WE News:
2025-06-09@14:57:36 GMT

اصلی دیسی انڈے کی پہچان کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

اصلی دیسی انڈے کی پہچان کیا ہے؟

موسم سرما کے دوران سوشل میڈیا پر گردش کرتی ’معلوماتی ویڈیوز‘ اکثر صارفین کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ جو انڈے وہ کھا رہے ہیں کہیں وہ کسی کیمیل سے تو نہیں بنائے گئے یا پھر کہیں یہ انڈے پلاسٹک کے تو نہیں؟

کیا پلاسٹک اور کیمیکل سے انڈے بنانا ممکن ہے اور اچھے انڈے کی پہچان کیسے کی جائے؟ اس ضمن میں سیکریٹری پولٹری فارم ایسوسی ایشن پنجاب سید جاوید حسین بخاری نے وی نیوز کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر انڈوں سے متعلق گردش کرتی تمام خبروں میں کسی قسم کی صداقت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ابلنے کے بعد انڈے کی زردی سبز کیوں ہوتی ہے؟

’کچھ عرصہ قبل کراچی میں پلاسٹک کے انڈے فروخت ہونے کی خبر سامنے آئی کہ  انڈے چین سے لائے گئے تھے، تاہم اس اسکینڈل کی انکوائری پر پتا چلا کہ وہ پرانے انڈے ضرور تھے مگر نہ تو چین سے لائے گئے تھے اور نہ ہی پلاسٹک کے تھے۔‘

جاوید حسین بخاری کے مطابق ایسا ممکن ہی نہیں کہ پلاسٹک یا پھر کسی کیمیکل سے انڈے تیار کیے جائیں، پاکستان میں انڈوں کی پروڈکشن وافر مقدار میں ہو رہی ہے۔

’انڈوں کی جو پیٹی گزشتہ برس 13 ہزار روپے کی تھی، اب وہی پیٹی تقریباً ساڑھے 7 ہزار روپے میں فروخت ہو رہی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں انڈوں کی پروڈکشن تیزی سے ہورہی ہے۔‘

مزید پڑھیں: انڈوں کو ابالنے کے بعد پانی کبھی نہ پھینکیں، وجہ حیرت انگیز؟

دیسی انڈے کے ضمن میں جاوید حسین نے بتایا کہ دیسی انڈہ نسبتاً براؤن ہوتا ہے، بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ فارمی انڈوں پر رنگ چڑھا کر اسے دیسی روپ دیدیا جاتا ہے۔ ’ایسا بھی نہیں ہوتا کہ کلر سے فارمی انڈے کو دیسی انڈہ بنا دیا جائے۔‘

گزشتہ 7 برس سے دارالحکومت کی سب سے پرانی آبپارہ مارکیٹ میں گولڈن انڈے فروخت کرنے والے فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ لوگ گولڈن انڈے کو بھی دیسی انڈہ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں جو کہ درست نہیں۔

مزید پڑھیں: انڈے 400 روپے درجن، کیا مرغیاں سونے کے انڈے دینا شروع ہوگئیں؟

’دیسی انڈے اور گولڈن انڈے میں فرق ہوتا ہے۔ دیسی انڈہ صرف وہی ہے جو گھروں میں مرغیاں دیتی ہیں، کیونکہ ان مرغیوں کی غذا قدرتی ہوتی ہے، گولڈن انڈہ بھی لگ بھگ دیسی انڈے جیسا ہی ہوتا ہے مگر اسے دیسی نہیں کہا جاتا۔‘

 فضل الرحمان کے مطابق گولڈن انڈے میں فرق یہ ہوتا ہے کہ پولٹری فارم میں ان مرغیوں کو باقاعدہ فیڈ دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دیسی انڈے کے مقابلے میں کم غذائیت والا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: مرغیاں اور انڈے چوری کرنے کے جرم میں سزائے موت پانے والے قیدی کی سزا 10 سال بعد معاف

’خالص دیسی انڈے کی پہچان یہ ہے کہ اس کا ذائقہ بہترین ہوتا ہے اور اس کی زردی میں ہلکی سی لالی ہوتی ہے جبکہ گولڈن مرغی کے انڈے کی زردی بالکل زرد رنگ کی ہوتی ہے۔‘

فضل الرحمان نے بتایا کہ دکاندار گولڈن مرغیوں کے انڈے دیسی انڈے کے طور پر بیچتے ہیں کیونکہ اس کی رنگت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ دیسی انڈہ ہے لیکن حقیقیت یہ ہے کہ دیسی انڈہ بہت مہنگا ہے اور وہ مارکیٹ میں بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ میں 70 ہزار روپے میں ایک انڈا نیلام، خاص بات کیا ہے؟

’اب تو مارکیٹ میں ویکسین والے انڈے بھی دستیاب ہیں، برائلر مرغیوں کو پانی میں ویکسین ملا کر دی جاتی ہے، اس پانی کے علاوہ ان کی کوئی خاص فیڈ نہیں ہوتی، اس کا ذائقہ بہت عجیب اور اس میں بدبو بھی ہوتی ہے۔ ‘

اصلی دیسی درجن انڈوں کی قیمت تقریبا 1200 روپے تک ہے جبکہ گولڈن انڈے 600 روپے درجن تک مل جاتے ہیں۔

اپنے گھر میں مرغیاں پالنے والے اسلام آباد کے شہری مشکور علی نے بتایا کہ مارکیٹ میں دیسی انڈوں کے حوالے سے ہونیوالے فراڈ میں کوئی دو رائے نہیں، لوگ چائے کی پتی کے پانی سے فارمی انڈے پر رنگ چڑھا کر اسے دیسی انڈہ کہہ دیا جاتا ہے، جس نے گھر میں خود مرغیاں نہ پالی ہوں تو اسے پتا نہیں چلتا۔

مزید پڑھیں: ’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘، 74 سالہ پرندے کے ہاں چوزے کی آمد متوقع

’جو واقعی اصلی دیسی انڈہ ہوتا ہے اس کا رنگ کریم جیسا ہوتا ہے جبکہ مارکیٹ میں پڑے دیسی انڈے بعض اوقات تھوڑے گہرے براؤن رنگ کے ہوتے ہیں۔‘

اچھے انڈے کی پہچان کیا ہے؟

پولٹری فارم ایسوسی ایشن پنجاب کے سیکریٹری جاوید حسین بخاری کے مطابق اچھے انڈے کی پہچان یہ ہے کہ وہ وزنی ہوتا ہے کیونکہ اس میں پراپرٹیز زیادہ ہوتی ہیں۔

’کہا جاتا ہے انڈے میں سیل میمبرین (اندرونی جھلی) کا ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر انڈے میں سیل میمبرین ہو۔‘

اس بارے میں مشکورعلی نے بتایا کہ اچھا اوردیسی انڈہ صرف وہی ہے، جو گھر میں مرغی آپ کے سامنے اچھی خوراک کھاکر دیتی ہو، وہ جو انڈہ ہے وہی اصلی دیسی انڈہ ہے اورانڈے میں سیل میمبرین کا ہونا بہت زیادہ ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: ’ایگ آن سپون‘ میکسیکو میں نیا انوکھا عالمی ریکارڈ قائم

دکاندار فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اچھے اور دیسی انڈے کی پہچان یہ ہے کہ وہ سائز میں چھوٹا ہوتا ہے، جس کا ذائقہ بہترین اورکسی قسم کی بدبو سے مبرا ہوتا ہے، فارمی انڈوں کے بجائے اصلی دیسی انڈے کے بعد گولڈن انڈہ صحت کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈے پلاسٹک چین دیسی فارمی انڈے کیمیکل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انڈے پلاسٹک چین فارمی انڈے کیمیکل دیسی انڈے کے جاوید حسین مزید پڑھیں مارکیٹ میں اصلی دیسی دیسی انڈہ انڈوں کی انڈے میں یہ ہے کہ ہوتا ہے جاتا ہے کے انڈے ہوتی ہے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

عید الاضحی کا اہم پیغام

مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے دعا کروائی کہ ’’ اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرمائے اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والے ظالموں کو برباد کردے اور ان کے قدم اکھیڑ دے، انھوں نے مزید کہا کہ والدین سے صلہ رحمی، نرمی اور وعدوں کی تکمیل بھی دین کا حصہ اور حیا ایمان کی شاخ ہے ۔ ہمسایوں کا خیال رکھیں، یتیموں، بیواؤں اورکمزور طبقات سے ہمدردی اور شفقت کا برتاؤ کریں۔

 بلاشبہ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید نے حجاج اور امت مسلمہ کو نہایت اہم اور جامع پیغام دیا ہے۔ حج اور عید الاضحیٰ صرف انفرادی عبادات نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے عظیم پیغامات کے حامل مواقع ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مادیت، مفاد پرستی اور مطلق العنانیت غالب ہے، عید الاضحی اور حج ایثار، قربانی، اتحاد اور انسانی فلاح و بہبود کے کئی سبق لے کر آتے ہیں۔

درحقیقت عید الاضحی صرف جانور کی قربانی کا نام نہیں، بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت، ایثار اور قربانی کی وہ روشن یاد ہے جس نے ہمیں یہ سبق دیا کہ اللہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کی جا سکتی ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یہ دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ قربانی کا اصل مقصد صرف رسمی عبادت ادا کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا انسانی، معاشرتی اور روحانی پیغام ہے۔

اسلامی فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو خالق و مالک کے حکم اور مرضی و منشاء پر قربان کر دے۔ عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لیے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔فلسطینی عوام کے لیے یہ دن خوشیوں کے بجائے آنسوؤں، ملبوں، شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد کے گراف میں اضافے کا پیغام لے کر آیا ہے۔ غزہ کی گلیاں خون سے رنگین ہیں، بچے عید کی نئی پوشاکوں کے بجائے کفن میں لپیٹے جا رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے مینار ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی گواہی دے رہے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس انسانی المیے پر عالم اسلام کا کیا رویہ ہے؟ فلسطینیوں کے لیے ہر عید ایک نیا امتحان لے کر آتی ہے۔ رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں حتیٰ کہ عبادت گاہوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ مگر عالم اسلام کا اجتماعی ردِ عمل صرف زبانی بیانات اور چند علامتی احتجاجی جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، جو مسلمانوں کے اجتماعی فیصلوں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے، اپنی موجودگی کو ثابت کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ جب امت کا ایک حصہ بدترین نسل کشی کا شکار ہو، تو او آئی سی کا خاموش رہنا یا رسمی بیانات جاری کرنا نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ اس کی افادیت پر بھی ایک بڑا سا سوالیہ نشان ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے جہاں معصوم فلسطینیوں کے لیے قیامتِ صغریٰ برپا کر دی ہے، وہیں عالمی سطح پر امن اور انصاف کے اداروں کی مکمل ناکامی کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔

یہ صورت حال نہ صرف فلسطینیوں کے لیے المیہ ہے بلکہ بحیثیت مجموعی پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ بن چکی ہے۔ معصوم بچوں کے خون سے سرخ ہوتی گلیاں اور زخمی خواتین کی درد ناک چیخیں عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی ادارے، مسلم ممالک اور دیگر بڑی قوتیں اسرائیل کو غزہ کے بے قصور و بے بس عوام پر ظلم سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

 اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی حالت بدترین ہو چکی ہے۔ بھوک و افلاس سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نسل پرستی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اپنی تہذیب و ثقافت کو کمزور اقوام پر تھوپا جا رہا ہے۔ آج جو لوگ انسانیت کا راگ الاپتے ہیں، وہ درحقیقت انسانیت سے عاری ہیں۔ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات نے انسان کو انسان ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

دولت کی ہوس اور عالمی نظام نے ہمدردی، محبت اور انسان شناسی کے جذبات کو ختم کر دیا ہے۔ طاقتور قوموں کی توسیع پسندانہ پالیسیاں سمندروں کو خون سے رنگین کر رہی ہیں۔ عالمی امن کے علم بردار ادارے سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونے بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال عورتوں کی ہے۔ آزادی اور مساوات کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سب سے زیادہ ظلم و تشدد کی شکار خواتین ہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک اگر اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی منشور پر صدقِ دل اور دیانت داری سے عمل کرتے تو کسی حد تک دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی تھی۔ ظلم و ستم کے بازار بند ہو جاتے، صنفِ نازک کے استحصال کا سلسلہ تھم جاتا اور سامراجی و استعماری قوتیں خود بخود مٹ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ جن قوتوں نے اس منشور کے نفاذ کی ذمے داری لی، ان کی نیت صاف نہ تھی، اور وہ اس منشور کی آڑ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل چاہتے تھے۔آج افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اہم فریضے کو محض ایک دنیاوی تہوار سمجھ کر ایسے کام شروع کردیے ہیں، جس سے اس اہم فریضے کے ادائیگی کا مقصد پورا نہیں ہوتا، روحِ عبادت پر نمود و نمائش غالب آگئی ہے۔

ہرکوئی قربانی کے نام پر اپنی حیثیت اور استطاعت کی شیخی بگاڑتا نظر آتا ہے۔ اور قربانی کا گوشت جس پر سب سے پہلا حق مستحقین کا ہوتا ہے انھیں اُن کا حق اول تو ملتا ہی نہیں اور جو ملتا ہے تو وہ جو بچ جاتاہے رشتے داروں، ہمسائیوں وغیرہ سے وہ اُن کے حصے میں آتا ہے جسے بڑے حقیرانہ انداز میں، عجیب سے تیور دکھا کر انھیں دیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت احسان کر رہے ہوں اور جو سفید پوش ہیں انھیں یہ دن بھی ایسے ہی فاقے میں گزارنا پڑتا ہے، کیونکہ ہاتھ وہ نہیں پھیلا سکتے۔ جو نعمتیں خدا نے ہمیں عطا کی ہیں وہ خدا کے دیے ہوئے میں سے بے بس، لاچار، مستحقین اور خاص کرکے سفید پوش لوگوں پر خرچ کرنا ہمارا فرض ہے۔ بہت سے والدین ایسے مواقعوں پر اپنے بچوں کی حسرتوں کو پورا نہیں کرسکتے اُن کی معصومیت کا خاص خیال رکھیں۔ گوشت دیتے ہوئے کوئی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جن سے اُن کی دل آزاری ہو۔

کسی کے دیے ہوئے گوشت میں سے اُن کو حصہ نہ دیں بلکہ اپنے حصے میں سے اُنکا حق انھیں دیں۔ ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انھیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔ آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کر کے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں۔ اسی روش کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ معاشرہ کے مستحق افراد کی فکر بڑی حد تک مفقود ہے۔ جب ہم قریب ترین عزیزوں کے علاوہ کسی کو جانتے ہی نہ ہونگے تو اُس کے مشکل وقت کا علم کیسے ہوگا اور استطاعت کے باوجود اُس کی مشکل آسان کرنے کی ہمیں توفیق کیسے ہوگی؟ ہمارے اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ دوسرے وقت کے لیے کچھ بچا کر نہیں رکھتے تھے۔

بعض افراد سب کچھ تو کیا تھوڑا بہت بھی ضرورتمندوں کو دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ جو لوگ فراخدل واقع ہوئے ہیں اُن کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہے کہ دست تعاون اُس کی جانب دراز کرتے ہیں جو دست سوال دراز کرتا ہے، اُن لوگوں کی کیفیت جاننے کی کوشش نہیں کرتے جنھیں، ضرورتمند ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرنے کی عادت نہیں یا وہ اشارے کنائے میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا مذہب ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی اور تقسیم ِ دولت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اگر ہم ضرورتمندوں کی اُس طرح مدد کریں جس طرح مدد کرنے کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس قوم کی مالی حالت دگرگوں رہے، اس کے نوجوان تعلیم سے بے بہرہ رہیں اور اس کی مجموعی شبیہ پر سوال اُٹھے۔ آج انسانیت درد سے کراہ رہی ہے۔

ایک طرف کچھ لوگ زندگی کی بلند ترین سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں انسان بھوک، پیاس، غربت، جہالت، بے شعوری، بے روزگاری، غلامی اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ طاقتور اقوام آج بھی غریب ملکوں کو زیر نگیں رکھنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔اگر آج کی دنیا 1400 سال قبل حجۃ الوداع کے موقع پر محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے دیے گئے پیغام جس میں انسانیت، بقائے باہمی اور حقوقِ انسانی پر زور دیا گیا تھا، پر عمل کرے تو جنگ و تباہی سے بچ سکتی ہے اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • بار بی کیو کے لیے کون سا کوئلہ اچھا ہوتا ہے؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا
  • عید الاضحی کا اہم پیغام