ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کو 10 سال قید کی تجویز زیر غور
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
حکومت کی جانب سے آفشور ڈیجیٹل سروسز پر 20 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے کا امکان ہے، جبکہ ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کو 10 سال قید کی سزا اور ان لینڈ ریونیو کے جونیئر افسر کو کمشنر ایف بی آر کی پیشگی اجازت لیے بغیر گرفتاری کی اجازت دینے پر بھی غور کر رہی ہے۔
تاہم کشمنر اگر گرفتاری پر مطمئن نہ ہو تو وہ گرفتار شخص کو رہا کرنے کا حکم دے سکے گا، کمشنر بغیر واضح اور ضروری ثبوتوں کے گرفتار کرنے والے افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کرسکے گا۔
ذرائع کے مطابق بل منظور ہونے کی صورت میں ان لینڈ ریونیو کا افسر زیر تفتیش شخص کے بیرون ملک فرار کو روکنے کیلیے کمشنر کو زیر تفتیش شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست بھی کرسکے گا۔
ان تجاویز کا مقصد ایف بی آر کو مضبوط بنانا اور ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کے بیرون ملک فرار کے امکانات کو کم کرنا ہے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ حکام ٹیکس فراڈ، نان فائلرز اور نااہل افراد کے لیے سزاؤں کے نظام کو مزید سخت بنانے کیلیے ٹیکس قوانین ترمیمی بل 2024 میں مزید ترامیم متعارف کروا نے پر غور کر رہی ہے۔
یہاں نااہل افراد سے مراد ایسے افراد ہیں، جن کو گھروں اور کاروں کی خریداری سے روک دیا گیا تھا، اب ان کو زرعی ٹریکٹر کی خریداری سے بھی روک دیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب یہ بل گزشتہ ماہ اسمبلی میں پیش کرچکے ہیں، تاہم ابھی تک اس بل پر ووٹنگ نہیں ہوئی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ آج ان ترامیم پر غور کرے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی نے کوئی اعتراض نہ کیا تو حکومت قومی اسمبلی سے منظوری لینے سے قبل ٹیکس لاء ترمیمی بل میں ایک نئی ترمیم کرسکتی ہے، جس سے آف شور ڈیجیٹل سروسز کی فیس پر انکم ٹیکس کی شرح 10% سے بڑھکر 20 فیصد ہوجائے گی۔
جس کیلیے ’’ فیس فار آف شور ڈیجیٹل سروسز‘‘ کے نام سے ایک نئی کیٹگری متعارف کرائی جائے گی، ہائیکورٹس میں التواء کا شکار ٹیکس کیسز کو تیزی سے نمٹانے کیلیے ماہرین کی نظرثانی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، تاکہ عدالتوں میں طویل عرصے سے پھنسے ٹیکس کے مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جاسکے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
عالمی سطح پر سائبر فراڈ کے خلاف اقوام متحدہ کی تنبیہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ نے پیر کو جاری اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا کہ اربوں ڈالر کی رقم اینٹھنے والے سائبر فراڈ کے ایشیائی جرائم کے نیٹ ورکس اب عالمی سطح پر اپنی کارروائیوں کو پھیلاتے جا رہے ہیں۔ ادارے کا مزید کہنا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں سرکاری پابندیاں ایسے گروپوں پر قابو پانے میں ناکام ہوتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ چینی اور جنوب مشرقی ایشیائی گروہ سرمایہ کاری، کرپٹو کرنسی، رومانس کے نام پر اور دیگر گھوٹالوں کے ذریعے متاثرین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق سائبر فراڈ اب ایک 'جدید عالمی صنعت' ہے، جس میں وسیع و عریض کمپاؤنڈز موجود ہیں۔
(جاری ہے)
اس میں ہزاروں کی تعداد میں زیادہ تر اسمگل کیے گئے افراد کو شامل کیا جاتا ہے اور انہیں دوسرے لوگوں سے زبردستی آن لائن چھیڑ چھاڑ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بحرالکاہل کے جزائر بھی متاثرجنوب مشرقی ایشیا میں یو این او ڈی سی کے قائم مقام علاقائی نمائندے بینیڈکٹ ہوفمین کہتے ہیں، "یہ کینسر کی طرح پھیلتا ہے۔ حکام ایک علاقے میں اس کا علاج کرتے ہیں، تاہم اس کی جڑیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہیں۔"
ادارے کے مطابق ایسی بیشتر سرگرمیاں خانہ جنگی کے شکار ملک میانمار کے سرحدی علاقوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں اور کمبوڈیا اور لاؤس میں تو اس کے "خصوصی اقتصادی زونز" قائم کیے جا چکے ہیں۔
یو این او ڈی سی نے اطلاع دی ہے کہ ایسے نیٹ ورکس اب جنوبی امریکہ، افریقہ، مشرق وسطیٰ، یورپ اور بحر الکاہل کے کچھ جزائر تک اپنی کارروائیوں کو بڑھا رہے ہیں۔
ہوفمین کا مزید کہنا ہے، "یہ ایک فطری توسیع کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ یہ صنعت بڑھ رہی ہے اور کاروبار کرنے کے لیے نئے طریقے اور جگہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔"
یو این او ڈی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2023 میں مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو سائبر فراڈ سے تقریباً 37 بلین ڈالر کا نقصان ہوا، جب کہ امریکہ کو 5.6 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی ضرورترواں برس میانمار میں بیجنگ کی قیادت والے ایک بڑے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 50 سے زائد ممالک کے تقریباً 7000 ایسے کارکنوں کو رہا کرایا گیا تھا۔
کمبوڈیا میں بھی ان کے خلاف چھاپے مارے گئے، تاہم اس کی وجہ سے ایسے جرائم کے گروہ "مزید دور دراز والے مقامات" اور سرحدی علاقوں کی جانب چلے گئے۔
کمبوڈیا کی حکومت کے ترجمان پین بونا نے کہا کہ ان ملک بھی سائبر فراڈ کی صنعت کے متاثرین میں شامل ہے اور اس سے لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔بونا کے مطابق حکومت نے وزیر اعظم ہن مانیٹ کی سربراہی میں ایک ایڈہاک کمیشن قائم کیا ہے جو بین الاقوامی شراکت داروں اور اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے قانون کے نفاذ اور قانونی بالا دستی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
یو این او ڈی سی نے بین الاقوامی برادری پر یہ کہتے ہوئے کارروائی کرنے پر زور دیا ہے کہ یہ ایک "انتہائی نازک موڑ" پر ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے "جنوب مشرقی ایشیا کے لیے بے مثال ایسے نتائج برآمد ہوں گے، جن کی گونج عالمی سطح پر بھی سنائی دے گی۔"
ادارت: جاوید اختر