اولاد۔۔۔ کام یابی کی شاہ راہ پر
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اولاد کی تربیت ایک مسلسل عمل ہے۔ بچے کو عمر کے مختلف ادوار میں والدین کی راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیرخوار بچے سے لے کر نوجوانی تک ہمہ وقت والدین کی راہ نمائی ہی اولاد کو کام یابی کی شاہ راہ پر گام زَن کرتی ہے۔
بچوں کی شخصیت والدین کی تربیت کا عکس ہوتی ہے، کم عمر بچے موم کی طرح ہوتے ہیں، ان کو تربیت سے جس سانچے میں ڈھالیں، ان کی شخصیت اسی طرح بنتی چلی جاتی ہے۔ زندگی میں کام یاب افراد کی شخصیت کے پیچھے بچپن کی تربیت موجود ہوتی ہے۔ والدین ابتدائی عمر سے بچوں کو جو سکھاتے ہیں، وہ بچے کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بڑھتی عمر بہت نازک دور ہوتا ہے، جب بچہ حد درجہ حساس اور جذباتی ہو جاتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر مایوس ہوجانا، کسی بھی چھوٹی سی بات پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرنا اس عمر کا خاصہ ہے۔ اس وقت والدین کے مثبت رویہ اور مثبت طرز فکر سے اس بچے کی شخصیت نکھرتی چلی جاتی ہیں۔ اور شخصیت کے اس نکھار کے ساتھ وہ بہتر مستقبل کی جانب بھی گام زن ہوجاتا ہے۔ اس وقت والدین کو چاہیے کہ انھیں محبت و شفقت کے ساتھ چند باتیں ضرور سمجھائیں، جو اس کی پراعتماد شخصیت کے ساتھ اس کی عملی زندگی میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔ یہ سات نکات درج ذیل ہیں۔
٭ غلطیاں کرنے سے نہ گھبرائیں
غلطیاں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ تعلیمی زندگی میں کسی مضمون کا انتخاب، کیریئر کا چناؤ، دوستوں کا منتخب کرنے میں اکثر نوجوان غلط فیصلے کرلیتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں ایسے موقعے پر والدین کو چاہیے کہ ان کی ہمت بندھائیں، آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں کہ غلطیاں کرنے سے انسان سیکھتا ہے اور آئندہ اس غلطی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اولاد کی شخصیت سازی میں یہ عمل ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اپنی عملی زندگی کی مثالیں دیں۔
دوسروں کے تجربات بتائیں اور سمجھائیں کہ غلطی کو تسلیم کرنا اور دوبارہ نہ دُہرانا ہی بہادر انسان کی نشانی ہے۔ ایک بہترین شخصیت کا انسان اول تو غلطی سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اگر کوئی غلط فیصلہ ہو بھی جائے، تو اس کو تسلیم کر کے اس کے سدھار کی پوری کوشش کرتا ہے، ہمت بالکل نہیں ہارتا۔
٭ خود کو سراہنا
ہر شخص کی شخصیت منفرد ہوتی ہے۔ اللہ نے اس میں مختلف صلاحیتیں دی ہوتی ہیں، کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اپنی کسی کمی یا محرومی کو سوچ کر یا کسی کے کہنے، طنز کرنے یا مذاق اڑانے سے اپنے آپ کو کبھی کم تر محسوس نہ کریں، بلکہ اپنے آپ کو خود سراہیں۔ آپ کی شخصیت میں موجود خوبیوں، اچھائیوں کو مدنظر رکھیں۔ رب تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور دل میں، سوچوں میں اپنے آپ کو سراہیں۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوں، تو رب تعالیٰ کی خوب صورت تخلیق کا ضرور شکر ادا کیجیے۔
٭ تبدیلی قبول کیجیے
اسکول یا کالج کا تبدیل ہو جانا، شہر تبدیل ہو جانا یا نئے گھر منتقل ہونا، نیا ماحول، نئی جگہ، نئے دوست وغیرہ وغیرہ۔ عموماً بڑھتی ہوئی عمر کے بچوں کو یہ تبدیلیاں خاصی تکلیف دہ محسوس ہوتی ہیں۔ پرانی چیزوں سے ان کی جذباتی وابستگی ہو جاتی ہے اور وہ تبدیلی کو قبول نہیں کر پاتے۔ جب کہ زندگی میں آگے بڑھنے کا یہی اصول ہے کہ زندگی میں آنے والی ہر تبدیلی کو قبول کر کے زندگی کو مثبت طرز فکر کے ساتھ جیئیں۔ بچوں کو سمجھانا چاہیئے کہ زندگی میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اس کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ چاہے وہ تبدیلی مثبت ہو یا منفی، لیکن انسان کو ہر تبدیلی کو مثبت رویے کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔
آپ کسی سے کم نہیں
گھر سے لے کر تعلیمی اداروں اور دفاتر تک، غرض یر جگہ ایسے افراد موجود ہوتے ہیں، جو اپنے الفاظ، رویے یا طرز عمل سے بچے کو احساس کم تری کا شکار کر دیتے ہیں۔ اس صورت حال میں والدین کا اہم فریضہ ہے کہ بچے کو احساس دلائیں کہ آپ زندگی میں جو چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا خود ساختہ پابندیاں اپنے ذہن میں نہ پیدا کریں اور نہ ہی خود کو کسی سے کم سمجھیں۔ آپ زندگی میں ہر وہ چیز حاصل کر سکتے ہیں، جو آپ سوچ لیں۔ جس کو حاصل کرنے کی آپ میں لگن ہو اور ارادہ ہو۔ اپنی سوچ کو محدود نہ کریں، بلکہ اپنی سوچ سے زیادہ بہترین کام یابیوں کے لیے اپنے رب سے دعاگو رہیں۔ ہمت جمع رکھیں، محنت کریں۔ کام یابی آپ کا مقدر ہوگی۔ یقین جانیں ان لفظوں کا جادو سر چڑھ کر بولے گا اور بچے کی شخصیت میں آپ وہ اعتماد محسوس کریں گی، جس کی اس کو آگے بڑھنے کے لیے ضرورت تھی۔
دوسروں سے متعلق گفتگو
کسی بھی شخص کے متعلق رائے قائم کرنے یا اس کی ذات کے متعلق گفتگو کرنے سے گریز کریں۔ بسا اوقات دوسرے کی کردار کشی درحقیقت آپ کی شخصیت کی عکاسی کررہی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی باتوں سے ہمیشہ گریز کریں۔
مدد مانگ سکتے ہیں
کسی بھی کام میں وقت ضرورت دوسروں سے مدد مانگنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ تنہا جدوجہد کرنے کے بہ جائے اگر کسی مخلص دوست کی مدد سے کام آسان ہو سکتا ہے، تو ضرور مدد لیں۔ اسی طرح امتحانوں کے دوران دوستوں کے ساتھ مل کر سمجھ کر پڑھنے ، نوٹس بنانے اوریاد کرنے سے ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اسائمنٹ بنانا وغیرہ دوستوں کے ساتھ سب آسان ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی گھر میں بیٹی اگر سہیلیوں کی دعوت کرنا چاہے، تو اس کو ٹیم ورک کی اہمیت سمجھائیں کہ کس طرح اپنی بہن یا سہیلی کی مدد سے وہ تقریب کو منظم انداز میں کر سکتی ہے۔
اپنا دفاع کرنا سیکھیں
زندگی میں والدین ہمیشہ اولاد کے ساتھ نہیں رہتے، لہٰذا شاہ راہ حیات میں پیش آنے والے نشیب و فراز اور لوگوں کے نامناسب رویوں کا اولاد کو خود سامنا کرنا پڑتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اولاد کی تربیت ان الفاظ میں سمجھا کے کریں کہ کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کی ذات کے متعلق منفی بات کرے، اپنی باتوں یا رویے سے آپ کی شخصیت کو مسخ کردے یا آپ کے عزائم کے حصول میں رکاوٹ بنیں۔ آپ کی شخصیت بہت اہم ہے۔ رب تعالیٰ نے ہر شخص کو بہت خاص بنایا ہے۔ لہٰذا اُس کا شکر ادا کریں۔ اپنی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے دفاع کے لیے خود کھڑے ہوں۔ اپنے مثبت الفاظ، پُراعتماد رویے اور خوش اخلاقی سے ہر منفی ارادے کو ناکام بنا دیں۔
کسی کے ناگوار الفاظ اور منفی رویے کو پہلی دفعہ میں مناسب الفاظ میں منع کر دیں یا روک دیں۔ یہ دھیان رہے انداز جارحانہ نہ ہو مگر پراعتماد رویے اور مناسب الفاظ میں اپنا مدعا ضرور بیان کریں۔
ان چند باتوں پر عمل کریں۔ آپ اپنے نوجوانوں میں مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ ایک پُراعتماد نکھری ہوئی شخصیت کی مالک ایسی اولاد جس پر آپ فخر محسوس کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا پ کی شخصیت زندگی میں کی تربیت ہوتی ہے کسی بھی کے ساتھ کرتا ہے کے لیے اپنے ا
پڑھیں:
اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-5
غلام حسین سوہو
یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔
“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔
یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔
’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔
کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔
(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)