سمندر پار پاکستانیوں کے لیے خصوصی عدالت کے قیام کا قانون پنجاب اسمبلی سے منظور
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
پنجاب اسمبلی نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیےخصوصی عدالتوں کی تشکیل کے قانون کی منظوری دیدی ہے، نئے قانون کے مطابق بل بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر منقولہ جائیدادوں کی ملکیت کو محفوظ بنایا گیا ہے۔
صوبائی اسمبلی سے منظور ہونیوالے اس قانون کے تحت خصوصی عدالت کے جج کے پاس ضلعی جج کے اختیارات ہوں گے، جسے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ 3 سال کے لیے نامزد کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کو ٹائٹینک کیوں کہا؟
اس ضمن میں لیےخصوصی عدالتوں میں مقدمات کی ای فائلنگ کے حوالے سے ہائیکورٹ قوانین وضع کرے گی، حق دفاع عدالت کی اجازت سے مشروط ہوگا جس کا دورانیہ 15 دن ہوگا۔
منظور شدہ قانون کے مطابق ان خصوصی عدالتوں میں شہادتوں کے لیے 2 سے زائد مواقع نہیں دیے جائیں گے اسی طرح کسی بھی خصوصی عدالت میں 7 روز سے زائد کی تاریخ بھی نہیں دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کا اجلاس: اسپیشل کورٹ کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت رپورٹ کیسز سننے کا اختیار دینے کی منظوری
اسپیشل کورٹ کی تمام کارروائی ویب پورٹل پر اپلوڈ ہوگی اور سمندر پار پاکستانی متعلقہ دفترخارجہ سے بھی شہادت عدالت میں پیش کرسکتے ہیں، اسپیشل کورٹ 90 دن میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔
ریکارڈز کے لیے اسپیشل کورٹ یا دعویٰ کرنے والا کسی ادارے سے بذریعہ درخواست ڈیٹا وصول کر سکے گا، اسپیشل کورٹ کا فیصلہ 15 روز تک ہائیکورٹ میں چیلنج ہوسکے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپیشل کورٹ ای فائلنگ پاکستانیوں چیف جسٹس خصوصی عدالت دفتر خارجہ سمندر پار ضلعی جج لاہور ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسپیشل کورٹ ای فائلنگ پاکستانیوں چیف جسٹس خصوصی عدالت دفتر خارجہ سمندر پار لاہور ہائیکورٹ خصوصی عدالت اسپیشل کورٹ سمندر پار کے لیے
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔