مودی حکومت کی ناکام پالیسیاں، بھارتی عوام سراپا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
مودی حکومت کی ناکام پالیسیوں کے سبب بھارتی عوام سراپا احتجاج ہیں، بھارتی علاقے پتھم پور میں بھوپال سے لائے گئے زہریلے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے اقدام پر عوامی احتجاج شدت اختیار کرگیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق تین ہفتے قبل دنیا کی بدترین صنعتی آفات میں سے ایک کے مقام سے 337 ٹن زہریلے فضلے کے کنٹینرز کو ٹھکانے لگانے کے لیے پتھم پور پہنچنے کے بعد سے یہ قصبہ تناوٴ کا شکار ہے۔
بھوپال شہر میں 1984ء کے گیس سانحے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے، یہ زہریلا فضلہ بھوپال میں اب ناکارہ رہ جانے والی یونین کاربائیڈ فیکٹری سے لایا گیا ہے، اس عمل نے مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ اس فضلے کو آبادی کے قریب ٹھکانے لگانا نقصان دہ اور ماحولیاتی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
تین جنوری کو شہر میں فضلے کے پہنچنے کے ایک دن بعد مظاہرے پھوٹ پڑے اور پتھراوٴ اور خود سوزی کی کوشش کی گئی۔
اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوی کے گاوٴں بدھل میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 16 افراد کی پراسرار بیماری سے اموات ہو چکی ہیں، پراسرار ہلاکتوں میں مرنے والے افراد میں نیوروٹوکسن کی موجودگی کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کی حکومتی پالیسیوں میں عوام کی زندگیوں کی پروا نہیں کی جاتی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
آرٹیکل 370کی منسوخی مودی سرکار کا ناکام اقدام ثابت
حالات غیر مستحکم، مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا
مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے ۔بھارتی ٹی وی کے مطابق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔آرٹیکل370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے ۔یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعوی کیا تھا کہآرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگی امن ویکساں حقوق ملیں گے ۔حالات نے ثابت کردیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے ۔مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماں کو نظر بند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں ۔مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے ۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020 اور 2021 میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں فیک انکانٹر میں مارے گئے ۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019 سے فروری 2020 تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج ہیں اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مودی کیجبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے ۔