Jasarat News:
2025-04-26@08:38:42 GMT

زندگی کے موسم

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

زندگی کے موسم

گرمی، سردی، برسات، خزاں اور بہار۔ یہ وہ موسم ہیں جو زندگی میں بار بار آتے جاتے رہتے ہیں لیکن خود انسانی زندگی جن موسموں سے گزرتی ہے وہ اس کی ذات میں پھر پلٹ کر نہیں آتے۔ آدمی پیدا ہوتا ہے، پل پل بڑھتا ہے، یہ اس کا بچپن ہے جو چند سال اس کے ساتھ رہتا ہے، خوشی اور بے فکری کا زمانہ جس میں ہر چیز اسے خوبصورت لگتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد اِن چیزوں کو چھونے اور پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں اس کا دل خوشیوں سے بھر جاتا ہے، اس کی آنکھیں مسکرانے لگتی ہیں، اس کا چہرہ انجانی خوشی سے تمتما اُٹھتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں اس کے چہرے پر اُداسی چھا جاتی ہے، اس کی آنکھیں آنسوئوں سے چھلک اُٹھتی ہیں، وہ دھاڑیں مار کر رونے لگتا ہے، ماں بے چین ہوجاتی ہے، اسے سینے سے لگا لیتی ہے اور جو چیز وہ پکڑنے میں ناکام رہا ہے ماں اسے پکڑ کر اس کی گود میں ڈال دیتی ہے۔ یہ ہے بچپن کا موسم جو چند سال آدمی کی زندگی میں دھومیں مچاتا ہے، ہنستا ہے، مسکراتا ہے، شرارتیں کرتا ہے، روتا دھوتا بھی ہے، ضد بھی کرتا ہے اور اپنی بات پوری ہونے پر خوش بھی ہوتا ہے۔ پھر چند سال بعد روٹھ کر اندھیروں میں چلا جاتا ہے جہاں سے وہ پھر کبھی واپس نہیں آئے گا، البتہ اس کی یادیں ہمیشہ اس کے دل میں جگمگاتی رہتی ہیں۔

بچپن کے بعد آدمی کی زندگی میں لڑکپن کا موسم آتا ہے یہ بھی بے فکری اور لا ابالی پن کا موسم ہے، جس میں آدمی تعلیم کے مدارج طے کرتا ہے، دوستیاں اور دشمنیاں بناتا ہے اور بعض اوقات یہ دوستیاں اور دشمنیاں اس کی زندگی میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکپن آدمی کو نئی آزمائش سے دوچار کردیتا ہے، والدین اسے پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اسے اپنی دُنیا آپ پیدا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں، وہ کسی موٹر مکینک کے پاس ’’چھوٹا‘‘ بن جاتا ہے جس کا کام اوزار پکڑانا اور پیچ کسنا ہوتا ہے اس کے عوض اسے دو وقت کی روٹی اور کچھ پیسے میسر آتے ہیں جن سے وہ اپنے والدین کی مدد کرتا ہے اور ’’کمائو پوت‘‘ شمار ہوتا ہے۔ پھر وہ ترقی کرتے کرتے مکینک بن جاتا ہے اور گاڑیاں ٹھیک کرنے لگتا ہے، اس وقت تک لڑکپن اس سے رُخصت ہوجاتا ہے اور جوانی کی صورت میں نیا موسم اس کی زندگی کی دہلیز پر دستک دینے لگتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ بے شمار لوگ اپنے کیریئر بنانے کی جدوجہد میں اپنی جوانی بھی صرف کر بیٹھتے ہیں، انہیں یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ زندگی کا یہ سب سے ولولہ انگیز اور پُرجوش موسم کب آیا اور کب رُخصت ہوگیا۔ وہ ازدواجی زندگی بھی گزار لیتے ہیں، کئی بچوں کے باپ بھی بن جاتے ہیں لیکن جوانی ان کے قریب سے بھی ہو کر نہیں گزرتی۔ جوانی کا موسم ان پر آتا ضرور ہے لیکن ان کو اس کی خبر نہیں ہوپاتی۔ پھر ایک دن وہ نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں اور بڑھاپا انہیں ایک انجانی منزل کی طرف لے جانے کے لیے آن کھڑا ہے۔ بڑھاپا انسانی زندگی کا وہ آخری موسم ہے جس کے بعد پھر رُت نہیں بدلتی اور بڑھاپا اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ مستقل موجود رہتا ہے۔ حتیٰ کہ موت کا بگل بجتا ہے تو وہ اپنے ہمسفر کو نئی منزل کی جانب روانہ کرکے خود بھی اپنی راہ لیتا ہے۔

آئیے اس موقع پر آپ کی ملاقات ایک ’’بابے‘‘ سے کراتے ہیں جو زندگی کے سارے موسم برت چکے ہیں اور اب بڑھاپے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

س: بابا جی اِس وقت آپ کی عمر کتنی ہوگی؟

ج: میری عمر کا کیا پوچھتے ہو میں تو اِس وقت بونس پہ جی رہا ہوں۔

س: بونس سے کیا مراد ہے آپ کی؟

ج: مطلب یہ کہ میری طبعی عمر تو پوری ہوگئی ہے میرے ماں باپ بہن بھائی سب اسّی بیاسی سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے جس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ مجھے بھی رُخصت ہوجانا چاہیے کہ میں بھی اسّی کراس کرچکا ہوں۔ پچھلے دنوں فرشتہ روح قبض کرنے آیا بھی تھا لیکن قیاس یہی کہتا ہے کہ کارخانہ حیات کے مالک نے اس سے کہا کہ یہ بونس پر چل رہا ہے اسے چلنے دو، فرشتہ اجل اُلٹے قدموں واپس چلا گیا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بونس کیا ہوتا ہے۔ جو کمپنیاں بہت زیادہ منافع کماتی ہیں وہ اس منافع میں اپنے ملازمین کو بھی شریک کرلیتی ہیں اسے بونس کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو کارخانہ حیات چلا رہے ہیں اس میں وہ جس بندے کو چاہیں خصوصی بونس سے نواز دیں، یہ بونس مختلف صورتوں میں اسے دیا جاتا ہے اس کی ایک صورت درازیٔ عمر بھی ہے۔ میری کار گزاری حیات تو ایسی نہیں کہ انعام کا مستحق ٹھیروں لیکن اللہ غفور الرحیم ہیں جسے چاہیں نواز دیں۔

س: آپ نے بچپن، لڑکپن اور جوانی کا لطف اُٹھایا ہے، زندگی کے یہ موسم آپ کو کیسے لگے اور آپ بڑھاپے کا مزا لے رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔

ج: طبیعی موسم یعنی گرمی، سردی، برسات، بہار اور خزاں سے تو آپ زندگی میں بار بار لطف اندوز ہوجاتے ہیں اور ہر سال ان سے سابقہ پیش آتا ہے لیکن زندگی کے جن موسموں کا آپ نے ذِکر کیا وہ پوری زندگی میں صرف ایک بار ملتے ہیں اور ساری عمر ان کی یادیں دل میں جگمگاتی رہتی ہیں۔ میری یادوں کے کینوس پر بھی یہ یادیں جگمگا رہی ہیں میں جب چاہوں ان یادوں سے دل کو شاد کرسکتا ہوں، جو یادیں تلخ ہیں ان سے دل اُداس بھی ہوتا ہے۔ بچپن کی یادوں میں اماں کا شفیق چہرہ سب سے نمایاں ہے، وہ ہمیشہ مجھے نِک نیم سے پکارتی تھیں، یہ عرفیت انہوں نے میری ولادت کے فوراً بعد میرے لیے خاص کردی تھی، بعد میں محلے کے امام صاحب نے میرا نام تجویز کیا تو اماں نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ غربت کا زمانہ تھا لیکن وہ ہمیشہ مجھے اچھا کھلاتی اور پہناتی رہیں یوں تو وہ اپنے سب بچوں سے پیار کرتی تھیں لیکن میرے ساتھ ان کا پیار خاص تھا، شاید اس وجہ سے کہ میں اُن کی آخری نرینہ اولاد تھا۔ اماں کے ساتھ یادوں کا پورا البم ہے جنہیں ورق ورق کھولوں تو پوری کتاب بن جائے اس لیے بات یہیں ختم کرتا ہوں۔

لڑکپن اور ابتدائی جوانی کا زمانہ انتہائی افراتفری میں گزرا حصول تعلیم میں بار بار رکاوٹیں آتی رہیں لیکن قلم اور کتاب سے رشتہ چونکہ بچپن سے استوار ہوگیا تھا اس لیے ساری رکاوٹیں دور ہوتی چلی گئیں اور رشتہ رزق کا ذریعہ بن گیا۔ رہی جوانی تو اس کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ

اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

جوانی کا جب احساس ہوا تو یہ موسم ڈھل چکا تھا اور بڑھاپا دہلیز پر دستک دے رہا تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے

جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا

بڑھاپا رخصت نہیں ہوتا بلکہ وہ آدمی کو رخصت کرنے کے لیے آتا ہے۔ غالب کہتے ہیں

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا!

موت بظاہر ایک ہولناک واردات ہے لیکن اسی نے زندگی میں لطف اور رنگینی پیدا کردی ہے اگر موت نہ ہوتی تو زندگی یکسانیت کا شکار ہو کر بے کیف ہوجاتی اور آدمی اس سے نجات کے راستے تلاش کرنے لگتا۔ غالبؔ نے ایک اور مقام پر اپنا تجربہ یوں بیان کیا ہے۔

منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا اُمیدی اس کی دیکھا چاہیے

میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے ان سارے موسموں میں ہر آدمی اپنے انفرادی تجربات سے گزرتا ہے میں بھی اپنے منفرد تجربات سے گزرا ہوں اور اب زندگی کا آخری موسم انجوائے کررہا ہوں۔ وما علینا الاالبلاغ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: زندگی میں زندگی کے جوانی کا کی زندگی وہ اپنے جاتا ہے ہیں اور کرتا ہے کا موسم ہوں کہ بھی ہو ہے اور

پڑھیں:

غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 اپریل 2025ء) غزہ میں کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے والی مشینری کو بمباری میں نقصان پہنچنے سے تباہ شدہ عمارتوں تلے دبے لوگوں کی زندگی بچانے کی موہوم امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔

گزشتہ روز اسرائیل کی بمباری سے ایسے متعدد بلڈوزر اور کھدائی مشینیں تباہ ہو گئی ہیں جنہیں ملبے سے زندہ و مردہ لوگوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے غزہ کے مقامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بلڈوزر تباہ ہونے سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام بھی معطل ہو گیا ہے۔

ہزاروں افراد ملبے تلے دفن

اطلاعات کے مطابق غزہ پر 7 اکتوبر 2023 سے اب تک ہونے والی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے کم از کم 11 ہزار لوگ دب گئے تھے جن میں سے بیشتر کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

غزہ کے عاطف نصر جنگ سے پہلے عمارتیں تعمیر کرنے اور سڑکوں کی مرمت کا کام کیا کرتے تھے اور اب ملبے سے لاشیں نکالتے ہیں۔ بلڈوزر تباہ ہونے سے اب ان کے لیے اپنا کام کرنا ممکن نہیں رہا۔

داہدو خاندان کے بیٹے عمر ایک سال پہلے اسرائیل کی بمباری میں ہلاک ہو گئے تھے جن کی لاش سات منزلہ رہائشی عمارت کے ملبے سے اب دریافت ہوئی ہے۔ ان کے بھائی معاد نے بتایا کہ گزشتہ جنگ بندی کے عرصہ میں انہوں نے عمر کی لاش نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن عمارت بہت بڑی ہونے اور بھاری مشینری کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں ناکامی ہوئی۔

انہوں نے لاش نکالنے کے لیے بلڈوزر اور کھدائی مشینیوں سے مدد لینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کی بمباری میں یہ مشینیں تباہ ہو چکی ہیں۔

آخری رسومات

جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں مقیم داجانی خاندان اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر قیام پذیر ہے جس کے نیچے ان کے تین بچوں کی لاشیں بھی دفن ہیں۔ ان کے والد علی بتاتے ہیں کہ جب بمباری شروع ہوئی تو وہ اپنے خاندان کے چند لوگوں کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف چلے گئے۔

واپسی پر ان کا گھر تباہ ہو چکا تھا اور ان کے بچے ملبے تلے دب گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ باامر مجبوری اس جگہ پر رہ رہے ہیں لیکن یہ کوئی زندگی نہیں اور ان کے لیے حالات ناقابل برداشت ہیں۔ انہیں نہ تو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی خوراک۔ وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی لاشیں مل جائیں تاکہ وہ انہیں دفن کر سکیں۔ چند روز قبل انہوں نے قریبی علاقے میں کدالوں سے کھدائی کرنے والوں کو ملبہ ہٹانے کے لیے کہا تھا جنہوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن اب یہ کام بھی رک گیا ہے۔

پچاس ملین ٹن ملبہ

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ جنگ میں غزہ کی تقریباً 90 فیصد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ ان عمارتوں کی تباہی سے 50 ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے جسے موجودہ حالات میں صاف کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔

امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملبہ ہٹانے میں تاخیر کے نتیجے میں ناصرف غزہ بھر کے لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ صورتحال صحت عامہ اور ماحول کے لیے بھی تباہ کن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اکشے کمار کی زندگی کا سب سے بڑا خوف کیا ہے؟ اداکار کا انکشاف
  • بہادر ہوں لیکن شادی سے ڈرلگتا ہے، اداکارہ نے دل کا حال بتادیا،پاکستانی اداکارہ
  • ’ڈاکٹر چکر لگوا رہے تھے، چیٹ جی پی ٹی نے مرض کی تشخیص کر کے زندگی بچا لی
  • کومل عزیز کا انکشاف، شادی میری زندگی کا سب سے بڑا خوف ہے
  • غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
  • کومل عزیز خان نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خوف سے پردہ اٹھادیا
  • کومل عزیز کی زندگی کا سب سے بڑا خوف کیا ہے، اداکارہ نے بتا دیا
  • مجھ سے زبردستی اداکاری کروائی گئی؛ خوشبو نے درد ناک کہانی بتادی
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل؛ فلم میکر کا سلمان خان اور مادھوری کے حوالے سے اہم انکشاف