UrduPoint:
2025-09-18@12:00:54 GMT

خواتین مردوں پر بوجھ بنیں

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

خواتین مردوں پر بوجھ بنیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) پاکستان جیسے پدر شاہی معاشروں میں مرد اور عورت کے مابین تعلق میں مرد کا فائدہ اور عورت کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں وہی خواتین بہتر رہتی ہیں، جو اس معاشرے کے رسم و رواج کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

ایسی خواتین خود مختار ہو سکتی ہیں لیکن وہ اپنی خود مختاری کو مردوں کی نظروں اور خیالات سے اوجھل رکھتی ہیں اور انہیں ایسے تاثر دیتی ہیں جیسے وہی ان کی زندگی چلا رہے ہوں اور وہ ان کے بغیر اپاہج اور لاچار ہوں۔

وہ مردوں کے ساتھ ایک بوجھ بن کر رہتی ہیں۔ ایسا بوجھ جسے وہ خوشی خوشی اپنے اوپر لادتے ہیں اور پوری زندگی لادے رکھتے ہیں۔

میری ایک جاننے والی خاتون خواتین کے گاڑی چلانے کے سخت خلاف ہیں۔

(جاری ہے)

ان کا ماننا ہے کہ اگر مردوں کو پتہ ہو کہ ان کی بیوی، بہن یا بیٹی خود گاڑی چلا کر کہیں بھی جا سکتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ آنا جانا ہی ختم کر دیں گے۔

انہیں گاڑی چلانی آتی ہے لیکن اپنی شادی کے بعد انہوں نے کبھی گاڑی کی چابی بھی نہیں پکڑی۔ انہوں نے کہیں جانا ہو تو وہ کئی دن پہلے سے اپنے شوہر کے کان کھانا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے شوہر ان کے شیڈول کے مطابق انہیں جہاں جانا ہو لے کر جاتے ہیں۔

دوسری طرف میری ایک سری لنکن دوست ہیں۔ یہ ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کی تنخواہ ان کے شوہر سے زیادہ ہے۔

گھر کا کرایہ ان کی تنخواہ سے جاتا ہے۔ گروسری کے پیسے بھی یہ دیتی ہیں۔ اکثر بِلوں کی ادائیگی بھی ان کی تنخواہ سے ہوتی ہے۔ گاڑی ان کی ہے لیکن اس پر قبضہ ان کے شوہر کا ہے۔ وہ صبح انہیں یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے دفتر جاتے ہیں۔ اگر کبھی یہ گھر سے نکلنے میں دیر کر دیں تو وہ غصے میں گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں۔ انہیں پھر بس سے یونیورسٹی جانا پڑتا ہے۔

ان کے شوہر گھر کے کسی کام میں ان کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ انہیں گھر آ کر اپنے اور ان کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے، صفائی کرنی پڑتی ہے اور اگلے دن کے لیکچر کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ ان کے شوہر پھر بھی ان سے خوش نہیں ہوتے۔ کبھی غصہ آئے تو ایک دو تھپڑ بھی جڑ دیتی ہیں۔ ہر ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کی دعوت رکھ لیتے ہیں جس کی تیاری میری دوست کو ہی کرنی پڑتی ہے۔

پدرشاہی معاشروں میں خواتین ایک لمبی جدوجہد کے بعد خود مختار ہوتی ہیں۔ اس کے بعد بھی معاشرہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ وہ ان سے مختلف طریقوں سے ان کی خود مختاری کی قیمت وصول کرتا ہے۔ یہاں وہی عورت کامیاب رہتی ہے جو اپنی خود مختاری کے فائدے اپنے آپ تک محدود رکھتی ہے اور اپنے سے منسلک مردوں کو یہی تاثر دیتی ہے کہ وہ اب بھی اپنی کئی ضروریات کے لیے ان پر انحصار کرتی ہے۔

وہ اپنی بہت سی ضروریات اور ذمہ داریاں مردوں پر ڈالتی ہے۔ مرد خوشی خوشی، روتے دھوتے یا غصے میں اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ عورت ایسے نہ کرے تو اس کا حال بھی میری سری لنکن دوست جیسا ہوگا۔

جو مرد اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے اخراجات ادا کر رہا ہے، وہ بیوی اور بچوں کے اخراجات بھی برداشت کر سکتا ہے۔ اسے ان اخراجات سے آزادی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر اس کا یہاں ساتھ دینا ہے تو اسے کئی دیگر جگہوں سے ایک طرف کرنا ہوگا۔ وہ بیوی کے اوپر حکم نہیں چلائے گا۔ اس کی زندگی کے فیصلے نہیں کرے گا۔ اس پر اپنے گھر اور گھر والوں کی ذمہ داری نہیں ڈالے گا۔ گھر کے کچھ کام اپنے ذمے لے گا تاکہ وہ ہر جگہ اپنی بیوی کے ساتھ برابری میں ہو۔ نہ اس کا نقصان ہو رہا ہو نہ بیوی کا۔ جہاں اس کا فائدہ ہو رہا ہے اسے صرف وہیں برابری کیوں دی جائے؟

جب تک خواتین کو مردوں کے ساتھ ہر میدان میں برابری نہیں ملتی انہیں مردوں پر بوجھ بن کر رہنا چاہیے۔

مرد عورت کی معاشی ذمہ داری اٹھائیں۔ اسے کہیں جانا ہو تو اسے وہاں لے کر جائیں۔ چھٹی والے دن اس کے بتائے گئے کام مکمل کریں۔ وہ روئے تو پریشان ہو جائیں، وہ ہنسے تو سکھ کا سانس لیں۔

اس کے لیے خواتین کو مردوں کے سروں پر سوار ہونا ہوگا۔ انہیں اپنی ضروریات بتانی ہوں گی۔ انہیں ان ضروریات کو پورا کرنے کا کہنا ہوگا۔ خواتین بولیں گی تو مرد سنیں گے۔

اس لیے شرمانا چھوڑیں اور مردوں پر بوجھ بنیں۔

یہ پدر شاہی ہے۔ یہاں مرد دنیا چلاتے ہیں۔ انہیں دنیا چلانے دیں اور خود بیک سیٹ پر بیٹھ کر آرام کریں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے شوہر کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

شوبز انڈسٹری بدل گئی ہے، اب ڈرامے بنا کر خود کو لانچ کیا جارہا ہے، غزالہ جاوید کا انکشاف

سینئر اداکارہ غزالہ جاوید نے انکشاف کیا ہے کہ شوبز انڈسٹری میں وقت کے ساتھ بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئی ہیں، اب انڈسٹری میں لوگ پیسے لگا کر ڈرامے اور سیریلز بناتے ہیں تاکہ خود کو یا اپنی بچیوں کو لانچ کرسکیں۔

غزالہ جاوید نے حال ہی میں مزاحیہ پروگرام ’مذاق رات‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے کیریئر اور شوبز انڈسٹری کے حوالے سے کھل کر گفتگو کی۔
اداکارہ نے بتایا کہ ماضی میں جب معروف فنکار معین اختر حیات تھے تو اس وقت انہیں کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے شمولیت کی پیشکشیں ہوئیں، متعدد لوگ ان کے گھر آئے اور انہیں اپنی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی، تاہم معین اختر نے انہیں مشورہ دیا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا حصہ نہ بنیں کیونکہ ایک فنکار سب کا ہوتا ہے، اس لیے وہ کسی ایک کا نہیں ہوسکتا۔
ان کے مطابق معین اختر نے کہا کہ فنکار کا دل اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ سب سے پیار کرتا ہے اور سب اس سے محبت کرتے ہیں، اس لیے خود کو کبھی محدود نہ کریں۔

اپنے کیریئر کے آغاز کے حوالے سے غزالہ جاوید نے بتایا کہ اس وقت ڈراموں کا معیار بہت اعلیٰ تھا، پی ٹی وی پر مہینوں ریہرسل کی جاتی تھی، لیکن وہ اتنی محنت کرنے کی خواہش مند نہیں تھیں، اسی لیے چند سیریلز کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ڈراموں میں مزید کام نہیں کریں گی۔

اداکارہ کے مطابق ایک موقع پر معین اختر نے انہیں مزاحیہ اسکٹ میں کام کرنے کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ ڈرتی تھیں کہ اتنے بڑے فنکار کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور وہ زیادہ محنت بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں، تاہم بعد میں وہ راضی ہوگئیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل لوگ پیسے دے کر انڈسٹری میں آرہے ہیں، ڈرامے اور سیریلز بنارہے ہیں تاکہ خود کو یا اپنی بچیوں کو لانچ کرسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں شوبز میں آنے پر گھر والے اعتراض کرتے تھے اور واویلا مچ جاتا تھا، لیکن آج کل وہی لوگ چاہتے ہیں کہ اگر کوئی جاننے والا شوبز میں ہے تو وہ اس کے ذریعے کام حاصل کرلیں۔
اداکارہ کے مطابق اب جو نئی اداکارائیں آرہی ہیں وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور انہیں پرانی نسل کی طرح پابندیوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • طاقتور حلقوں کو فارم 47 سے بنی حکومت کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، اعظم سواتی
  • اسکرین پر والد کے دوست کی دوسری بیوی بنی، عجیب کیفیت کا سامنا رہا، تارا محمود
  • والد کے آخری لمحات کا وی لاگ بنانے پر تنقید، بیٹیوں نے اپنے دفاع میں کیا حیران کن وجہ بتائی؟
  • عراق زیارات کے لیے نئی پالیسی: 50 سال سے کم عمر مردوں کو اکیلے ویزہ نہیں ملے گا
  • عراق، زیارات کیلئے 50 سال سے کم عمر اکیلے مردوں کو ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • شوبز انڈسٹری بدل گئی ہے، اب ڈرامے بنا کر خود کو لانچ کیا جارہا ہے، غزالہ جاوید کا انکشاف
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟