کراچی: گارڈن سے لاپتہ 2 بچوں کو خاتون اور مرد لے گئے
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
— ملزمان اور بچوں کی تصاویر
کراچی کے علاقے گارڈن سے لاپتہ ہونے والے 2 بچوں کا 6 روز بعد بھی سراغ نہیں مل سکا۔
ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق لیاری کشتی چوک تک بچوں کی آخری لوکیشن آئی ہے، سی سی ٹی وی ویڈیو کی مدد سے تفتیش کو آگے بڑھایا گیا ہے، روٹ کی مزید سی سی ٹی وی ویڈیوز حاصل کی جارہی ہیں۔
اسد رضا نے کہا ہے کہ پولیس کی جانب سے مختلف مقامات پر سرچ آپریشن بھی کیا جارہا ہے، 5 رکنی کمیٹی کو بچوں کی جلد بازیابی کی خصوصی ہدایات دی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ منظرِ عام پر آنے والی سی سی ٹی وی ویڈیو میں خاتون اور مرد کو بچوں کو لے جاتے دیکھا گیا، واضح ویڈیو نہ ہونے سے ملزمان اور موٹرسائیکل کی شناخت نہیں ہوسکی۔
کراچیگارڈن حسن لشکری محلہ سے اغوا ہونے والے دونوں.
ڈی آئی جی ساؤتھ نے کہا ہے کہ موٹرسائیکل کی تفصیلات کے لیے اے وی ایل سی سی سے بھی رابطہ کیا ہے، جائے وقوعہ اور بچوں کی آخری لوکیشن کی جیو فینسنگ مکمل کرلی ہے۔
اسد رضا کے مطابق 6 روز قبل دونوں بچے گھر کے باہر سے لاپتہ ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ گارڈن حسن لشکری محلہ سے 14 جنوری کو دو بچے 5 سالہ علیان اور 6 سالہ علی رضا کو مبینہ طور پر اغواء کیا گیا تھا۔ بچوں کے اہلخانہ کی جانب سے بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
پولیس کی جانب سے علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیے گیے تاہم تاحال بچوں کا سراغ نہیں مل سکا ہے، دونوں بچے پڑوسی ہیں۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بچوں کی
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔