Express News:
2025-11-05@01:25:04 GMT

سُوئے منتہٰی وہ چلے نبی ﷺ۔۔۔۔۔۔ !

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

معراج نبی کریمؐ کا عظیم معجزہ ہے۔ حضر ت سیّد احمد سعید شاہ کاظمی لکھتے ہیں: ’’حضور نبی اکرم نور مجسم سید عالم ﷺ کے اخص خصائص اور اشرف فضائل و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات سے یہ امر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضورؐ کو فضیلت اسراء و معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرم نہیں فرمایا اور جہا ں اپنے محبوب ﷺ کو پہنچایا کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شر ف نہیں بخشا اور اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم و جلیل واقعہ کے بیان کو لفظ ’’سبحان‘‘ سے شروع فرمایا جس کا مفاد اﷲ کی تنزیہ اور ذات باری کا ہر عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔

اس میں یہ حکمت ہے کہ واقعات معراج جسمانی کی بناء پر منکرین کی طرف جس قدر اعتراضات ہوسکتے تھے ان سب کا جواب ہوجائے۔ مثلاً حضور نبی کریم ﷺ کا جسم اقدس کے ساتھ بیت المقدس یا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور وہاں سے ’’ثم دنی فتدلیٰ ‘‘ کی منزل تک پہنچ کر تھوڑی دیر میں واپس تشریف لے آنا منکرین کے نزدیک ناممکن اور محال تھا۔

اﷲتعالیٰ نے لفظ سبحان فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ یہ تمام کام میرے لیے ناممکن اور محال ہوں تو یہ میری عاجزی اور کم زوری ہوگی اور عجز و ضعف عیب ہے اور میں عیب سے پاک ہوں، اسی حکمت کی بناء پر اﷲ تعالیٰ نے ’’اسریٰ ‘‘ فرمایا جس کا فاعل اﷲ تعالیٰ ہے۔ حضور ﷺ کو جانے والا نہیں فرمایا، بل کہ اپنی ذات کو لے جانے والا فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے لفظ ’’سبحان ‘‘ فرما کر معراج جسمانی پر ہر اعتراض کا جواب دیا ہے اور اس سے معلوم ہُوا، آیت اسریٰ کا پہلا لفظ ہی معراج جسمانی کی روشن دلیل ہے۔‘‘

نبی کریمؐ براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر آپؐ باہر تشریف لائے، اس وقت حضرت جبریلؑ آپؐ کی خدمت میں ایک برتن شراب کا اور دوسرا برتن دودھ کا لائے، نبی کریم ﷺ نے دودھ کا برتن منتخب کیا، حضرت جبریلؑ نے عرض کیا: آپؐ نے فطرت کا انتخاب کیا۔ مزید عرض کیا کہ حضور ﷺ نے شراب منتخب کی ہوتی تو ان کی امت گم راہ ہوجاتی۔ نبی ﷺ نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہدایت کی توفیق بخشی۔

صحیح روایت میں ہے کہ جب نماز کا وقت آیا تو رسول اﷲ ﷺ نے انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی۔ ان حضرات نے آپؐ کی تشریف آوری پر مرحبا کہا اور مسرت و شادمانی کا مظاہرہ کیا، اس طرح آپؐ امام الانبیاء کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپؐ جب جبریلؑ کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچے تو حضرت جبریلؑ نے آسمان کے دروازے پر دستک دی، آواز آئی: آپ کے ساتھ کوئی اور ہے۔ حضرت جبریل نے عرض کیا: میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔

پھر آواز آئی: کیا ان کو بُلایا گیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں! اِن کو بُلایا گیا ہے۔ پھر دروازہ کھلا۔ حضرت آدمؑ نے اس پہلے آسمان پر آپؐ کو خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریلؑ آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہی تک لے گئے۔ آپؐ معراج میں مدارج رفعت طے کرتے قاب قوسین کے مرتبے کو پہنچے جو نہ کسی کو ملا اور نہ کسی نے اس کا قصد کیا۔ آپؐ پانچ نمازوں کا تحفہ لے کر آئے۔

آپؐ جسم و روح دونوں کے ساتھ آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچے اور آپؐ کا یہ اوپر کا سفر ہر بلندی کے سفر سے بالاتر ہے۔ آپؐ اس مرکز سے بھی اوپر تشریف لے گئے جہاں خالق خلق اپنے قلم سے فیصلے جاری کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے معراج میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے سر پتھر سے توڑے جاتے ہیں اور جب ٹوٹ جاتے ہیں تو پھر پہلے کی طرح درست ہوجاتے ہیں اور سزا کی اس کارروائی میں کوئی کمی نہیں کی جاتی یعنی عذاب کا یہ سلسلہ پیہم جاری رہتا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں حضرت جبریلؑ نے حضور ﷺ کو بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز سے بوجھل ہوجاتے تھے۔

اسی طرح نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے آگے پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے ، وہ اس طرح چَر رہے تھے جیسے اونٹ اور بکریاں چرتی ہیں اور وہ جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔ نبی ﷺ نے حضرت جبریلؑ سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح کچھ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کیا جن کے سامنے ہانڈی کا پکا ہوا گوشت تھا اور انہیں کے سامنے دوسری ہانڈی میں خبیث اور کچا گوشت تھا۔ یہ لوگ کچا اور خبیث گوشت کھا رہے تھے اور پاک پکا ہوا گوشت چھوڑ رہے تھے۔

حضرت جبریلؑ نے سیّد کائنات ﷺ کو ان کے بارے میں بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس جائز اور پاکیزہ عورتیں موجود تھیں مگر وہ خبیث عورتوں کے پاس جاکر زنا کی لعنت میں مبتلا ہوتے تھے، اسی طرح وہ عورت بھی جس کی شادی پاکیزہ مرد سے تھی مگر وہ خبیث مرد کے پاس جاکر زنا کی مرتکب ہوتی تھی اور نبی ﷺ کا گزر راستے میں ایک ایسی لکڑی کے پاس سے ہوا جس کے پاس اگر کوئی کپڑا گزرتا تو اسے وہ لکڑی چاک کردیتی یا کوئی شے گزرتی اسے بھی چاک کردیتی۔ حبیب ﷺ نے پوچھا! جبریلؑ یہ کیا ہے؟ حضرت جبریلؑ نے بتایا آپؐ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو راستوں پر بیٹھتے اور راستہ کاٹا کرتے ہیں۔

شب ِمعراج میں نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جاتے تھے اور جب بھی کاٹ دیے جاتے پھر دوبارہ صحیح ہوجاتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، جبریلؑ! یہ کون ہیں۔ انھوں نے عرض کیا، یہ آپؐ کی امت کے مقررین ہیں، فتنہ پرور مقررین یہ جو کہتے تھے اس پر خود عمل نہ کرتے تھے۔ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔

رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ اس میں زیادہ تر تعداد عورتوں کی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ ایسا کیوں ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنی ناشکری کی وجہ سے۔ عرض کیا گیا کہ کیا وہ اﷲ کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شوہر کی ناشکری کرتی ہیں، احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر تم کسی ایک کے ساتھ زمانہ بھر تک احسان کرتے رہو پھر اس نے ذرا سا بھی فر ق دیکھا تو کہہ اٹھی تم سے تو میں نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حضرت جبریل ایسے لوگوں نے عرض کیا نے فرمایا اﷲ تعالی کرتی ہیں کے ساتھ ہیں اور رہے تھے کے پاس

پڑھیں:

چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی

ڈاکٹر سلیم خان

جنوبی کوریا کے اندر چین نے امریکہ کو لال آنکھ دِ کھا کر دنیا کو بتا دیا کہ آنکھ دکھانا کس کو کہتے ہیں؟ امریکی صدر نے ملیشیا اور جنوبی کوریا کے دورے کا منصوبہ بنایا تو ان کا ارادہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اورچین کے سربراہ جن شی پنگ کے ساتھ ملاقات کا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کنی کاٹ کر وزیر خارجہ کو آسیان کانفرنس میں روانہ کر کے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کرکے ٹیرف جیسے تناعات کو باہمی گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کا نادر موقع گنوا دیا۔ کوالالمپور سے واپسی میں ٹرمپ جنوبی کوریا کے شہر بوسان پہنچ گئے اور وہاں چینی سربراہ مملکت شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ چین پر عائد ٹیرف میں 10 فیصد کمی کا اعلان ہوگیا ۔ کامیاب سفارتکاری اسے کہتے ہیں لیکن اس کی خاطر اپنے خول سے نکل باہر جانا پڑتا۔ بدقسمتی ایسا کرنے کا حوصلہ وزیر اعظم نریندر مودی میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے بر عکس شی جن پنگ نے جس حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ رشک ہے ۔ اس ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی ملاقات کو "انتہائی مثبت قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان متعدد اہم امور پر اتفاق ہو چکا ہے ۔ ایک دو قطبی دنیا یہ بہت بڑی بات ہے ۔
صدر ٹرمپ نے شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعدیہ خوشخبری سنائی کہ وہ آئندہ سال اپریل میں چین کا دورہ کریں گے ۔ یہ معاملہ وہیں نہیں رکے گا بلکہ اس کے بعد صدر شی جن پنگ بھی امریکہ کا دورہ کریں گے ۔ ٹرمپ کا چین سے کر یوکرین کے معاملے پر تعاون کرنے کا مطالبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس معاملے ہندوستان کے ساتھ روسی تیل کی برآمدات کے خلاف کہنی مروڈ کر دباو بنانے کی
حکمت ِعملی پر کاربند ہے ۔ اس ملاقات کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی خاطر تائیوان جیسے ناقابلِ تصفیہ تنازعات سے صرفِ نظر کیا گیا مگر ٹیرف
جیسے تنازع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ
ملاقات نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے تجارتی مسائل پر مہینوں سے برپا ہنگامہ آرائی پر روک لگانے کی جانب اہم پیش رفت
کی۔ یہ چوٹی کانفرنس دراصل دونوں متحارب ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ۔ کوالالمپور میں ہندوستان و امریکہ
کے بیچ یہی سب ہوسکتا تھا لیکن مودی جی میں خود اعتمادی کا فقدان ان کے پیروں کی بیڑی بن گیا۔اس میٹنگ کے بعد ٹرمپ نے کہ، چین
پر موجودہ ٹیرف کی شرح 57 فیصد کو 47 فیصد کر کے فوری طور پر نافذالعمل کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ چین بہت جلد امریکی سویا بین کی
خریداری شروع کر دے گا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ، فینٹینائل سے متعلق چین پر ٹیکس کو 20فیصد سے کم کر کے 10فیصد کر دیا گیا ہے ۔
ٹرمپ کے مطابق شی کے ساتھ ملاقات "حیرت انگیز تھی ۔ وہ بولے ، "ہم بہت سے اہم نکات پر کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچے ہیں اور تقریباً ہر چیز پر
اتفاق کیا ہے ۔ یہ ملاقات کس قدر خوشگوار ماحول میں ہوئی اس کا اندازہ لگانے کے لیے میٹنگ سے قبل کہا جانے والا امریکی صدر کا اپنے
چینی ہم منصب سے ہاتھ ملاتے ہوئے یہ ک جملہ کافی ہے کہ، "ہم ایک بہت کامیاب ملاقات کرنے جا رہے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں ہے ،۔ امریکی صدر نے پہلے ہی اعتراف کرلیا کہ شی ایک "انتہائی سخت مذاکرات کار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے بارے میں "بہت اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔ کیا ٹرمپ اپنے چہیتے دوست مودی کو اسی طرح خراجِ عقیدت پیش کریں گے ؟ ہر گز نہیں کیونکہ چاپلوسی اور سفارتکاری میں بہت بڑا فرق ہے ۔
امریکی صدر کے جواب میں چینی سربراہ نے جوتیار شدہ بیان اس حقیقت کی تائید کرتا ہے کہ وہ ٹرمپ کی نس نس سے واقف ہیں اور اپنے وقار کو داوں پر لگائے بغیر ان کی خودپسندی سے فائدہ اٹھانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ شی جن پنگ نے اختلافات کے باوجود ایک ساتھ کام کرنے کی خواہش پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ، دنیا کی دو سرکردہ معیشتوں کے درمیان وقتاً فوقتاً تصادم ہونا معمول کی بات ہے مگر اپنے مختلف نوعیت کے قومی حالات کی وجہ سے ، ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتے ۔ صدرٹرمپ نے جب خوشگوار ماحول کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک طویل عرصے تک شاندار تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں، اور آپ کے لیے ہمارے ساتھ رکھنا اعزاز کی بات ہے ۔ تو چینی رہنما اس کے جواب میں بولے کہ انہیں یقین ہے کہ چین کی ترقی ٹرمپ کے ‘ میک امریکہ گریٹ اگین’ کے وژن کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور وہ امریکہ چین تعلقات کی مضبوط بنیاد بنانے کے لیے آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یکساں مرتبے کے دو ممالک نے ایک دوسرے کو تعاون کی پیشکش کرکے تعلقات کو بہتر بنانے کی عمدہ مثال پیش کی ۔ یہ ‘ہاوڈی مودی ‘ اور نمستے ٹرمپ جیسی سطحی شوشے بازی سے بہت مختلف شئے ہے ۔
جن پنگ شی نے خود پسند ٹرمپ کی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی سفارت کاری کو سراہا۔ انہیں غزہ میں جنگ بندی اور کمبوڈیاـ تھائی لینڈ امن معاہدے میں تعاون پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ "چین اور امریکہ مشترکہ طور پر بڑے ممالک کے طور پر ہماری ذمہ داری کو نبھا سکتے ہیں اور دونوں ممالک پوری دنیا کی بھلائی کے لیے مزید عظیم اور ٹھوس چیزوں کو انجام دینے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان کچھ لو اور دو کی بنیاد تعلقات استوار ہورہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں جہاں امریکی ٹیرف کی شرح میں کمی آئی ہے وہیں چین نے اشارے دئیے ہیں کہ وہ نایاب معدنیات پر اپنے برآمدی کنٹرول کو نرم کرنے اور امریکہ سے سویابین خریدنے کے لیے تیار ہے ۔دونوں ممالک نے کئی دیگر معاملات پر معاہدے کیے ہیں، جن کی تفصیلات ابھی تک سرکاری طور پر منظر عام پر نہیں آئی ۔چین اور امریکہ کے درمیان یہ تجارتی معاہدہ عالمی معیشت کے لیے خوش آئند ہوا کا جھونکا ہے ۔ اس معاہدے کے سب سے زیادہ اثرات عالمی سیاسی بساط پرہندوستان کی سفارتی اہمیت پر پڑیں گے ۔ امریکی انتظامیہ نے جب چین کے اثرات کو کم کرنے کی خاطر ہندوستان کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا تو امریکہ نے پاکستان کو چھوڑ کر اس کے حریف اول کو اہمیت دینا شروع کی اور وزیر اعظم نریندر مودی اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ یہ ان کی صلاحیت اور پرکشش شخصیت کا سحر ہے ۔ وقت کے ساتھ سفارتکاری کا رخ بدلا اور امریکہ نے چین کو دشمن کے بجائے دوست بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس طرح جب وہ دونوں حریف ایک دوسرے کے حلیف بن رہے ہیں تو ہندوستان کی اسٹریٹجک ضرورت ختم ہوگئی ۔ مودی جی کے یکہ وتنہا ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے ۔عالمی سفارت کے علاوہ تجارتی تناؤ میں کمی بلا واسطہ ہندوستان پر مثبت ومنفی
اثرات ڈالے گی ۔ اس معاہدے سے عالمی اقتصادی ماحول اگر مستحکم ہوجائے اور دونوں سپر پاورز میں قربت بڑھے تو عالمی منڈیوں میں اعتماد واپس آئے گا اس ہندوستان کا بالواسطہ فائدہ بھی ہوسکتا ہے ملک میں ایف ڈی آئی اور ایف پی آئی میں اضافہ کا امکان بھی ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں میں چین پر عدم اعتماد کے باعث ، دنیا بھر کی کمپنیاں چائنا پلس ون کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ اس کے تحت چین پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے دوسرے ممالک میں پیداواری مراکز تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کو اس حکمت عملی سے بڑا فائدہ ملنے کی امید تھی۔ فی الحال ملک کا سب سے سنگین مسئلہ بیروزگاری ہے ۔ اس کو قابو میں کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہمارے نہ سہی تو کم ازکم دوسروں کے برانڈ بناکر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ چین نے اسی کا فائدہ اٹھاکر اپنے عوام کی مدد سے خود کو سُپر پاور بنالیا۔ ہندوستا ن یہ نہیں کرسکا کیونکہ لال فیتہ شاہی آڑے آگئی۔ اس نے ہمیشہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بددل کرکے دور بھگانے کا کام کیا لیکن اگر اب امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں تو امریکی و دیگر کمپنیاں چین کو چھوڑ کر ہندوستان کی جانب کیوں دیکھیں گی؟ امریکہ اور چین کی باہمی دوستی سے ہندوستان کے علاوہ ویتنام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کا بھی نقصان ہوگا۔
ہندوستان میں ”میک ان انڈیا” مشن ویسے ہی دم توڑ رہا تھا پھر بھی الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل اور آٹو پارٹس کے شعبوں ہندوستانی صنعتکار اپنا لوہا منواتے رہے اب ان پر دباؤ بڑھے گا ۔ نئے معاہدے کے تحت اگرامریکہ ہندوستان کے بجائے چین سے سویابین اور دیگر زرعی مصنوعات کی بڑی مقدار خریدنے لگے تو زرعی برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں ۔ اس سے چین کے بازار میں ہندوستان کے زرعی سامان فروخت کرنے کے مواقع سمٹ جائیں گے ۔ ایسے میں اگر مودی سرکار ٹیرف کم کروانے میں ناکام رہے تو مسابقت کے میدان میں ہندوستانی مصنوعات کھلے بازار مین مقابلہ نہیں کرپائیں گی جو ہندوستان کے لیے تشویش کا مقام ہوگا۔ ایسی نازک صورتحال میں ملک کو عالمی سطح پر نئے انداز میں حوصلے کے ساتھ اپنے عوام کی خوشحالی کے مواقع تلاش کرنے والا رہنما درکارہے مگر ہمارے وزیر اعظم کو داخلی سیاست اور ریاستی انتخاب جیتنے سے ہی فرصت نہیں ہے تو وشو گرو بننے کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • کسی ایک سپر اسٹار کے ساتھ کام کا موقع ملا تو وہ پربھاس ہوں گے، رشمیکا مندانا
  • چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی
  • امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن گلشن اقبال بلاک 13-Aمیں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ یوتھ سینٹر و فیملی پارک کا افتتاح و دورہ کررہے ہیں ، امیر ضلع شرقی نعیم اختر ، ٹائون چیئرمین ڈاکٹر فواد احمد بھی ساتھ ہیں
  • چیٹ جی پی ٹی: جدید فیچرز کے ساتھ دنیا کا طاقتور ترین اے آئی چیٹ بوٹ
  • شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار
  • بُک شیلف
  • تجدید وتجدّْ
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • چُھٹکی