سکردو، تھرمل جنریٹر سے دو گھنٹے بجلی کیلئے 10 لاکھ روپے کے اخراجات
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
بریفنگ میں بتایا گیا کہ اصل مسئلہ سکردو میں بجلی کی پیداوار میں کمی ہے۔ مستقل حل کے لیے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ضروری ہے۔ جس کے بغیر مستقل حل ممکن نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ڈپٹی کمشنر سکردو کی صدارت میں بجلی کے حوالے سے ایک میٹنگ ہوئی۔ جس میں حالیہ سیزن میں بجلی بحران، تھرمل پاور سے بجلی کی فراہمی اور اس میں شفافیت کے حوالے بات چیت ہوئی۔ محکمہ برقیات سے ایکسیئن واٹر اینڈ پاور اور ایس ڈی اوز نے شرکت کی۔ ایکسیئن برقیات نے کہا کہ سکردو کے لیے جو رقم کی منظور ی ہوئی ہے اس سے ہم صرف دو گھنٹے اضافی بجلی دے سکتے ہیں۔ روزانہ تقریبا 10 لاکھ روپے کا ڈیزل اور آئل خرچ ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ سکردو میں بجلی کی پیداوار میں کمی ہے۔ مستقل حل کے لیے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ضروری ہے۔ جس کے بغیر مستقل حل ممکن نہیں۔ بجلی کی پیدوار کم ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے مسئلے بڑے ہو جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر سکردو عارف حسین ایکسیئن واٹر اینڈ پاور کو خصوصی ہدایات دی ہیں کہ وہ گریڈ ایک سے پانچ تک کے ملازمین کو ایک ہفتے کے اندر شفلنگ کر کے پرانے ملازمین کو ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن بھیجیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بجلی کی پیداوار میں میں بجلی
پڑھیں:
بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اتر پردیش میں مسجد کے باہر وقف بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دہشتگردوں کی طرح نشانہ بنایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت میں مسلمانوں کا پرامن احتجاج اب جرم بنتا جا رہا ہے، مودی حکومت میں اقلیتوں کی آواز کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اتر پردیش میں مسجد کے باہر وقف بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دہشتگردوں کی طرح نشانہ بنایا گیا۔ یوپی پولیس نے متنازع وقف بل پر آواز اٹھانے والے 50 سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔ احتجاج کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو یوپی پولیس نے مظاہرین پر بدترین تشدد کیا جب کہ مظاہرین کو 2 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ بل کی مخالفت میں سیاہ پٹیاں باندھنے پر بھی ایک لاکھ روپے کے مچلکے کی دھمکی دی گئی۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے اقلیتوں کی آواز دبانا اپنی پالیسی بنا لی ہے۔ احتجاج روکنے کے لیے دھمکیاں، مقدمات اور تشدد جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ رویہ جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔