ایک مقدمہ سننے سے اتنی پریشانی ہو گئی بنچ سے کیس ہی منتقل کر دیا گیا؟ سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: بنچز کے اختیارات کا کیس مقررنہ کرنے پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ایک مقدمہ سننے سے اتنی پریشانی کیوں ہو گئی کہ بنچ سے کیس ہی منتقل کر دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس عقیل عباسی بنچ کا حصہ ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ یہ کیس آئینی بنچ کا تھا غلطی سے ریگولربنچ میں لگ گیا تھا۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟ معذرت کیساتھ غلطی صرف اس بنچ میں مجھے شامل کرنا تھی، میں اس کیس کو ہائیکورٹ میں سن چکا تھا، پتہ نہیں مجھے اس بنچ میں شامل کرنا غلطی تھی یا کیا تھا۔
ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کیس کس بنچ میں لگنا ہے: جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟ جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بنچ میں لگنا ہے، ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا۔
رجسٹرار نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ پیش کردیا ،رجسٹرار آفس کا نوٹ رجسٹرار کے مؤقف سے متضاد نکلا ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بنچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا تھا کیس کس بنچ میں لگنا ہے۔
رجسٹرار نے جواب دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بنچ کی کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بنچز کی کمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے، ترمیم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کونسے مقدمات بنچ میں مقرر ہو سکتے ہیں کونسے نہیں۔
جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا ہے تو کیس ہی بنچ سے واپس لے لیا جائے؟ عدالت کے ریمارکس
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بنچ میں آ گیا تو کمیٹی کا کام ختم ہو گیا، کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی، جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا ہے تو کیس ہی بنچ سے واپس لے لیا جائے؟ یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آ گیا، آخر اللہ تعالی نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترمیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا، پہلے تو شور ڈلا ء ہوا تھا لیکن ترمیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہو رہا تھا، ٹیکس کے کیس میں کونسا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا؟
جسٹس منصور نے رجسٹرار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے، دفاع میں پیش کئے جانے والے مؤقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟
کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے: رجسٹرار
رجسٹرار نے جواب دیا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے جس پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو آپ کو ہم بتائیں گے اس کیس میں کہ وہ اس لے سکتی ہے یا نہیں، مجھے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت کا کہا گیا تھا، کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ جوڈیشل حکم جاری کر چکا ہوں اس لیے میرا اجلاس میں آنا لازمی نہیں، ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ ایک مقدمہ سننے سے اتنی پریشانی کیوں ہو گئی کہ بنچ سے کیس ہی منتقل کر دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں، 17 جنوری کو ججز کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے، مجھے ریگولر ججز کمیٹی اجلاس میں مدعو کیا گیا، پھر 17 جنوری کو ہی آرٹیکل 191 اے فور کے تحت آئینی بنچز ججز کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس وقت عدالتی بنچ میں کیس تھا اس وقت دو اجلاس ایک ہی دن ہوئے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ججز کی آئینی کمیٹی نے منٹس میں کہا 26 ویں آئینی ترمیم کیس آٹھ ججز کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کیا جاتا ہے، اس لیے یہ کیس آئینی بنچ میں بھیجا جاتا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف تو ہم کیس سن ہی نہیں رہے تھے، چلیں اچھا ہے، اس کیس کے بہانے کیسز تو لگنا شروع ہوگئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا دو رکنی عدالتی بنچ پانچ رکنی لارجر بنچ بنا سکتا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کو فل کورٹ بنانے یا لارجر بنچ تشکیل دینے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ موجودہ بنچ کا مستقبل کیا ہوگا؟ جسٹس عقیل
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ موجودہ بنچ کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج کیس سن رہے ہیں ہو سکتا ہے کل یہ بنچ بھی نہ ہو، کوئی تیکھا سوال پوچھیں تو شاید یہ بنچ بھی ختم کر دیا جائے، رجسٹرار صاحب کیا پتہ نوٹ لکھ دیں کہ اس بنچ کو ختم کیا جائے، توہین عدالت کے کیس میں ممکنہ احکامات جاری کر سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو کمیٹی آرڈرز اپنے دفاع میں پیش کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ لیں گے، ہم توہین عدالت کے معاملے پر کس حد تک جا سکتے ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ کمیٹی یا ریسرچ افسر صرف نوٹ لکھ سکتا ہے کہ مقدمہ کس بنچ کو جانا چاہیے، کیس آئینی بنچ کے سننے والا ہے یا نہیں تعین کرنا عدالت کا کام ہے، سندھ ہائی کورٹ میں آئے روز نارمل اور آئینی بنچز ایک دوسرے کو مقدمات بھجوا رہے ہوتے ہیں، کمیٹی کے جاری احکامات کا عدالتی جائزہ لینا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بنچز کے اختیارات کا مقدمہ فل کورٹ میں مقرر کر دیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بنچ عدالتی حکم کے تحت نیا بنچ تشکیل دے سکتا ہے؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ عدالت ماضی میں انتظامی پروسیجر پورا کرنے کیلئے چیف جسٹس یا کمیٹی کو کیسز بھجواتی رہی ہے، چیف جسٹس ہوں یا کمیٹی عدالتی احکامات کے پابند ہی ہوتے ہیں۔

سینئر وکیل منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر

سپریم کورٹ نے سینئر وکیل منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کر تے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلا ء کو کل سنیں گے، یہ اہم معاملہ ہے کہ ججز کمیٹی بنچ سے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں۔

بعدازاں عدالت نے سپریم کورٹ میں بنچز کے اختیارات سے متعلق کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ایک مقدمہ سننے سے اتنی پریشانی بنچ سے کیس ہی منتقل کر دیا گیا جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس رجسٹرار سپریم کورٹ ریمارکس میں کہا کہ نے ریمارکس میں کہا کیس ا ئینی بنچ نے جواب دیا کہ ہے یا نہیں ججز کمیٹی نے کہا کہ کورٹ میں جنوری کو کمیٹی کو عدالت کے کمیٹی نے سکتا ہے رہے ہیں واپس لے تھا کہ ہو گئی یہ کیس بنچ کا اس کیس

پڑھیں:

سپریم کورٹ: بانجھ پن پر مہر یا نان و نفقہ دینے سے انکار غیر قانونی قرار

---فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے خواتین کے بانجھ پن کی بنیاد پر مہر یا نان و نفقہ سے انکار کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے نان و نفقہ کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار صالح محمد کے رویے پر اظہار برہمی کیا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بانجھ پن حق مہر یا نان و نفقہ روکنے کی وجہ نہیں، خواتین پر ذاتی حملے عدالت میں برداشت نہیں ہوں گے، شوہر نے بیوی کو والدین کے گھر چھوڑ کر دوسری شادی کر لی، پہلی بیوی کے حق مہر اور نان و نفقہ سے انکار کیا، عورت کی عزت نفس ہر حال میں محفوظ ہونی چاہیے۔

بدقسمتی سے خواتین کو شرعی وراثتی حق سے محروم رکھا جاتا ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ خواتین کی تضحیک معاشرتی تعصب کو فروغ دیتی ہے، بیوی کی میڈیکل رپورٹس نے شوہر کے تمام الزامات رد کیے، خواتین کے حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، 10 سال تک خاتون کو اذیت اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، جھوٹے الزامات اور وقت ضائع کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں ماتحت عدالتوں کے فیصلے برقرار رکھے۔

خیال رہے کہ مذکورہ مقدمہ مہناز بیگم کے نان و نفقہ، مہر اور جہیز کی واپسی سے متعلق تھا، شوہر نے بیوی پر بانجھ پن اور عورت نہ ہونے کا الزام لگایا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان نے 9 مئی کیس میں ضمانت منسوخی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • عمران خان کا 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت مسترد ہونے پر سپریم کورٹ سے رجوع
  • عمران خان نے 9 مئی کیس میں ضمانت منسوخی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
  • چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کا جناح اسپتال کے سائبر نائف یونٹ کا دورہ
  • فرانس کی سپریم کورٹ نے بشار الاسد کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دئیے
  • سینٹ نے پارلیمنٹیرنزکو حکومتی افسران اورآئینی اداروں کے سربرہان سے کم درجہ ملنے کے معاملے کو کمیٹی کے سپرد کردیا
  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس  پاکستان  نے فیصلہ جاری کردیا
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • سپریم کورٹ: بانجھ پن پر مہر یا نان و نفقہ دینے سے انکار غیر قانونی قرار