صاف توانائی کی منتقلی، ترقی پذیر ممالک کو مالی معاونت دی جائے، پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
فائل فوٹو
اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان جدون نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو صاف توانائی کی منتقلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مالی معاونت دی جائے۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں خطاب کرتے ہوئے عثمان جدون کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک محدود مالی وسائل کی وجہ سے مہنگے توانائی منصوبے مکمل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں شمسی توانائی، برقی گاڑیوں، ونڈ پاور کے شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے، چین ترقی پذیر اور ابھرتی معیشتوں میں اس مثبت رجحان کی قیادت کررہا ہے۔
عثمان جدون کا کہنا تھا کہ پاکستان2030 تک قابل تجدید توانائی کا حصہ 60 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے، ملک میں شمسی اور ہوا سے توانائی پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔
پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان جدون نے کہا کہ پاکستان کے توانائی منتقلی کے اہداف کی تکمیل کے لیے 100 ارب امریکی ڈالر سے زائد درکار ہوں گے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
سولر پینلز پر ٹیکس اور نیٹ میٹر نگ کی پالیسی باعث تشویش ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر ) وفاقی بجٹ میں سولر پینلز پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے نفاذ کی تجویز کے باوجود، پاکستان میں قابلِ تجدید توانائی کی جانب بڑھتا ہوا سفر نہیں رکے گا اور نیٹ میٹرنگ پالیسی میں متوقع تبدیلی ماحول دوست اور سستی بجلی کے فروغ میں رکاوٹ بنے گی اور حکومت صارفین اور انڈسٹری کے تحفظات کو ترجیح دے۔ یہ خیالات ماہرین، سولر کی کاروباری شخصیات، صنعتی شخصیات اور شمسی توانائی کے ماہرین نے ایک آن لائن ویبینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہے۔ کیا سولر کا مستقبل روشن ہے؟ کے عنوان سے اس ویبنار کا انعقاد *انرجی اپڈیٹ* اور *پاکستان سولر ایسوسی ایشن (PSA)* کے اشتراک سے کیا گیا۔پی ایس اے کے چیئرمین وقاص موسیٰ نے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ گھریلو اور کمرشل صارفین میں سولر انرجی کی مقبولیت میں اضافہ ماحولیاتی بہتری سستی بجلی اور درآمدی فیول میں کمی کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کی مقامی صنعت تاحال اتنی مستحکم نہیں کہ وہ بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرسکے، اس لیے درآمدی سولر پینلز پر ٹیکس لگانا اور نیٹ میٹرنگ کی پالیسی میں تبدیلی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔انویریکس سولر انرجی کے سی ای او محمد ذاکر علی نے کہا کہ پاکستان میں صارفین صاف توانائی کے طویل المدتی فوائد کو سمجھ چکے ہیں اور وہ ہر صورت گرڈ سے آزاد ہونے کی راہ پر گامزن رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سولر انڈسٹری کے قیام کے لیے کم از کم 18 سے 24 ماہ درکار ہیں۔ اور متبادل توانائی کا سفر نہیں رکے گا تاہم حکومتی مراعات بہت ضروری ہیں۔ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی سولر کی تنصیبات پاکستان کو عالمی کاربن کریڈٹس حاصل کرنے کا موقع دے سکتی ہیں۔ انہوں نے دیہی علاقوں اور زرعی شعبے میں سولر توانائی کے بے پناہ مواقع پر بھی زور دیا انرجی اپڈیٹ کی حلیمہ خان نے کہا کہ سولر ٹیکنالوجی پاکستان کے لیے فوسل فیول کے استعمال میں کمی لانے اور پائیدار اہداف کے حصول کا عملی راستہ ہے۔