حنا خان آج تک وہ اپنے گنجے پن کو چھپاتی ہیں، روزلین خان کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ٹیلی وژن اداکارہ روزلین خان جو اسٹیج 4 کینسر سے بچی ہیں، انہوں نے اداکارہ حنا خان پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے کینسر کی بحالی کے بارے میں مبالغہ آرائی کرکے عوام کو گمراہ کر رہی ہیں۔ روزلین نے حنا کے 15 گھنٹے کی سرجری کے دعوؤں پر تنقید کی اور علاج کے دوران ان کے رویے پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے حنا سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی میڈیکل رپورٹس عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ اپنی صداقت ثابت کرسکیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق روزلین جو خود اسٹیج 4 کینسر سے صحتیاب ہو چکی ہیں، نے اس موذی مرض پر اپنی معلومات شیئر کی ہیں۔ انہوں نے حنا خان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے علاج کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہی ہیں۔ ایک انٹرویو میں روزلین نے حنا خان کے 15 گھنٹوں کی سرجری کے دعوے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر، وہ سرجری کے بعد 3 دن تک بے ہوش رہیں، لہٰذا سرجری کے بعد فوراً مسکراتے ہوئے آپریشن تھیٹر سے باہر آنے کے دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے۔
مزید پڑھیں:شاہ رخ خان نے گوری خان کو برقع پہننے اور نماز پڑھنے کا کیوں کہا؟
اداکارہ نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ حنا توجہ حاصل کرنے کے لیے مبالغہ آرائی کر رہی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ماسٹیکٹومی، جس میں پورے سینے کا آپریشن شامل ہے، ایک بڑی سرجری ہے جو 8 سے 10 گھنٹے تک جاری رہتی ہے، اور اس دوران نمونے لیب ٹیسٹنگ کے لیے بھیجے جاتے ہیں جبکہ مریض بے ہوش رہتا ہے۔ انہوں نے حنا پر کیمو تھراپی کے دوران دنیا گھومنے کی بھی تنقید کی، اور کہا کہ یہ کینسر کے علاج کے پروٹوکول کے خلاف ہے۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ حنا نے اپنے گنجے پن کو چھپایا اور یہ سوال اٹھایا کہ انہوں نے اپنے کینسر کے علاج پر کھل کر بات کیوں نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر حنا واقعی تیسرے مرحلے پر ہوتیں تو انہیں ریڈی ایشن سے گزرنا پڑتا، اور یہ بھی کہا کہ حنا علاج کی تفصیلات چھپا رہی ہیں تاکہ ان کی حقیقت سامنے نہ آئے۔
روزلن نے حنا کو چیلنج دیا کہ اگر وہ واقعی کینسر کے علاج کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کرنا چاہتی ہیں تو اپنی میڈیکل رپورٹ عوام کے سامنے پیش کریں۔ حنا کے اقدامات صرف پبلسٹی سٹنٹ ہیں تاکہ خبروں میں رہ سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سرجری کے انہوں نے رہی ہیں علاج کے کہا کہ
پڑھیں:
پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
دنیا ایک بار پھر ایک مہلک بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار، جو اب اپنی نئی شکل میں انتہائی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق، ’سیلمونیلا ٹائیفی‘ نامی بیکٹیریا جو ٹائیفائیڈ کا سبب بنتا ہے، اب کئی مؤثر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکا ہے، جن میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو پہلے ’آخری حل‘ سمجھی جاتی تھیں۔
جدید تحقیق کی سنگین وارننگ
ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، ٹائیفائیڈ کی وہ اقسام جو اب دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا سے، انہیں ’ایکسٹینسِولی ڈرگ ریزسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر‘ یعنی انتہائی مزاحم اقسام قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقسام ’فلوئوروکوئنولونز‘ اور تیسری نسل کی ’سیفالوسپورِنز‘ جیسی جدید اور طاقتور ادویات کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت دکھا رہی ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیسن اینڈریوز کا کہنا ہے، ’جس رفتار سے یہ مزاحم اقسام سامنے آ رہی ہیں اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، وہ باعثِ تشویش ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ان بیماریوں سے متاثرہ ممالک میں روک تھام کے اقدامات کو وسعت دی جائے۔
بیماری کا عالمی پھیلاؤ
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 1990 سے اب تک ٹائیفائیڈ کی یہ مزاحم اقسام تقریباً 200 بار مختلف ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں اس بیماری کی ایک سپر ریزسٹنٹ قسم دریافت ہوئی، جو چند سالوں میں ملک میں سب سے زیادہ عام قسم بن چکی ہے۔
علاج میں مشکلات اور ممکنہ بحران
عالمی سطح پر ہر سال ٹائیفائیڈ بخار کے ایک کروڑ 10 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 1 لاکھ افراد اس کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ بیماری ہر پانچ میں سے ایک مریض کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اب جبکہ مزاحم اقسام عام ہو رہی ہیں، علاج مزید پیچیدہ اور مہنگا ہو رہا ہے۔
ویکسین کی ضرورت اور رسائی کا بحران
اگرچہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسین موجود ہے، مگر دنیا کے کئی حصوں میں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، لوگوں کو ان ویکسینز تک رسائی حاصل نہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا ایک نئے صحت کے بحران کا سامنا کر سکتی ہے۔
حفاظتی تدابیر اور عوامی شعور کی ضرورت
ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد ناگزیر ہے:
صاف پانی اور حفظانِ صحت کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے، خاص طور پر خطرے سے دوچار علاقوں میں۔
اینٹی بایوٹکس کا غیر ضروری اور بے جا استعمال بند کیا جائے تاکہ مزید مزاحمت نہ بڑھے۔
عوامی سطح پر شعور بیدار کیا جائے تاکہ ابتدائی علامات پر بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو۔
ٹائیفائیڈ بخار کی نئی، خطرناک اقسام ہمارے عالمی صحت کے نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومتیں، طبی ادارے اور عوام سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں، وگرنہ صدیوں پرانی بیماری ایک بار پھر انسانیت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔