معاون امریکی وزیر خارجہ ڈونلڈ لو مدت مکمل ہونے پر عہدے سے سبکدوش
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکی محکمہ خارجہ نے خاموشی سے تصدیق کی ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈلو 17 جنوری 2025 کو اپنی مدت ختم ہونے کے بعد رخصت ہوگئے ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس اعلان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈونلڈلو اپنی مدت پوری ہونے پر عہدہ چھوڑ چکے ہیں اور انہیں برطرف نہیں کیا گیا ہے، تاہم اس اقدام کو پی ٹی آئی کی فتح اور حکومت کی جانب سے برطرفی کی ایک معمولی تبدیلی سے تعبیر کرنے کا امکان ہے۔
ڈونلڈ لو کا دور پاکستان کے لیے ہنگامہ خیز رہا ہے، جس میں ایک سیاسی طوفان بھی شامل ہے، جب کہ سابق امریکی سفارت کار سابق وزیر اعظم عمران خان، ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اسلام آباد میں موجودہ سیاسی سیٹ اپ پر مشتمل سیاسی طوفان کی ضرب المثل بن گئے۔
محکمہ خارجہ کی آفیشل ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک مختصر اعلان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’ ڈونلڈ لو کی مدت کار 17 جنوری، 2025 کو ختم ہو رہی ہے’۔
وہ 15 ستمبر 2021 کو اپنی تقرری کے بعد سے پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کی نگرانی کرنے والے بیورو کی قیادت کر رہے تھے، اس کردار سے قبل وہ 2018 سے 2021 تک جمہوریہ کرغیزستان میں امریکی سفیر اور 2015 سے 2018 تک البانیہ میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ڈونلڈ لو کے گرد طوفان مارچ 2022 میں اس وقت شدت اختیار کر گیا جب عمران خان نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے ’غیر ملکی سازش‘ کر رہا ہے۔ عمران خان نے خاص طور پر ڈونلڈ لو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں ملوث تھے، انہوں نے لو اور امریکا میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر اسد مجید خان کے درمیان ہونے والی بات چیت کو امریکی مداخلت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔
یہ بات چیت، جسے ’سائفر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، مبینہ طور پر سفیر اسد مجید کی جانب سے اسلام آباد بھیجے گئے ایک سفارتی کیبل میں تفصیل سے بیان کی گئی تھی، اور یہ پاکستان کی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کے بارے میں عمران خان کے وسیع تر بیانیے کا مرکز بن گئی۔
کیبل میں مبینہ طور پر ڈونلڈ لو اور اسد مجید کے درمیان ملاقات کا ذکر کیا گیا تھا اور عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ اس سے ان کی برطرفی کی امریکی کوششوں کا انکشاف ہوا ہے۔
عمران خان کے دعووں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکا میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ڈونلڈ لو کے استعفے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا اور ان پر سابق وزیر اعظم کو ہٹانے کے تنازع کی قیادت کرنے کا الزام عائد کیا۔ امریکا بھر میں پی ٹی آئی کی ریلیوں میں اس مطالبے کو دہرایا گیا جس سے امریکی حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھ گیا۔
یہ تنازع ایک مرکزی مسئلہ بن گیا، حالانکہ امریکی حکومت نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا تھا۔
اگرچہ پی ٹی آئی ان کی رخصتی کو ایک علامتی فتح کے طور پر دیکھ سکتی ہے ، لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ نے نائب اور معاون سیکریٹریز سمیت محکمہ خارجہ کے تمام سینئر عہدیداروں کو عہدہ چھوڑنے کی درخواست کی ہے۔ یہ درخواست اس بات کا اشارہ ہے کہ انتظامیہ صدر ٹرمپ کے سیاسی مقاصد سے وابستہ حکام کو لانے کے لیے تیار ہے جو اس پر عمل درآمد کریں گے۔
ڈونلڈ لو کے دور کو ممکنہ طور پر جاری سیاسی ڈرامے کے ایک اہم باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جسے پاکستانی میڈیا نے ”سائفر گیٹ“ کا نام دیا ہے، جس میں متنازع کیبل کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں مبینہ طور پر پاکستان کی سیاست میں امریکی مداخلت کو دستاویزی شکل دی گئی تھی۔
مزیدپڑھیں:متھیرا بغیر اجازت بنائی گئی نازیبا وڈیو شیئر کرنے پر چاہت فتح علی خان پر برہم
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے طور پر پی ٹی آئی ڈونلڈ لو کے لیے
پڑھیں:
بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نو رکنی اعلی سطحی وفد لندن پہنچ گیا.
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نو رکنی اعلی سطحی وفد واشنگٹن اور نیویارک کے کامیاب دورے مکمل کرنے کے بعد لندن پہنچ گیا ہے۔ وفد کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ گشیدگی پر پاکستان کا موقف پیش کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔ وفد کے دیگر ارکان میں وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق مسعود ملک؛ چیئرپرسن، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور سابق وزیر برائے اطلاعات و موسمیاتی تبدیلی، سینیٹر شیری رحمان؛ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی چیئرپرسن اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر۔ سابق وزیر تجارت، دفاع اور خارجہ امور، انجینئر خرم دستگیر خان؛ سینیٹ میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر و سابق وزیر برائے سمندری امور، سینیٹر سید فیصل علی سبزواری؛ اور سینیٹر بشری انجم بٹ شامل ہیں۔وفدمیں دو سابق سیکرٹری خارجہ، سفیر جلیل عباس جیلانی، جو نگراں وزیر خارجہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، اور سفیر تہمینہ جنجوعہ بھی شامل ہیں۔ لندن میں وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرے گا جس میں پاکستان اور جموں و کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپ کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ وفد فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (FCDO) کی لیڈرشپ و سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔ وفد کے ارکان علاقائی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے سرکردہ تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی وسیع پیمانے پر بات کریں گے۔ اپنے دورے کے دوران، وفد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کو اجاگر کرے گا وفد باور کرائے گا کے پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ وہ اس بات پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کو تنازعات اور تصادم پر ترجیح دی جانی چاہیے۔ وفد جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دے گا۔ سندھ طاس معاہدے کی معمول کے مطابق کارروائی کو بحال کرنے کی ضرورت بھی وفد کے مہم کا ایک اہم موضوع ہوگا۔