26ویں ترمیم کے خلاف درخواست دینا سیکریٹری سپریم کورٹ بار سلمان منصور کو مہنگا پڑگیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دینے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری سلمان منصور کو معطل کردیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں سلمان منصور کو معطل کرنے کی منظوری دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درجن سے زیادہ درخواستیں، اب تک سماعت کیوں نہ ہوسکی؟
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی نے مؤقف اختیار کیاکہ سلمان منصور نے عہدے کا رولز کے برعکس غلط استعمال کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے ضروری تھا کہ سلمان منصور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری لیتے لیکن انہوں نے از خود درخواست دائر کی۔ انہیں اس سے قبل وارننگ بھی دی جا چکی تھی۔
دوسری جانب سلمان منصور نے معطل کیے جانے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ قواعد میں کوئی ایسی شق نہیں کہ کسی عہدیدار کو معطل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت اسی ہفتہ کی جائے، 2 سینیئر ججوں کا چیف جسٹس سے مطالبہ
انہوں نے کہاکہ مجھے معطل کرنے کی بات صدر کا محض ذاتی بیان ہے، ایگزیکٹو کمیٹی کسی عہدیدار کو معطل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی ترمیم کے خلاف درخواست ایگزیکٹو کمیٹی سپریم کورٹ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سلمان منصور سیکریٹری معطل وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئینی ترمیم کے خلاف درخواست ایگزیکٹو کمیٹی سپریم کورٹ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سیکریٹری معطل وی نیوز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ترمیم کے خلاف درخواست ا ئینی ترمیم کے خلاف 26ویں ا ئینی ترمیم ایگزیکٹو کمیٹی کو معطل
پڑھیں:
سپریم کورٹ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
اسلام آباد ( نیوزڈیسک) سپریم کورٹ نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قبل از گرفتاری ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں سنائے گئے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے گرفتاری نہیں روکی جا سکتی، عبوری تحفظ کوئی خودکار عمل نہیں بلکہ اس کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔
فیصلے کے مطابق ملزم زاہد خان اور دیگر کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائی کورٹ سے مسترد ہوئی، اس کے باوجود پولیس نے 6 ماہ تک گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
عدالت نے اسے انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب نے پولیس کی غفلت کا اعتراف کیا اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
عدالت نے قرار دیا کہ پولیس کی طرف سے گرفتاری میں تاخیر کو انتظامی سہولت کا جواز نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ ایسی غیر قانونی تاخیر انصاف کے نظام اور عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے، اگر اپیل زیر التوا ہو تب بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک عدالت کی طرف سے کوئی حکم نہ ہو۔
درخواست گزار وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے پر عدالت نے اپیل نمٹا دی۔
Post Views: 4