ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل؛ آئین و قانون کے حق میں بولنے والوں کو اٹھایا جائیگا،عمرایوب
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد:
پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل پر بات ہوئی ہے، اب آئین و قانون کے حق میں بولنے والوں کو اٹھایا جائے گا۔
اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب، بیرسٹر گوہر اور دیگر نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کی۔ اس موقع پر عمر ایوب نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے بہترین احتجاج ریکارڈ کرایا ہے ۔
عمر ایوب نے کہا کہ حکومت کے ساتھ تیسرا مذاکراتی راؤنڈ مکمل ہوگیا ، حکومت نے کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرائیں گے ۔ ہم بار بار پوچھ چکے ہیں مگر حکومت ملاقات کرانے میں ناکام ہے ۔
یہ خبر بھی پڑھیں: ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی سے منظور، پی ٹی آئی کی مخالفت
انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات کے مطابق اگر کمیشنر نہیں بنیں گے تو مذاکرات بھی نہیں ہوں گے ۔ القادر ٹرسٹ کیس ایک بھونڈا کیس ہے۔ اس وقت جوڈیشری پر دباؤ ہے۔ فیصلہ کٹھ پتلی عدالت نے سنایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ایک کمیٹی میں ڈیجیٹل پاکستان بل پر بات ہوئی ۔ حکومتی ممبران نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا، جس کے مطابق ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوگی ۔ بل پاس ہونے کے بعد پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کے حق میں بات کرنے والوں کو اٹھایا جائے گا ۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے ، لوگ غربت میں بہت نیچے پہنچ چکے ہیں۔
بیرسٹر گوہر
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں قانون سازی کا کم ترین وقت پاکستان میں ہے ۔ 88 دنوں میں 10 منٹ بھی قانون سازی پر بات نہیں ہوئی ۔ جتنے بھی قانون پاس ہوئے 10 منٹ کے اندر پاس کرلیے گئے ۔ ایک سال میں 130 دن سیشن ہوتا ہے مگر ہمارے پاس 88 دن ہوئے ۔
عامر ڈوگر
پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ آج انسداد دِہشتگردی عدالت میں 700 کارکن اٹک سے لائے گئے تھے ۔ بے گناہ کارکنوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے ۔ قیدی وینز میں 500 قیدی ڈال کر لائے جاتے ہیں۔ 3 ہزار سے زائد کارکنان قید ہیں، ان کے ساتھ جیل مینوئل کے مطابق سلوک کیا جائے۔
علی محمد خان
میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ عمران خان نے امریکا کی سازش کو بے نقاب کیا ۔ شہباز شریف اس خط کو ایوان میں لے کر آئے جس کی بنیاد پر سزا سنائی گئی ۔ جو جج سائیکل چور اور جیب کترے کا مقدمہ نہیں سن سکتے، انہوں نے سابق وزیر اعظم کا کیس سنا ۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ جس فیصلے کی بنیاد پر سزا سنائی گئی اس میں کوئی حقیقت ہی نہیں ہے ۔ عمران خان کا گناہ صرف یہ ہے وہ پیسہ باہر سے پاکستان لائے ۔ حسن نواز کی طرح ہر پاکستانی دیوالیہ ہو جائے میری دعا ہے ۔ مگر یہ دعا بھی ہے کہ پاکستانی حلال کا رزق کھائے ویسا حرام کا نہ کھائیں ۔ ہم عمران خان پر ہوا ہر ظلم برداشت نہیں کریں گے، اس کی مذمت کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان بل پی ٹی آئی کے حق میں نے کہا کہ عمر ایوب تھا کہ
پڑھیں:
مسلمانی کا ناپ تول
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) یہ کوئی ستم ظریفی نہیں بلکہ بھارت کی پارلیمنٹ کا حالیہ منظور شدہ وقف قانون ہے۔ ایسا قانون جو بظاہر جائیداد کے تحفظ کے لیے ہے، مگر درحقیقت محبت، بھائی چارے، اور عقیدے کے بیچ میں دیوار کھڑی کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
نئے قانون کے تحت اب کوئی بھی شخص اگر اسلامی فلاحی مقاصد کے لیے وقف کرنا چاہے، تو یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ وہ گزشتہ پانچ برسوں سے "با عمل" مسلمان ہے۔
اس کا مطلب؟ باجماعت نماز؟ روزے کے کھاتے؟ حج کی مہر؟ یا پھر امام صاحب کی تحریری تصدیق؟ قانون خاموش ہے۔ لیکن واضح ہے کہ نیت نہیں ناپی جائے گی، ناپ تول کردار سے ہوگا۔ شاید کل کو وقف عطیہ دہندگان کے لیے "دینداری اسکینر" مشینیں ایئرپورٹ کے سامان چیکنگ جیسی لگائی جائیں گی۔(جاری ہے)
فسادات کے دنوں میں کچھ فسادی پاجامہ اتار کر مذہب کا فیصلہ کرتے تھے، اب حکومت ختنہ کے ساتھ تقویٰ بھی چیک کرے گی۔
لگتا ہے بھارت کی پارلیمنٹ نے بھی وہی 'پاجامہ ٹیسٹ‘ واپس لاگو کر دیا ہے، مگر اس بار اسے قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ پہلے پاجامہ اتارنے کے بعد گردنیں اتاری جاتی تھیں، اب خیرات اور نیکی کے ارادوں پر قدعن لگائی جائیگی۔پنجاب کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سکھ کسانوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں 200 سے زائد ایسی زمینیں عطیہ کیں جہاں 1947 کے بعد اجڑی مساجد دوبارہ آباد ہو سکیں۔
گاؤں عمرپورہ، ضلع مالیر کوٹلہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین دی۔ ان کا کہنا تھا، "گاؤں میں مسلم گھرانے ہیں، ان کے پاس عبادت کی جگہ نہیں، ہمیں لگا یہ ہماری انسانی ذمہ داری ہے۔"ایسا صرف عمرپورہ میں نہیں، جٹوال کلاں جیسے سکھ اکثریتی دیہات میں بھی محض ایک درجن مسلمان خاندانوں کے لیے سکھ برادری نے نہ صرف زمین دی بلکہ تعمیراتی اخراجات بھی اٹھائے۔
مگر نیا قانون ان تمام جذبوں پر ایک ٹھنڈی فائل کی مہر لگا دیتا ہے، غیر مسلم شخص کسی اسلامی ادارے کو زمین نہیں دے سکتا، جب تک وہ خود مسلم نہ ہو، اور وہ بھی ایسا مسلم جو پانچ سال سے مسجد کی پہلی صف میں بیٹھا ہو، فطرہ اور زکوة وقت پر دے، اور سوشل میڈیا پر مولانا طارق جمیل کی ویڈیوز شیئر کرتا ہو۔
یہ سوال نہایت اہم ہے۔ اگر کسی سکھ، ہندو یا عیسائی کو اپنے مسلمان ہمسایوں کے لیے زمین دینی ہو تو کیا وہ مذہب تبدیل کرے؟ پھر پانچ سال کی دینداری کا ثبوت دے؟ یہ قانون صرف "مدد روکنے" کے لیے نہیں، بلکہ "دل توڑنے" کے لیے بھی بنایا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے حکومت لوگوں کو مذہبی خیرات سے باز رکھنے کے لیے "افسر شاہی اسلامیات" کا نیا مضمون متعارف کروا رہی ہے۔ کیا دینداری کی ماپ کے لیے کوئی ریاستی مولوی رکھے جائیں گے؟ کیا زکوٰۃ، نماز، حج اور روزے کی رسیدیں محکمہ وقف میں جمع ہوں گی؟ یا پھر آدھار کے محکمہ کو یہ ڈیٹوٹی بھی دی جائیگی کہ وہ طے کرے کہ کون باعمل مسلمان ہے۔
وقف بورڈز میں غیر مسلموں کی اکثریت
نیا قانون یہ بھی کہتا ہے کہ مرکزی وقف کونسل کے 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہوں گے، ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وقف بورڈز کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو افسر کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں رہا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے مسجد کے انتظام کے لیے چرچ کے پادری یا مندر کے پجاری کو مقرر کیا جائے۔
افسوس کہ جب شری سائی بابا ٹرسٹ یا مندروں کے بورڈز کے لیے متعقد افسر کا ہندو ہونا ضروری ہو، تب کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ لیکن مسلمانوں کے مذہبی اور فلاحی ادارے اب اقلیت میں بھی اقلیت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔2013 میں جب کانگریسی حکومت نے وقف املاک کی واگزاری کے لیے سخت قانون بنایا، تو 21 لاکھ ایکڑ زمین واپس لی گئی۔ اس کے بعد وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ 18 لاکھ ایکڑ سے بڑھ کر 39 لاکھ ایکڑ تک پہنچ گیا۔
تب سے ایک پروپیگنڈہ چلا: ''مسلمانوں کے پاس سب سے زیادہ زمینیں ہیں!‘‘ حالانکہ صرف جنوبی ہندوستان کی چار ریاستوں میں مندروں کے پاس 10 لاکھ ایکڑ اراضی ہے، اور شمالی بھارت کی تو بات ہی الگ ہے۔یہ "زمین کا فوبیا" سیاست کا نیا ہتھیار ہے، جس کے ذریعے اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ کہ دیکھو! تمہارے پاس کچھ نہیں اور یہ اقلیت سب کچھ لے اُڑی۔
بے آواز خیرات، بے زبان محبت
ہندوستانی موجودہ حکمران پارٹی جس کے پاس آج ایک بھی مسلم رکن پارلیمان نہیں، وہ مسلمانوں کی "فلاح و بہبود" کے لیے قوانین لا رہی ہے۔ ان قوانین کے پیچھے جس خلوص کا شور ہے، اس کے نیچے تعصب اور تنگ نظری کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے۔
عمرپورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں جہاں مسلمان اور سکھ ساتھ بستے ہیں، یہ قانون اب ان کی محبت کو غیر قانونی، اور ان کی مشترکہ زندگی کو مشکوک بنا سکتا ہے۔
پاجامہ ٹیسٹ اب صرف فسادات کی داستان نہیں، بلکہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔