یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع چاغی کا حصہ ہے‘ افغانستان کی سرحد اس سے 30 کلومیٹر جب کہ ایران کا تفتان بارڈر 100 کلو میٹر دور ہے‘ نوکنڈی ریکوڈک کا سب سے بڑا قصبہ ہے جس میں 20 ہزار لوگ رہائش پذیر ہیں‘ یہ پورا علاقہ لق ودق صحرا ہے‘ دور دور تک ریت اور مٹی کے سوا کچھ نہیں‘ درمیان میں کہیں کہیں خشک سیاہ پہاڑ ہیں۔ 

سال دو سال بعد ہلکی بارش ہوتی ہے تو تھوڑی بہت گھاس اور جھاڑیاں اگ جاتی ہیں اور اگر کسی سال قدرت مہربانی نہ کرے تو زمین ان سے بھی محروم رہتی ہے لیکن آپ اﷲ کی تقسیم دیکھیے‘ اس بیابان‘ لق و دق اور دور افتادہ زمین میں تانبے اور سونے کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔

حکومت نے ابھی ریکوڈک کا صرف 160 مربع کلومیٹر کا رقبہ سونا اور تانبا دریافت کرنیوالی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بیرک (Barrick) کے حوالے کیا ہے‘ اس کمپنی کے اندازے کے مطابق یہ لوگ شروع میں40 سال اور بعدازاں مزید 30 برس تک تانبا اور سونا نکال سکتے ہیں۔ 

تانبے کے یہ ذخائر ہمیں دنیا کے دس بڑے تانبا پروڈیوس کرنے والے ممالک اور سونے کے ذخائر 14 بڑے ممالک میں شامل کر دیں گے جب کہ پورے ریکوڈک کے ذخائر ہمیں تانبا اور سونا پروڈیوس کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا سکتے ہیں اور ہم اگلا سعودی عرب ہو سکتے ہیں۔

مجھے ہفتے کا دن ریکوڈک میں گزارنے کا اتفاق ہوا‘ یہ ایک دل چسپ اور مختلف تجربہ تھا‘ریکوڈک دور افتادہ علاقہ ہے‘ اس تک عام ذرائع سے پہنچنا مشکل ہے چناں چہ ہم پہلے چارٹرڈ فلائیٹ سے کراچی پہنچے۔

ہماری وہاں بیرک کے سی ای او اور صدر مارک بریسٹو اور اس کی ٹیم سے ملاقات ہوئی‘ مارک ساؤتھ افریقہ کے ٹاؤن ایسٹ کورٹ (Eastcourt) میں پیدا ہوا‘ پیشے کے لحاظ سے جیالوجسٹ ہے‘ جوانی میں اس نے رینڈ گولڈ کمپنی جوائن کر لی اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا کمپنی کے ایکسپلوریشن ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بن گیا‘ 1995ء میں اس نے رینڈ گولڈ ریسورسز کے نام سے اپنی کمپنی بنا لی‘ یہ کمپنی اتنی کام یاب ہو گئی کہ اس نے 2018میں سونا اور تانبا دریافت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بیرک خرید لی اور یوں یہ اس کا صدر اور سی ای او بن گیا۔

بیرک اس وقت ارجنٹائن‘ کینیڈا‘ چلی‘ کوٹ ڈی ایوری (Côte d'Ivoire) کانگو‘ ڈومینکن ری پبلک‘ مالی‘ پاپوانیوگنی‘ سعودی عرب‘ تنزانیا‘ امریکا اور زیمبیا میں کام کر رہی ہے‘ اس کا ہیڈکوارٹر ٹورنٹو میں ہے‘ 2023میں کمپنی نے دنیا کو 40لاکھ اونس کھرا سونا اور 40 کروڑ 20 لاکھ پونڈ تانبا دیا۔ 

کمپنی کے پاس سونے کے 7 کروڑ 70 لاکھ اونس ذخائر ہیں جب کہ بیرک کے اثاثوں کی ویلیو 46 بلین ڈالر ہے‘ مارک نے کھانے کی میز پر بتایا‘ ہم ریکوڈک سے 40سال میں 6 ارب ٹن تانبا اور 4 کروڑ 15 لاکھ اونس سونا نکال سکتے ہیں جس سے پاکستان اور بلوچستان کو بہت فائدہ ہو گا۔

حکومت نے بیرک کے ساتھ بہت اچھا معاہدہ کیا‘ کمپنی ریکوڈک کے 160 مربع کلومیٹرکی آمدنی کی پچاس فیصد رقم کی مالک ہو گی جب کہ 25 فیصد حصہ بلوچستان کو ملے گا اور باقی 25 فیصد وفاق کے حصے آئے گا۔ 

سائیٹ پر تمام انویسٹمنٹ کمپنی کرے گی‘ بلوچستان حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہو گا‘ بیرک کمپنی اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی فلاح وبہبود کی ذمے داری بھی اٹھائے گی۔

یہ معاہدہ اچھا بھی ہے اور پاکستان کے لیے مفید بھی‘ مارک ڈِنر کے دوران بلوچستان کی بہت تعریف کر رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا علاقہ خوب صورت ہے اور قدرت نے اسے نواز بھی رکھا ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان نے آج تک ان وسائل سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟

اس کا کہنا تھا ہم سردست علاقے میں کیمپ‘ سائیٹ اور دوسری سہولتوں کا بندوبست کر رہے ہیں‘ ڈرلنگ 2028میں شرع ہوگی اور اس کے بعد پاکستانی خزانے میں ڈالرز آنے لگیں گے‘ ہم ریکوڈک میں 40 سال کام کریں گے‘ یہ مدت مزید تیس چالیس سال بڑھ سکتی ہے‘ میں نے اسے بتایا میں ساؤتھ افریقہ وزٹ کر چکا ہوں۔ 

وہ اس کے بعد اپنے قصبے ایسٹ کورٹ اور وہاں موجود انڈین آبادی کے بارے میں بتانے لگا‘ ایسٹ کورٹ کی 21فیصد آبادی انڈینز پر مشتمل ہے‘ یہ لوگ قیام پاکستان سے 50 سال قبل ساؤتھ افریقہ چلے گئے تھے‘ مارک کا بچپن اور جوانی ان کے ساتھ گزری تھی‘ وہ ان کے کھانوں اور روایات کے دل چسپ قصے سناتا رہا۔

ہم اگلے دن چارٹرڈ فلائیٹ پر دوبارہ ریکوڈک روانہ ہوئے‘ بیرک کمپنی نے سائیٹ کے قریب اپنا رن وے اور عارضی ائیرپورٹ بنا لیا ہے‘ اس کی سیکیورٹی پاک فوج کے پاس ہے‘ کمپنی کی گاڑیاں بلٹ پروف ہیں اور ان کے آگے اور پیچھے فوج کی گاڑیاں اور جیمرز چلتے ہیں‘ ائیرپورٹ کے دائیں بائیں دور دور تک آبادی کا کوئی نام ونشان نہیں۔

تاہم دائیں جانب سیاہ رنگ کا ایک بڑا پہاڑ دکھائی دیتا ہے‘ لوکل لوگ اسے کوہ دلیل کہتے ہیں‘ کیمپ ائیرپورٹ سے دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ سڑک کچی ہے اور یہ بھی کمپنی نے بنائی ہے‘ کیمپ کنٹینر ہومز پر مشتمل ہے تاہم اس میں تمام سہولتیں موجود ہیں‘ والی بال گراؤنڈ‘ کینٹین‘ ٹک شاپ اور انٹرنیٹ تک دستیاب ہے۔ 

کمپنی نے پانی بڑی گہرائی سے نکالا‘ سولر پینلز اور ہیوی ڈیزل جینریٹرز کے ذریعے بجلی کا بندوبست بھی کر دیا ‘ کیمپ میں ساڑھے چھ سو لوگ رہائش پذیر ہیں جن میں سے 80 فیصد مقامی ہیں‘ بیرک کے غیرملکی ماہرین ان لوگوں کو ٹرینڈ کر رہے ہیں‘ مارک بھی ہمارے ساتھ تھا‘ اس کا کہنا تھا ہم 25 ہزار لوگوں کو ہائر کریں گے جن میں سے 80 فیصد اسی علاقے سے ہوں گے۔

اس سے مقامی آبادی کو روزگار ملے گا اور ان کی زندگیاں تبدیل ہوجائیں گی‘ کیمپ میں خواتین بھی تھیں‘ یہ تمام مقامی اور پڑھی لکھی تھیں‘ کمپنی ان میں سے آدھی خواتین کو ٹریننگ کے لیے اسکالر شپ پر یورپ بھجوا رہی تھی‘ خواتین اس پر بہت خوش تھیں‘ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی ہمیں جوائن کر لیا‘ ان کا جہاز اور ہیلی کاپٹر دونوں بیرک کے رن وے پر اترے‘ ہم کیمپ سے بعدازاں نوکنڈی گئے‘ ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس کا فاصلہ 20 منٹ جب کہ بائی روڈ ایک گھنٹہ ہے۔

نوکنڈی کوئٹہ تفتان روڈ پر غربت کا مارا چھوٹا سا قصبہ ہے‘ کھجوریں‘ گندم اور زیرہ مقامی آبادی کا کاروبار ہیں لیکن یہ کاروبار ان کی ضرورت کے لیے ناکافی ہے‘ افغانستان اور ایران زیادہ دور نہیں چناں چہ اسمگلنگ ان کا بڑا روزگار ہے‘ فوج نے اسمگلنگ کے خلاف آپریشنز شروع کر رکھے ہیں۔

یہ لوگ اس پر شاکی ہیں‘ ان کا کہنا ہے ’’حکومت اگر ہماری اسمگلنگ بھی بند کر دے گی تو پھر ہم کھائیں گے کیا؟‘‘ یہ لوگ اسمگلنگ کو اسمگلنگ نہیں سمجھتے‘ کاروبار سمجھتے ہیں اور بچپن سے اس کام میں جت جاتے ہیں‘ مجھے مقامی سرداروں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا‘ ان کی باتوں میں جان تھی۔ 

ان کا کہنا تھا ہم 70 کلومیٹر سے پانی لے کر آتے ہیں‘ کوئٹہ ہم سے 10 گھنٹے دور ہے‘ علاقہ ویران اور لق ودق ہے‘ بکریوں کے لیے گھاس تک موجود نہیں‘ بارش ہوتی نہیں اور گرمیوں میں خوف ناک گرمی پڑتی ہے چناں چہ آپ خود بتائیں ہم کاروبار (اسمگلنگ) نہ کریں تو کیا کریں۔ 

یہ بلوچستان حکومت سے بھی ناراض تھے تاہم یہ بیرک کمپنی اور مارک کی بہت تعریف کر رہے تھے‘ اس تعریف کی تین بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ بیرک مقامی لوگوں کو ملازمتیں دے رہی تھی‘ دوسرا کمپنی نے نوکنڈی میں اسپتال اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنا دیا۔ 

ہمیں اسپتال اور انسٹی ٹیوٹ دونوں دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ اسپتال انڈس ہاسپٹل کی برانچ تھا جب کہ انسٹی ٹیوٹ ہنر فاؤنڈیشن چلا رہی تھی‘ دونوں کی فنڈنگ بیرک نے کی تھی اور تیسری وجہ کمپنی نے دونوں اداروں کا انتظام مقامی سرداروں کی کمیٹی کے حوالے کر دیا تھا‘ کمیٹی کے سربراہ حاجی صاحب تھے‘ بیرک نے حاجی صاحب کی منظوری سے نوکنڈی میں ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے‘ حاجی صاحب اور ان کے ساتھی اس پر بہت خوش تھے۔ 

سرفراز بگٹی نے اسپتال اور ہنر انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح بھی کیا اور دورہ بھی‘ ہنر انسٹی ٹیوٹ کی بچیوں نے وزیراعلیٰ کو بتایا‘ ہمارے علاقے میں زنانہ کالج نہیں ہے‘ وزیراعلیٰ نے فوری طور پر کالج کا اعلان کر دیا لیکن سرفراز بگٹی کے بعد حاجی صاحب کا دعویٰ تھا اس قسم کے اعلان پہلے بھی ہو چکے ہیں‘ کالج ماضی میں بھی نہیں بنا اور اب بھی نہیں بنے گا۔

میں نے حاجی صاحب کو تسلی دی‘ مجھے یقین ہے سرفراز بگٹی اپنا وعدہ یاد رکھیں گے اور اگر یہ بھول گئے تو ہم انھیں یاد کرائیں گے اور اگر پھر بھی کالج نہ بنا تو میں مارک بریسٹو سے کالج بنوا دوں گا‘ حاجی صاحب اور ان کے دوستوں نے دل سے میرا شکریہ ادا کیا‘ یہ لوگ واقعی مخلص اور سادہ دل تھے‘ ان کی بچیوں کو پڑھنے کا شوق بھی تھا‘ اﷲ کرے نوکنڈی میں کالج بن جائے اور لڑکیاں پڑھ لکھ کر بیرک میں کام کر سکیں۔

ریکوڈک سونے کی زمین ہے‘ اس کے نیچے کھربوں ڈالر کا سونا چھپا ہوا ہے لیکن اوپر غربت‘ بیماری اور ناراضی کی فصلیں لہلہا رہی ہیں‘ لوگوں کے شکوے صرف شکوے نہیں ہیں‘ ان میں حقیقت ہے‘ ریاست کو دیر سے سہی لیکن خیال تو آیا‘ ہم اگر مائننگ میں کام یاب ہو جاتے ہیں اور کل کوئی اور افتخار محمد چوہدری یا قائد انقلاب ریکوڈک کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا تو اس علاقے کا مقدر بدل جائے گا۔ 

بلوچستان میں خوش حالی آ جائے گی اور وفاق کو بھی دردر بھیک نہیں مانگنا پڑے گی لیکن اس کے لیے استحکام اور بزنس اپروچ چاہیے اور ہماری تاریخ میں ان دونوں کی خوف ناک کمی ہے‘ ہم من حیث القوم اینٹی بزنس ہیں‘ خود کاروبار کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں‘ ہم ملک میں استحکام بھی نہیں آنے دیتے‘ اچھی بھلی چلتی گاڑی کو کھول کر بیٹھ جاتے ہیں‘ اﷲ کرے اس بار ہمارا ماضی ہمارے راستے کی رکاوٹ نہ بنے اور اگر یہ ہو گیا تو یقین کریں ملک بدل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں سونے کی یہ زمین بھی اسی طرح بارش کا انتظار کرتی رہ جائے گی اور ہم بھی در در بھیک مانگتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرفراز بگٹی کا کہنا تھا سکتے ہیں کے ساتھ اور اگر بیرک کے ہیں اور اور ان کے لیے

پڑھیں:

فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام

عیدالاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالٰی کے حضور پیش کی تھی۔ اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوںکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔

اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ صرف ایک والد کی طرف سے اپنے بیٹے کی جان دینے کا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عظیم آزمائش تھی۔

حضرت اسماعیلؑ کا رضا مند ہونا، حضرت ابراہیم ؑ کا صبر، اور پھر اللہ تعالیٰ کا فدیہ بھیج دینا ۔ یہ سب ایمان، وفاداری اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہی واقعہ آج بھی قربانی کی صورت میں دہرایا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے ہاں دو عیدیں منائی جاتی ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی…لیکن ان میں سے عید الاضحی کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کیوںکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور اللہ سے وفاداری کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن فقط ظاہری مسرتوں اور چمک دمک کا مظہر نہیں، بلکہ یہ اندرونی پاکیزگی، خلوص نیت، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا کرنے کا نام ہے۔

عید کے موقع پر جب لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں، دل کی کدورتیں دور کرتے ہیں، اور خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو یہ محض رسمی عمل نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے اتحاد، اخوت، اور بھائی چارے کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ عید الفطر، رمضان کے بابرکت مہینے کے اختتام پر خوشی کا پیغام ہوتی ہے، جہاں روزے داروں کو اللہ کی طرف سے انعام و انعام ملتا ہے۔ جبکہ عید الاضحی، ایمان کے ایک عظیم امتحان کی یادگار ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کیا۔ یہ واقعہ صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ اللہ کی رضا کے آگے ہر چیز ہیچ ہے، حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی۔ عید الاضحی دراصل قربانی کے فلسفے کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں پیش کر کے، اپنی بندگی، عاجزی، اور فرمانبرداری کا عملی ثبوت دیتا ہے۔

عیدِ قربان پر معاشی سرگرمیاں

عید الاضحی کا معیشت پر بھی نمایاں اثر پڑتا ہے۔ لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت، قصائیوں، چارہ فروشوں، اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کے لیے یہ دن معاشی سرگرمی کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی علاقوں سے جانور شہروں میں آتے ہیں، بازار سجتے ہیں، اور ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ اگرچہ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔ قربانی کے جانوروں کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق عید الاضحیٰ 2023ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.1 ملین (61 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 531 ارب روپے تھی۔ اس برس قربان کیے گئے جانوروں گائے اور بیل 2.6 ملین، بکرے 3 ملین، بھیڑیں 350,000، بھینسیں: 150,000 اور اونٹ: 87,000 تھے۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق، ان قربانیوں سے حاصل ہونے والی کھالوں کی مالیت تقریباً 7 ارب روپے تھی، تاہم شدید گرمی اور مناسب دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے کھالوں کا تقریباً 35 فیصد حصہ ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ یوں ہی پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ 2024ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.8 ملین (68 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 500 ارب روپے سے زائد تھی۔ قربان کیے گئے جانوروں میں 28 لاکھ گائے، 33 لاکھ بکرے، 1.65 لاکھ بھینسیں، 99 ہزار اونٹ اور 3.85لاکھ بھیڑیں شامل تھیں۔

عید الاضحیٰ 2025ء کے دوران پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی تعداد اور مالیت کے حوالے سے سرکاری یا مستند اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں تاہم، گزشتہ سالوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال بھی تقریباً 6.5 سے 7.0 ملین (65 سے 70 لاکھ) جانور قربان کیے جا سکتے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 500 سے 550 ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔

قربانی کی اصل روح

قربانی اسلام کا ایک عظیم شعائر ہے، جو صرف ایک رسم یا ظاہری عمل نہیں بلکہ انسان کے باطن کی پاکیزگی اور خلوص نیت کا امتحان ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اْسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (سور? الحج: 37)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا، عاجزی اور اخلاص کا اظہار ہے۔ قربانی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان صرف جانور ہی نہیں، بلکہ اپنے نفس کی قربانی دیتا ہے۔

اس میں وہ اپنی خواہشات، ضد، انا، حسد، خود غرضی، اور دنیاوی لالچ کو راہِ خدا میں چھوڑنے کا عہد کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت صرف بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری نہ تھی، بلکہ مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے کا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ آج بھی قربانی کی اصل روح ہے۔ اگر ہم اس عبادت کو صرف گوشت حاصل کرنے، یا رسم نبھانے کی حد تک محدود رکھیں گے تو ہم اس کے اصل مقصد سے محروم ہو جائیں گے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم دنیا میں اپنے مفادات اور نفس پر قابو پاتے ہوئے، خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔

عبادت یا دکھاوا؟

بدقسمتی سے آج کل قربانی جیسے عظیم اور پاکیزہ عمل کو ایک معاشرتی ’’ایونٹ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جہاں عبادت کی جگہ نمائش، اخلاص کی جگہ فخر، اور عاجزی کی جگہ برتری کا اظہار نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جانوروں کی ویڈیوز، ان کی قیمتوں کا دکھاوا اور غیر ضروری تشہیر نے اس مقدس فریضے کو سطحی اور مصنوعی بنا دیا ہے۔ جہاں پہلے قربانی خالص نیت سے کی جاتی تھی، وہیں اب کئی لوگ اسے محض دوسروں کو مرعوب کرنے اور اپنی حیثیت جتانے کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ قربانی کے جانور کی قیمت، جسامت یا نسل کبھی بھی عبادت کا معیار نہیں تھے۔

اصل عبادت تو نیت، تقویٰ اور عاجزی میں پنہاں ہے۔ جانور کو محبت سے پالنا، اس کی خدمت کرنا اور نرمی سے سنتِ ابراہیمیؑ کے مطابق ذبح کرنا، یہ سب وہ اقدار ہیں جو ہمیں قربانی کے ذریعے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر جب ہم اس عمل کو سوشل میڈیا پر ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ گویا روحِ قربانی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ عبادت کو دکھاوے سے پاک رکھنا ایمان کا تقاضا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔ لہذا اگر نیت خالص نہ ہو تو عمل خواہ کتنا بھی عظیم ہو، اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کو اس کے اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ انجام دیں۔

قربانی اور اسلامی مساوات

اسلام نے ہمیشہ معاشرتی مساوات کی تعلیم دی ہے اور عید الاضحی اس کا عملی مظہر ہے۔ قربانی کا گوشت صرف گھر والوں تک محدود نہ رہے بلکہ رشتہ داروں، ہمسایوں اور مستحق افراد تک پہنچے، کیوں کہ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔ اگر ہر صاحب حیثیت فرد سچے دل سے قربانی کرے اور گوشت کو صحیح طور پر تقسیم کرے، تو معاشرے میں بھوک اور محرومی کی شدت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

اجتماعی قربانی اور جدید رجحانات

آج کے تیز رفتار اور مصروف طرزِ زندگی میں جب وقت، جگہ، اور وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قربانی ایک قابلِ عمل، بامقصد اور بابرکت حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ، جنہیں نہ جگہ میسر ہے، نہ جانور کی دیکھ بھال کا وقت اور نہ ذبح و تقسیم کا تجربہ، وہ اجتماعی قربانی کے ذریعے نہ صرف اپنی عبادت ادا کر لیتے ہیں بلکہ بہتر نظم و نسق کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

مساجد، مدارس، سماجی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اجتماعی قربانی کے عمل کو نہایت منظم انداز میں سرانجام دیتے ہیں، جس سے جانوروں کی دیکھ بھال، اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح اور گوشت کی ترسیل، سب کچھ احسن انداز میں انجام پاتا ہے۔ اسی طرح یہ قربانی نہ صرف ایک فرد کی عبادت رہتی ہے بلکہ ایک اجتماعی فلاحی عمل میں ڈھل جاتی ہے، جہاں سینکڑوں مستحقین کے گھروں میں خوشیاں پہنچتی ہیں۔ مزید یہ کہ کورونا کے بعد کے دور میں، صحت اور صفائی کے خدشات کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی کو مزید پذیرائی ملی ہے۔ اس سے نہ صرف ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ جانوروں کے فضلے، خون اور باقیات کے بہتر طریقے سے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

آن لائن قربانی نے بھی انفرادی سطح پر ایک نئی سہولت مہیا کی ہے۔ اب لوگ موبائل ایپس، ویب سائٹس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے قربانی کا جانور منتخب کر سکتے ہیں، ادائیگی کر سکتے ہیں، اور ذبح کے بعد گوشت کی ترسیل بھی حاصل کر سکتے ہیں، تاہم اس سہولت کے ساتھ ایک اہم ذمہ داری بھی جڑی ہے کیوں کہ قربانی محض ’’ٹرانزیکشن‘‘ نہیں بلکہ عبادت ہے۔ اس لیے نیت کا اخلاص، اعتماد والے ادارے کا انتخاب اور شفافیت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔

کچھ افراد آن لائن قربانی کے ذریعے اپنی عبادت کو باآسانی مکمل تو کر لیتے ہیں، لیکن اس عمل سے دوری کی وجہ سے اس عبادت کی روحانی گہرائی کو پوری طرح محسوس نہیں کر پاتے۔ اس لیے، جہاں یہ سہولت کارآمد ہے، وہیں روحانی تعلق اور شعور کو قائم رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اجتماعی قربانی کا رجحان اگر خلوص، نظم اور مقصدیت کے ساتھ قائم رہے تو یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک ایسی سماجی عبادت بھی بن سکتی ہے جو انفرادی نفع سے بڑھ کر اجتماعی فلاح کا سبب بنتی ہے۔

خاندانی بندھن

عید الاضحی صرف عبادت اور قربانی کا موقع نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہوار ہے جو خاندان کے افراد کو قلبی طور پر قریب لاتا ہے۔ گھر کے تمام افراد، چاہے وہ بچے، جوان ہوں یا بزرگ، سب مل کر عید کی تیاریوں میں حصہ لیتے ہیں۔

جانور کی دیکھ بھال، چارہ ڈالنا، پانی دینا اور اس سے مانوس ہونا، یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو خاندان میں محبت، تعاون اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ خواتین کھانے کی تیاری میں مشغول ہوتی ہیں، مرد حضرات انتظامات سنبھالتے ہیں، اور بچے جوش و خروش سے گھومتے پھرتے ہیں۔ اس سب کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں وہ قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے جو عام دنوں میں شاید نہ ہو۔ یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، اور رشتہ داروں سے جڑا رہنا ہی معاشرتی سکون کا اصل ذریعہ ہے۔

خواتین کا کردار: قربانی، پکوان اور سخاوت

عید الاضحی کے موقع پر خواتین کا کردار قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کے اندرونی امور کو سنبھالتی ہیں بلکہ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم، سلیقے سے رکھنا اور پکوان کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تنظیمی صلاحیتیں اور وقت پر ہر کام کی انجام دہی قربانی کی مجموعی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ کئی خواتین اس موقع کو سخاوت اور ہمدردی کے اظہار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ضرورت مندوں کے گھروں تک گوشت پہنچاتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے روایتی کھانے نہ صرف ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ محبت سے بھرپور بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کی اصل رونق انہی کے دم سے ہے۔

جانوروں سے محبت دراصل بچوں کی تربیت

قربانی سے پہلے جانور سے تعلق قائم کرنا، اس سے شفقت سے پیش آنا اور اس کی دیکھ بھال میں دلچسپی لینا ایک ایسا تربیتی عمل ہے جو بچوں کی شخصی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب بچہ کسی جاندار کے ساتھ پیار کا رشتہ بناتا ہے اور پھر اس کے فراق پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ اس کے اندر ہمدردی، برداشت، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ عمل بچوں کو محض مذہبی معلومات نہیں دیتا بلکہ ان کے جذبات اور اخلاقیات کو نکھارتا ہے۔ یہ سبق وہ کتابوں سے نہیں بلکہ عملی تجربے سے سیکھتے ہیں کہ اصل قربانی یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو رضائے الٰہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

صفائی اور شہری ذمہ داریاں

عید الاضحی کے بعد شہروں اور محلوں میں صفائی کا جو منظر پیش آتا ہے وہ ہماری اجتماعی غفلت کی تصویر ہوتا ہے۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے صفائی کی مہم چلاتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم بطور ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔ گوشت کے فضلات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا، خون کو پانی سے دھونا، اور آس پاس کے ماحول کو صاف رکھنا صرف حکومت کا نہیں، ہر فرد کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کیوں کہ ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، اور قربانی جیسے مقدس موقع پر اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو یہ عبادت کی روح کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنے گھروں بلکہ گلی محلوں کو بھی پاکیزہ بنائیں تاکہ عید واقعی ایک خوشگوار تجربہ بن سکے۔

عید کا حقیقی حسن

عید کی خوشیوں کا اصل حسن تب نمایاں ہوتا ہے جب یہ صرف امیروں یا صاحبِ استطاعت لوگوں تک محدود نہ رہے، بلکہ غربا، یتامیٰ اور نادار افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں۔ اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا خاندان ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی بچہ عید پر نیا لباس نہیں پہن سکا، تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔

عید کے موقع پر احساس، درد مندی اور سخاوت وہ اقدار ہیں جو ہمیں ایک باوقار معاشرہ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسیوں، ملازمین، اور کمزور طبقات کو نظر انداز کر کے صرف اپنے خاندان کی خوشیوں میں مگن رہیں گے، تو یہ خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عید کو خدمتِ خلق، انفاق اور باہمی محبت کا ذریعہ بنائیں۔

خطبہِ عید

نمازِ عید کے بعد کا خطبہ محض رسمی خطاب نہیں بلکہ ایک بیداری اور اصلاح کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہزاروں افراد یکجا ہو کر دل و دماغ کے ساتھ بات سننے کو تیار ہوتے ہیں، اور اگر اس موقع پر دین کے ساتھ سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے تو ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر خطیب قربانی کی روح، معاشرتی اتحاد، صفائی کی اہمیت، اور معاشرتی ذمہ داریوں پر سیر حاصل گفتگو کرے، تو سننے والوں کے رویے اور سوچ میں فرق آ سکتا ہے۔ یہ موقع قوم کو متحد، باشعور، اور باعمل بنانے کا موقع ہے، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

عید الاضحیٰ کا بین الاقوامی رنگ

دنیا بھر میں عید الاضحیٰ مختلف ثقافتی رنگوں، زبانوں اور مقامی روایات کے ساتھ منائی جاتی ہے، لیکن اس کی اصل روح’’قربانی برائے رضائے الٰہی‘‘ ہر جگہ یکساں ہے۔ افریقہ میں قبیلے کے لوگ اجتماعی طور پر جانور ذبح کرتے ہیں، بنگلہ دیش میں پورا محلہ ایک ساتھ مل کر حصہ ڈالتا ہے، اور یورپ و امریکہ میں مسلمان تارکین وطن اپنی کمیونٹیز میں عبادت کے ساتھ اپنی شناخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان مختلف اندازوں کے باوجود جو چیز سب کو جوڑتی ہے وہ قربانی کی اصل نیت، وحدتِ امت، اور اخوت کا پیغام ہے۔ یہ عالمی منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم چاہے کسی بھی ملک میں ہوں، ہماری عبادت ایک ہے، اور ہمارا خالق بھی ایک۔

مہنگائی

گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی نے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے قربانی جیسے فریضے کو ایک کٹھن آزمائش بنا دیا ہے۔ جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، جس سے وہ ذہنی دباؤ اور سماجی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے استطاعت کو بنیاد بنایا ہے، اور جو شخص واقعی قربانی کا متحمل نہیں، وہ شرعی طور پر معذور ہے، محروم نہیں۔ دین ہمیں دکھاوے سے روکتا ہے اور نیت کے اخلاص کو سب سے بلند رکھتا ہے۔ اس مشکل معاشی ماحول میں وہ افراد جو صاحبِ حیثیت ہیں، ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسرے بھائیوں کو قربانی میں شامل کریں یا ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

قربانی کا گوشت

قربانی کے فوراً بعد اکثر گھروں میں گوشت کی بھرمار ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس گوشت کا درست انداز میں استعمال نہ ہو تو یہ نعمت ضیاع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوشت کو ذخیرہ کرنے کے لیے صفائی، درجہ حرارت اور مناسب پیکنگ کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فریزر میں بلاوجہ گوشت بھرنا اور مہینوں تک اسے ضائع کر دینا، اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم گوشت کی تقسیم میں توازن رکھیں، عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور مستحقین کو بھی شامل کریں، اور اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف نعمت کا شکر ادا ہو گا بلکہ دوسروں کا حق بھی ادا کیا جا سکے گا۔

نوجوان نسل کے لیے پیغام

عید کا دن نوجوانوں کے لیے محض تعطیل یا تفریح کا موقع نہیں، بلکہ تربیت اور کردار سازی کا ایک نادر موقع ہے۔ جب نوجوان قربانی کی تیاری، جانور کی دیکھ بھال، اور اس کے ساتھ محبت میں شریک ہوتے ہیں، تو ان کے اندر احساس، ذمہ داری، اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ انہیں یہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ قربانی صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی جہاد ہے، جس کا مقصد اپنے اندر کی خود پسندی، غفلت، اور دنیا پرستی کو ختم کرنا ہے۔ اگر نوجوان اس عبادت کے گہرے مفہوم کو سمجھ لیں، تو وہ اپنی زندگی کو خدمت، خلوص، اور قربانی کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں، جو مستقبل میں انہیں ایک بہتر انسان، شہری اور مسلمان بننے میں مدد دے گا۔  

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • راولپنڈی: ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا عید صفائی آپریشن کامیابی سے مکمل
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • اسپیس ایکس نے فلوریڈا سے سرئیس ایکس ایم کا نیا سیٹلائٹ لانچ کر دیا
  • ایسی کیا شکایت تھی کہ 40 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ڈمبلز واپس منگوانے پڑگئے؟
  • جاپانی کمپنی ‘آئی اسپیس’ کا دوسرا چاند مشن بھی ناکام، ‘ریزیلینس’ لینڈر چاند پر گر کر تباہ
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • جاپانی کمپنی کا مون لینڈر ایک بار پھر ناکام، چاند پر پہنچنے سے پہلے رابطہ منقطع
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟