UrduPoint:
2025-07-26@22:15:14 GMT

خواتین مردوں پر بوجھ بنیں

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

خواتین مردوں پر بوجھ بنیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) پاکستان جیسے پدر شاہی معاشروں میں مرد اور عورت کے مابین تعلق میں مرد کا فائدہ اور عورت کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں وہی خواتین بہتر رہتی ہیں، جو اس معاشرے کے رسم و رواج کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

ایسی خواتین خود مختار ہو سکتی ہیں لیکن وہ اپنی خود مختاری کو مردوں کی نظروں اور خیالات سے اوجھل رکھتی ہیں اور انہیں ایسے تاثر دیتی ہیں جیسے وہی ان کی زندگی چلا رہے ہوں اور وہ ان کے بغیر اپاہج اور لاچار ہوں۔

وہ مردوں کے ساتھ ایک بوجھ بن کر رہتی ہیں۔ ایسا بوجھ جسے وہ خوشی خوشی اپنے اوپر لادتے ہیں اور پوری زندگی لادے رکھتے ہیں۔

میری ایک جاننے والی خاتون خواتین کے گاڑی چلانے کے سخت خلاف ہیں۔

(جاری ہے)

ان کا ماننا ہے کہ اگر مردوں کو پتہ ہو کہ ان کی بیوی، بہن یا بیٹی خود گاڑی چلا کر کہیں بھی جا سکتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ آنا جانا ہی ختم کر دیں گے۔

انہیں گاڑی چلانی آتی ہے لیکن اپنی شادی کے بعد انہوں نے کبھی گاڑی کی چابی بھی نہیں پکڑی۔ انہوں نے کہیں جانا ہو تو وہ کئی دن پہلے سے اپنے شوہر کے کان کھانا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے شوہر ان کے شیڈول کے مطابق انہیں جہاں جانا ہو لے کر جاتے ہیں۔

دوسری طرف میری ایک سری لنکن دوست ہیں۔ یہ ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کی تنخواہ ان کے شوہر سے زیادہ ہے۔

گھر کا کرایہ ان کی تنخواہ سے جاتا ہے۔ گروسری کے پیسے بھی یہ دیتی ہیں۔ اکثر بِلوں کی ادائیگی بھی ان کی تنخواہ سے ہوتی ہے۔ گاڑی ان کی ہے لیکن اس پر قبضہ ان کے شوہر کا ہے۔ وہ صبح انہیں یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے دفتر جاتے ہیں۔ اگر کبھی یہ گھر سے نکلنے میں دیر کر دیں تو وہ غصے میں گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں۔ انہیں پھر بس سے یونیورسٹی جانا پڑتا ہے۔

ان کے شوہر گھر کے کسی کام میں ان کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ انہیں گھر آ کر اپنے اور ان کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے، صفائی کرنی پڑتی ہے اور اگلے دن کے لیکچر کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ ان کے شوہر پھر بھی ان سے خوش نہیں ہوتے۔ کبھی غصہ آئے تو ایک دو تھپڑ بھی جڑ دیتی ہیں۔ ہر ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کی دعوت رکھ لیتے ہیں جس کی تیاری میری دوست کو ہی کرنی پڑتی ہے۔

پدرشاہی معاشروں میں خواتین ایک لمبی جدوجہد کے بعد خود مختار ہوتی ہیں۔ اس کے بعد بھی معاشرہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ وہ ان سے مختلف طریقوں سے ان کی خود مختاری کی قیمت وصول کرتا ہے۔ یہاں وہی عورت کامیاب رہتی ہے جو اپنی خود مختاری کے فائدے اپنے آپ تک محدود رکھتی ہے اور اپنے سے منسلک مردوں کو یہی تاثر دیتی ہے کہ وہ اب بھی اپنی کئی ضروریات کے لیے ان پر انحصار کرتی ہے۔

وہ اپنی بہت سی ضروریات اور ذمہ داریاں مردوں پر ڈالتی ہے۔ مرد خوشی خوشی، روتے دھوتے یا غصے میں اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ عورت ایسے نہ کرے تو اس کا حال بھی میری سری لنکن دوست جیسا ہوگا۔

جو مرد اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے اخراجات ادا کر رہا ہے، وہ بیوی اور بچوں کے اخراجات بھی برداشت کر سکتا ہے۔ اسے ان اخراجات سے آزادی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر اس کا یہاں ساتھ دینا ہے تو اسے کئی دیگر جگہوں سے ایک طرف کرنا ہوگا۔ وہ بیوی کے اوپر حکم نہیں چلائے گا۔ اس کی زندگی کے فیصلے نہیں کرے گا۔ اس پر اپنے گھر اور گھر والوں کی ذمہ داری نہیں ڈالے گا۔ گھر کے کچھ کام اپنے ذمے لے گا تاکہ وہ ہر جگہ اپنی بیوی کے ساتھ برابری میں ہو۔ نہ اس کا نقصان ہو رہا ہو نہ بیوی کا۔ جہاں اس کا فائدہ ہو رہا ہے اسے صرف وہیں برابری کیوں دی جائے؟

جب تک خواتین کو مردوں کے ساتھ ہر میدان میں برابری نہیں ملتی انہیں مردوں پر بوجھ بن کر رہنا چاہیے۔

مرد عورت کی معاشی ذمہ داری اٹھائیں۔ اسے کہیں جانا ہو تو اسے وہاں لے کر جائیں۔ چھٹی والے دن اس کے بتائے گئے کام مکمل کریں۔ وہ روئے تو پریشان ہو جائیں، وہ ہنسے تو سکھ کا سانس لیں۔

اس کے لیے خواتین کو مردوں کے سروں پر سوار ہونا ہوگا۔ انہیں اپنی ضروریات بتانی ہوں گی۔ انہیں ان ضروریات کو پورا کرنے کا کہنا ہوگا۔ خواتین بولیں گی تو مرد سنیں گے۔

اس لیے شرمانا چھوڑیں اور مردوں پر بوجھ بنیں۔

یہ پدر شاہی ہے۔ یہاں مرد دنیا چلاتے ہیں۔ انہیں دنیا چلانے دیں اور خود بیک سیٹ پر بیٹھ کر آرام کریں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے شوہر کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

کیا یہ ہے وہ پاکستان

بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں فرمایا تھا’’ اقلیتیں جہاں بھی ہوں، ان کے تحفظ کا انتظام کیا جائے گا، میں نے ہمیشہ یقین کیا اور میرا یقین غلط نہیں ہے۔ کوئی حکومت اور کوئی مملکت اپنی اقلیتوں کو اعتماد اور تحفظ کا یقین دلائے بغیرکامیابی کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی، کوئی حکومت ناانصافی اور جانبداری کی بنیادوں پرکھڑی نہیں رہ سکتی، اقلیت کے ساتھ ظلم و تشدد اس کی بقا کا ضامن نہیں ہو سکتا۔

اقلیتوں میں انصاف و آزادی، امن و مساوات کا احساس پیدا کرنا ہر انتخابی طرز حکومت کی بہترین آزمائش ہے، ہم دنیا کے کسی متمدن ملک سے پیچھے نہیں رہ سکتے، مجھے یقین ہے جب وقت آئے گا تو ہمارے ملکی خطوں کی اقلیتوں کو ہماری روایات، ثقافت اور اسلامی تعلیم سے نہ صرف انصاف و صداقت ملے گی بلکہ انھیں ہماری کریم النفسی اور عالی ظرفی کا ثبوت بھی مل جائے گا، ہم مول تول نہیں کرتے، ہم لین دین کے عادی نہیں، ہم صرف یقین پر عمل رکھتے ہیں اور صرف تدبر اور عملی سیاست پر اعتماد رکھتے ہیں۔‘‘

 قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مذکورہ خطبہ کو آج کے حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو سب کچھ برعکس نظر آتا ہے، یہاں تو معماران پاکستان اور محبان وطن کا تحفظ نظر نہیں آتا ہے، قائد اعظم کی توقعات اور ان کی تعلیمات کا مذاق لوگوں پر ظلم و ناانصافی کرکے اڑایا جا رہا ہے، قائد اعظم نے ایک مضبوط پاکستان کا خواب دیکھا تھا کہ تعمیر وطن کے لیے لاکھوں لوگوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ یہ ملک پاکستان جوکہ نوزائیدہ مملکت ہے آنے والے دنوں میں یہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن ہوگا ہر کسی کو اس کے حقوق دیے جائیں گے اور انصاف کا پرچم بلند ہوگا، خواتین کا احترام ہوگا۔

قائد اعظم قومی زندگی میں خواتین کے کردار کی اہمیت کے کس قدر قائل تھے انھوں نے ایک موقع پرکہا کہ زندگی کی جدوجہد میں خواتین کو شریک ہونے کا موقعہ فراہم کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ انھوں نے یاد دلایا آپ کو یاد ہوگا کہ پٹنہ کے اجلاس میں خواتین کی ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی انھوں نے خواتین کے حقوق اور ان کی ذمے داریوں کے بارے میں فرمایا خواتین اپنے گھروں میں اور باپردہ رہ کر بھی بہت زیادہ کام کر سکتی ہیں۔ 

ہم نے یہ کمیٹی اسی غرض سے بنائی تھی کہ وہ مسلم لیگ کے کاموں میں حصہ لے سکیں۔ اس کمیٹی کے فرائض میں عورتوں میں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور بیدار کرنا تھا۔ قائد اعظم نے 22 نومبر 1942 کو اسلامیہ کالج فار ویمن کوپر روڈ لاہور میں طالبات سے خطاب کرتے ہوئے اس بات سے آگاہ کیا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک بام عروج پر نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ اس کی خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ مصروف کار نہ ہوں، ہم ناپسندیدہ اور بری رسوم کا شکار ہیں۔ 

یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم کے مترادف ہے، ہماری خواتین قیدیوں کی طرح چار دیواری میں بند ہیں۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ مغربی طرز زندگی کی خامیوں اور برائیوں کو اپنا لیں، ہمیں کم ازکم اپنی خواتین کو وہ معیار اور وقار تو مہیا کرنا چاہیے جو اسلامی نظریات کی روشنی میں انھیں ملنا چاہیے۔ اسلام میں اس قابل مذمت صورت حال کی کہیں اجازت نہیں، جس میں ہماری خواتین اس وقت زندگی گزار رہی ہیں۔

پاکستان کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر محمد اقبال نے عورتوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔’’ عمومیات کو چھوڑکر اگر خصوصیات پر نظر کی جائے تو عورت کی تعلیم سب سے زیادہ توجہ کی محتاج ہے۔ عورت حقیقت میں تمدن کی جڑ ہے، ماں اور بیوی دو ایسے پیارے الفاظ ہیں کہ تمام مذہبی اور تمدنی نیکیاں ان میں مستور ہیں، اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔‘‘ وہ اپنے کلام میں اس کی عظمت اور اس کی موجودگی اس کی اہمیت کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی دُرّج کا درِّ مکنوں

قائد اعظم نوجوانوں کے جوش و خروش اور ایک علیحدہ وطن اور آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھے وہ جانی و مالی ہر طرح کی قربانیاں پیش کر رہے تھے۔ قائد اعظم نے ان کے عزم صمیم اور ہمت مرداں مدد خدا کے جذبے سے بے حد خوش تھے۔تحریک پاکستان کے ایک کارکن حکیم آفتاب حسن قرشی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران میں نے قائد اعظم سے عرض کیا کہ قائد اعظم ! مسلمان نوجوان حصول پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ 

آپ کی قیادت پر کامل یقین رکھتے ہیں، جب بھی آپ نوجوانوں کو پکاریں گے، انھیں آپ فوج کے ہر اول دستے میں پائیں گے۔ انھوں نے جواباً کہا کہ نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، مجھے ان سے یہی توقع ہے کہ وہ جنگ آزادی میں بیش از بیش حصہ لیں گے، قائد اعظم نے نوجوانوں کی قومی خدمات پر اظہار ستائش کرتے ہوئے فرمایا’’ مسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ اور تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور نوجوان ہی میرے قابل اعتماد سپاہی ثابت ہوئے ہیں۔

اب ہم قائد اعظم کی جہد مسلسل اور علامہ اقبال کے افکارکا جائزہ لیں تو ہمیں آج کا پاکستان اس میں بسنے والے نوجوان اور خواتین کا استحصال نظر آتا ہے، ظلم و بربریت کی کہانی نے پاکستان کی سرزمین کو خون سے نہلا دیا ہے۔ ہر روز نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے، لوٹ مارکی جاتی ہے، قدم قدم پر دشمنان پاکستان گھات لگائے بیٹھے ہیں، قائد اعظم کا بنایا ہوا پاک ملک جس کی بنیاد کلمہ پر قائم ہوئی ہے وہ ملک ناپاک ہو چکا ہے، عزت و تحفظ کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ 

اب خواتین کو معمولی اور سیاسی و اصولی جنگ کے دوران مارا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے، جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، مرد و زن پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں، وڈیرے اور سردار عورت کو سر راہ بہیمانہ قتل کی اجازت دیتے ہیں، باقاعدہ جرگہ بٹھایا جاتا ہے یہاں قانون ہے نہ اسلام ہے نہ انسانیت ہے اور نہ ہمدردی، نکاح کو جرم قرار دے کر صرف ایک عورت اور اس کے شوہر کو ببانگ دہل پچاس لوگوں کا گروہ بیابان و سنسان جگہ لے جا کر قتل کر دیتے ہیں۔

بلوچستان کا واقعہ انسانیت کے پرخچے اڑانے میں آگے رہا، اس سے قبل بھی کارا کاری، نوجوان جوڑوں کو محض پسند کی شادی کرنے پر قتل کیا جاتا رہا ہے ادھر انصاف اور قانون خاموشی اختیار کر لیتا ہے لیکن بے قصور اور محب وطن لوگوں کو بغیر ثبوت کے گرفتار کیا جاتا ہے جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے، جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں محض اپنی حکومت کی بقا کے لیے۔کیا یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان؟ انھوں نے اس مقصد کے لیے قربانی دی تھی؟ لوگ اپنا مال و اسباب اور اپنوں کے لاشے بے گور و کفن چھوڑ کر اپنے ملک میں آئے تھے کہ وہ اب آزاد قوم ہیں لیکن آج جو پاکستان کا حال ہے اسے دیکھ کر ہر ذی شعور آنسو بہا رہا ہے۔ بڑی مشکل میں زندگی کے دن گزار رہا ہے، بھوک، افلاس، بے روزگاری اور عدم تحفظ نے جیتے جی مار دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا یہ ہے وہ پاکستان
  • یہ غلط ہو رہا ہے
  • پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خطرہ نہیں، سازشوں کا حصہ نہیں بنیں گے: سینیٹر عرفان صدیقی
  • انتظامیہ کو نظر بندیوں، پابندیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، میر واعظ
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • بھارتی ٹیم کو بڑا دھچکا، وکٹ کیپر بیٹر انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سے باہر
  • گل شیر کے کردار میں خاص اداکاری نہیں کی، حقیقت میں خوف زدہ تھا، کرنل (ر) قاسم شاہ
  • بھارتی انہیں کیسے ٹرول کر سکتے ہیں، ناصر چنیوٹی دلجیت دوسانجھ کے حق میں بول پڑے
  • عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن
  • شازیہ منظور نے جان بوجھ کر دھکے دے کر ریمپ واک کے دوران اسٹیج پر گرایا، علیزے شاہ