عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور انہی کے تحت کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے میدان کارزار میں ایک فریق مسلسل کھیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاﺅل پلے کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاست میں نئی لیکن انتہائی منفی روایات جنم لے رہی ہیں اس لئے کہ اگر ایک فریق منفی سیاست کر رہا ہے تو دوسرے فریق کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں فاﺅل پلے کھیلنا پڑے گا جس کی ایک بڑی مثال تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر حکومت کی جانب سے اپنایا گیا غیر آئینی طرز عمل تھا ۔ آئین پاکستان میں بلاکسی ابہام واضح طور پر درج ہے کہ حکومت کے خلاف اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی تو اس پر تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جائے گی لیکن اول تو اس پر آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور کم و بیش ایک ماہ بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس تحریک کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پوری حزب اختلاف غیر ملکی سازش کا آلہ کار بن کر عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ عدم اعتمادکوئی پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کے خلاف نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے1989میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور2006میں جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ چکی ہیں اور دونوں بار ان پر آئین کے مطابق ووٹنگ کروائی گئی تھی اور دونوں بار یہ ناکام رہی تھیں ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور خاص طور پر جنرل مشرف کے لئے تویہ کام بہت آسان تھا کہ وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سائفر لہرا کر غیر ملکی سازش کا بیانیہ بناتے اور اسے مسترد کر دیتے لیکن جنرل مشرف نے جو کام ایک آمر ہونے کے باوجود نہیں کیا تھا بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ ایسا نادر خیال ماضی میں کسی کو نہیں آیا کہ وہ پوری حزب اختلاف کو ہی غدار قرار دے کر عدم اعتماد کو مسترد کر دیتے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا یقینا فاﺅل پلے تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیا اور اس فاﺅل پلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر قیدیوں کی وین پہنچانے جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے کہ جو نہیں ہونے چاہئے تھے ۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور رہنماﺅں کو تھوک کے حساب سے عدالتوں سے ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں تو یہ ماضی کے مقابلے میں ایک غیر معمولی صورت حال تھی یعنی ایک طرف تو تحریک انصاف کے دور میں پوری حزب اختلاف کو اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس وقت کسی کو ” گڈ ٹو سی یو “ نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی گرفتار رہنما کو ججز والے گیٹ سے سپریم کورٹ میں لایا گیا ہاں البتہ نواز شریف کے خلاف کیس میں ” گڈٹو سی یو “ تو نہیں کہا گیا لیکن ” سیسلین مافیا “ جیسے القاب سے ضرور نوازا گیا ۔ اب ایک جانب سے جب ضمانتوں پر ضمانتیں دی جانے لگیں حتیٰ کہ 63-Aکی تشریح کے نام پر نیا آئین ہی تشکیل دے کر فاﺅل پلے کھیلا گیا اور ایک فریق کو عدالتی آرڈرز کے ذریعے کھڈے لائن لگانے کا کام شروع ہوا تو پھر دوسری طرف سے جوڈیشل آرڈر کے مقابلے میں ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان احکام کو بے اثر کرنے کا کام شروع ہو گیا جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن انتہائی مجبوری تھی کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر کیا کیا جاتا ۔ جمہوریت میں ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن اس حق کی آڑمیں اگر ایک بار نہیں دو بار نہیں بلکہ بار بار ایک صوبہ اپنے پورے سرکاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وفاق پر چڑھائی کرے تو وفاقی حکومت کے پاس پھر دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں ایک یہ کہ انھیں من مانی کرنے دیں اور بات پارلیمنٹ پر حملے تک پہنچ کر آپے سے باہر ہو جاتی اور دوسری یہ کہ اس مسلح ہجوم کو روک کر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرتی اور جب ایسا کیا گیا تو پھر لاشوں کا پروپیگنڈا کر کے پھر فاﺅل پلے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش اس لئے ناکام ہو گئی کہ لاشوں کی سیاست کے لئے لاشوں کا ہونا بھی ضروری تھا ۔ملکی معیشت اگر دیوالیہ کے خطرے سے نکل کر بہتری کی جانب گامزن ہے تو انتشاری سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔
26ویں ترمیم کچھ لوگوں کے لئے یقینا بڑی تکلیف دہ ہو گی لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ آئین کے تحت اگر پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے کوئی قانون بنا دے تو وہ آئین کا حصہ بن جاتا ہے اور آئین ہی کے تحت پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو اب اگر کسی کو 26ویں آئینی ترمیم اچھی نہیں لگتی اور وہ اسے فاﺅل طریقے سے معطل کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر کیا یہ آئین کو سبو تاژ کرنے کے مترادف نہیں ہو گا تو پھر کیا کیا جائے اس لئے کہ عدلیہ کا جو محاذ گرم کیا جا رہا ہے اس میں کچھ مفاد پرست لوگ آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر آئین و قانون کے نام پر آئین اور قانون کے ساتھ ہی کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں تو جب ان لوگوں کو آئین و قانون کے تحت ہی شٹ اپ کال دی جاتی ہے تو پھر واویلا کیا جاتا ہے کہ زیادتی ہو گئی تو عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کے خلاف کی کوشش ہو گیا کے لئے کے تحت ہے اور رہا ہے کیا جا اور اس
پڑھیں:
غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 اپریل 2025ء) غزہ میں کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے والی مشینری کو بمباری میں نقصان پہنچنے سے تباہ شدہ عمارتوں تلے دبے لوگوں کی زندگی بچانے کی موہوم امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔
گزشتہ روز اسرائیل کی بمباری سے ایسے متعدد بلڈوزر اور کھدائی مشینیں تباہ ہو گئی ہیں جنہیں ملبے سے زندہ و مردہ لوگوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے غزہ کے مقامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بلڈوزر تباہ ہونے سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام بھی معطل ہو گیا ہے۔
ہزاروں افراد ملبے تلے دفناطلاعات کے مطابق غزہ پر 7 اکتوبر 2023 سے اب تک ہونے والی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے کم از کم 11 ہزار لوگ دب گئے تھے جن میں سے بیشتر کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
(جاری ہے)
غزہ کے عاطف نصر جنگ سے پہلے عمارتیں تعمیر کرنے اور سڑکوں کی مرمت کا کام کیا کرتے تھے اور اب ملبے سے لاشیں نکالتے ہیں۔ بلڈوزر تباہ ہونے سے اب ان کے لیے اپنا کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
داہدو خاندان کے بیٹے عمر ایک سال پہلے اسرائیل کی بمباری میں ہلاک ہو گئے تھے جن کی لاش سات منزلہ رہائشی عمارت کے ملبے سے اب دریافت ہوئی ہے۔ ان کے بھائی معاد نے بتایا کہ گزشتہ جنگ بندی کے عرصہ میں انہوں نے عمر کی لاش نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن عمارت بہت بڑی ہونے اور بھاری مشینری کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں ناکامی ہوئی۔
انہوں نے لاش نکالنے کے لیے بلڈوزر اور کھدائی مشینیوں سے مدد لینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کی بمباری میں یہ مشینیں تباہ ہو چکی ہیں۔
آخری رسوماتجنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں مقیم داجانی خاندان اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر قیام پذیر ہے جس کے نیچے ان کے تین بچوں کی لاشیں بھی دفن ہیں۔ ان کے والد علی بتاتے ہیں کہ جب بمباری شروع ہوئی تو وہ اپنے خاندان کے چند لوگوں کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف چلے گئے۔
واپسی پر ان کا گھر تباہ ہو چکا تھا اور ان کے بچے ملبے تلے دب گئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ باامر مجبوری اس جگہ پر رہ رہے ہیں لیکن یہ کوئی زندگی نہیں اور ان کے لیے حالات ناقابل برداشت ہیں۔ انہیں نہ تو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی خوراک۔ وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی لاشیں مل جائیں تاکہ وہ انہیں دفن کر سکیں۔ چند روز قبل انہوں نے قریبی علاقے میں کدالوں سے کھدائی کرنے والوں کو ملبہ ہٹانے کے لیے کہا تھا جنہوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن اب یہ کام بھی رک گیا ہے۔
پچاس ملین ٹن ملبہاقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ جنگ میں غزہ کی تقریباً 90 فیصد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ ان عمارتوں کی تباہی سے 50 ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے جسے موجودہ حالات میں صاف کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔
امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملبہ ہٹانے میں تاخیر کے نتیجے میں ناصرف غزہ بھر کے لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ صورتحال صحت عامہ اور ماحول کے لیے بھی تباہ کن ہے۔