ہم 30 فلسطینی قیدیوں کے بدلے اربیل یہود کو رہا کریں گے، اسلامی جہاد
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک نے اگلے ہفتے کے روز سے پہلے اسرائیلی قیدی اربیل یہود کی رہائی کو قبول کر لیا ہے، اس کے بدلے میں 30 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک نے اگلے ہفتے کے روز سے پہلے اسرائیلی قیدی اربیل یہود کی رہائی کو قبول کر لیا ہے، اس کے بدلے میں 30 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جنوبی غزہ کی پٹی سے اس کے شمال میں بے گھر ہونے والوں کی واپسی اس کی رہائی پر منحصر تھی۔ الہندی نے میڈیا بیانات میں مزید کہا کہ تحریک نے اس معاہدے پر اتفاق کیا ہے تاکہ قابض اسرائیلی فوج کا بہانہ ختم کیا جا سکے اور شمالی غزہ کی پٹی میں بے گھر ہونے والوں کی واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس تناظر میں النصر صلاح الدین بریگیڈز نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ قیدی اربیل یہود کو النصر بریگیڈز اور القدس بریگیڈز کے ایک مشترکہ گروپ نے 7 اکتوبر 2023ء کو پکڑا تھا۔
النصر بریگیڈز نے وضاحت کی کہ اس کی حوالگی مذاکراتی وفد کی قیادت اور ثالثوں کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے مطابق ہو گی۔ جنوبی غزہ کی پٹی سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو کل اتوار کو شمال کی طرف پیدل رشید-بحر اسٹریٹ کے ذریعے واپس جانا تھا، جب کہ دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق گاڑیوں کو صلاح الدین اسٹریٹ سے صرف ایک سمت سے گزرنے کی اجازت ہے۔ قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاہو اب بھی بے گھر افراد کی واپسی کا راستہ کھولنے میں تاخیر کر رہے ہیں، ان کی واپسی کو قیدی اربیل یہود کی رہائی سے جوڑ رہے ہیں، جس کی رہائی میں سیکیورٹی حالات کی وجہ سے رکاوٹ ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیدی اربیل یہود کی واپسی کی رہائی
پڑھیں:
شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
یہ کہا جا رہا ہے کہ سزاؤں کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ نو مئی کے مقدمات میں سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایک دن میں دو فیصلوں نے ملک کا سیاسی منظر نامہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک بھر میں نو مئی کے مقدمات کا ٹرائل جاری ہے۔
سپریم کورٹ جلد فیصلوں کا کہہ چکی ہے۔ اور اب سزائیں شروع ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بری بھی ہو گئے ہیں۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف بریت ہے۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بریت اور سزائیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انھی سوالات کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے اپنی بریت کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا ہے کہ وہ کل بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ تھے، آج بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے سائفر میں بانی کا ساتھ دیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ویڈیو پیغام انھوں نے ان انگنت شکوک و شبہات کے بعد جاری کیا ہے جو ان کی بریت کے بعد پیدا ہوئے۔ ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ ان کی بریت ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا نتیجہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی کبھی مزاحمت کی سیاست نہیں کرتے۔ ان کا ماضی گواہ ہے کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مفاہمت کی سیاست ہی کی ہے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہم نے ان کو بانی تحریک انصاف کے ساتھ مزاحمت کی سیاست کرتے دیکھا۔ جس پر سب حیران بھی تھے۔ لوگ سوال کر رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کا خاندان تو مفاہمت کی سیاست کی پہچان رکھتا ہے۔ پھر وہ کیسے اسٹبلشمنٹ کے خلاف چل رہے ہیں۔ لیکن اب رائے یہ ہے کہ وہ واپس مفاہمت کی سیاست کی طرف آگئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ نو مئی کو شاہ محمود قریشی کراچی میں تھے۔ وہ کسی احتجاج میں شریک نہیں تھے۔ شائد نو مئی کے احتجاج کی تیاری کے لیے جو اجلاس ہوئے وہ ان میں بھی شریک نہیں تھے۔ بانی جانتے تھے کہ وہ اسٹبلشمنٹ پر اس طرح حملے کے حق میں نہیں ہوں گے، اس لیے وہ شامل نہیں تھے۔ لیکن یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس سے پہلے بھی شاہ محمود قریشی کو گرفتار کیا گیا تھا پھر وہ رہا ہو گئے تھے۔
اس وقت بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ ان کی رہائی سیاسی طور پر مشروط تھی۔ وہ رہائی کے بعد بانی تحریک انصاف کو ملے تھے لیکن ان کی ملاقات کامیاب نہیں رہی تھی۔ اس کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ محمود قریشی کو کوئی فیصلہ کرنا تھا ۔ لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اور اب انھوں نے لمبی جیل بھی کاٹی ہے اور ٹرائل کا بھی سامنا کیا ہے۔ لیکن اب ان کی بریت ہو گئی ہے۔ جس کے بعد ان کی مفاہمت کی مفاہمت کی دوبارہ خبریں سامنے آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی کی اس بریت سے پہلے 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ تحریک انصاف نے یہ الزام لگایا تھا کہ ان کو جہاں چھپنے کے لیے کہا گیا تھا وہ وہاں نہیں تھے بلکہ وہاں سے غائب تھے۔
غائب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پاس چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ زین قریشی نے 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وہ شک کے دائرے میں تھے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑی، اس لیے ان کا ووٹ استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن ان کا ووٹ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے پاس تھا۔ وہ ووٹ دینے پر راضی تھے۔
زین قریشی اس سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن انھیں تحریک انصاف کی طرف سے شو کاز جاری کیا گیا، انھیں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے شوکاز کا جواب دیا جس کے بعد اس پر مزید کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن تب سے زین قریشی خاموش ہیں۔ پہلے وہ باقاعدگی سے ٹاک شوز میں آتے تھے لیکن اب وہ غائب ہیں۔
ان کا غا ئب ہونا بھی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ وہ خاموش ہیں یہ بھی معنی خیز ہے۔ اس لیے لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ بات پہلے طے ہو گئی تھی۔ بہر حال سوال اب شاہ محمود قریشی کیا کریں گے۔ میری رائے میں وہ تحریک انصاف میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف بننے کی کوشش کریں گے۔ وہ مفاہمت کو آگے لے کر چلیں گے، انھوں نے جیل سے بھی مفاہمت کے لیے خط لکھے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ تحریک انصاف کی مفاہمت کی آواز بن جائیں۔ وہ مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات کریں۔ لیکن کیا بانی انھیں یہ کرنے دیں گے ۔ شائد انھیں نکالنا بھی مشکل ہو جائے ۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے انھیں پارٹی سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے ہی انھیں رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
وہ مفاہمت کا گروپ بنا سکتے ہیں، وہ لوگ جو تحریک انصاف میں واپس آنا چاہتے ہیں وہ ان کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف میں مفاہمت کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی بھی مفاہمت کے نام پر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ وہ تحریک انصاف میں مفاہمت کا ایک دھڑا بنا لیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کریں۔
جو بات چیت سے بند دروازے کھولنے کی بات کریں۔ یہ سب کہیں گے یہی کہ ہم کپتان کے وفادار ہیں۔ لیکن مزاحمت بند ہونی چاہیے۔ گالم گلوچ بند ہونی چاہیے۔ چوہدری پرویز الہیٰ بھی گھر میں ہیں۔ وہ بھی باہر آسکتے ہیں ایسے اور بھی لوگ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو بانی سے ملنے کی سہولت بھی مل سکتی ہے۔ وہ ایک بار نہیں بار بار مل سکتے ہیں۔ جیل سے مل کر وہ اپنا پیغام دے سکتے ہیں۔
یہ سب بانی کو قبول نہیں ہوگا۔ یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ پھر شاہ محمود قریشی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔وہ فیصلہ کیا ہوگا، ان کے پاس کوئی گھر نہیں۔ ان کا حال بھی فواد چوہدری کا ہے، کوئی سیاسی جماعت لینے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر میں ملتان کی سیاست کو سامنے رکھوں تو وہ ن لیگ میں آسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں ان کے لیے جگہ نہیں۔ لیکن ابھی وہ تحریک انصاف میں رہ کر کام کریں گے ، پھر آگے چل کر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بند دروازے کھل سکتے ہیں۔
یہ ایک مشکل کھیل ہے۔ لیکن آگے چل کر کچھ ایسا نظر آرہا ہے۔ اب یہ بانی پر منحصر ہے کہ وہ انھیں کب تک برداشت کرتا ہے۔ جب تک بانی برداشت کرے گا وہ بانی کے ساتھ ہی ہوں گے۔ لیکن کھیل اپنا کھیلیں گے۔ اس بار وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ انھیں سمجھ آگئی ہے، وہ کافی سمجھدار ہیں۔