اہل ِ غزہ کی ثابت قدمی اور کامیابی کے لیے دُنیا شک و شبہ میں پڑی تھی۔ غزہ کے کھنڈر سے اُنہیں کوئی اُمید نہیں تھی۔ اسرائیل کی طاقت امریکا کی پشت پناہی اور دُنیا کی خاموشی یہ سب مل کر دُنیا اسرائیل کے منصوبوں کی کامیابی اور اُن پر عملدرآمد کا یقین کرچکی تھی۔ ان کے خیال میں ایٹم بم کے برابر گرائے گئے بارود تلے غزہ پر اہل غزہ کا حق دفن کردیا گیا تھا۔ خیال تھا کہ اب تو ایک اعلان باقی ہے بس پھر اسرائیلی بستیاں غزہ کی پٹی پر آباد کی جانے لگیں گی اور ایک نقشہ جو لہرایا گیا تھا اس کی صورت گری کی جائے گی۔ انہیں خبر ہو کہ چار سو پینسٹھ دن کی نسل کشی کے بعد قابض اسرائیلیوں کو اس حماس کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا جس کو فنا کرنے کا ارادہ لے کر وہ اہل غزہ پر چڑھ دوڑے تھے۔ وہی معاہدہ اور معاہدے کی وہی شقیں جن کو سال قبل مسترد کیا گیا تھا۔ مان لیا گیا۔ یہ معاہدہ حماس کی کامیابی کا ثبوت ہے، منصوبہ بندی کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد کرنے اور نظر رکھنے والی تکنیکی کمیٹیاں اور فالو اپ ٹیمیں حماس کے پاس موجود ہیں جو معاہدے میں تحریر نکات کے مسائل سے نمٹتی رہیں گی۔ انہیں خبر ہو کہ غزہ میں سیکورٹی اور امن برقرار رکھنے کے لیے فلسطینی پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جارہا ہے۔ سڑکوں کو کھولنا اور ان کی بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ حماس کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک بڑی اور حقیقی کامیابی ہے، ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ جنگ بندی ہونے کے بعد القسام کے مجاہدین غزہ میں پھر تعینات ہوگئے ہیں اور یہ قدم نیتن یاہو کے لیے ایک کھلا پیغام ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے اور غرب اردن میں نئی جارحیت کا آغاز کیا ہے۔ بقول نیتن یاہو مغربی کنارے کے شہر جنین میں کارروائی کا مقصد علاقے میں دہشت گردی یعنی حماس کا خاتمہ ہے۔ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ حالانکہ غزہ میں تمام تر تباہی کے باوجود وہ حماس کو ختم نہیں کرسکا۔
پندرہ ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے جنگجو پھر سڑکوں پر موجود ہیں۔ انہوں نے اپنا وجود برقرار رکھا ہے، غزہ میں ان کا کنٹرول قائم ہے، اسرائیل، امریکا اور برطانیہ کی بھرپور امداد اور معاونت کے باوجود حماس کو ختم نہیں کرسکا، یہ اسرائیل کا پہلا ہدف تھا۔ لیکن اب جنگ کا اختتام ہوا، بقول اسرائیلی انٹیلی جنس کے افسر مائیکل ملنٹن کے حماس کی کامیابی کے مضبوط تاثر کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں دہشت گردی سے لڑنا اب اسرائیلی فوج کی اولین ترجیح ہے۔ یعنی اسرائیل نے جنگ کے لیے ایک دوسرا میدان منتخب کیا ہے۔ اگرچہ وہ پہلے سے اسرائیلی افواج کے حملوں کا نشانہ ہے۔ جنین کے گورنر ابوالبرب کے مطابق اسرائیلی فوج نے لاوڈ اسپیکروں کے ذریعے کیمپ خالی کرنے کے لیے دھمکیاں دی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ میں ٹھیک تین دن کے بعد جنین میں بقول ان کے ایک وسیع اور اہم آپریشن شروع کردیا ہے۔ غزہ کی طرح جنین کو دہشت گردی کا اڈا قرار دے کر اسرائیلی فوج وہاں فلسطینیوں پر حملے کررہی ہے۔ ان حملوں میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اسرائیلی قابض آباد کار بھی شامل ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے بھی جنین کیمپ پر کئی ہفتے کریک ڈائون کیا، یہ فلسطینیوں کا فلسطینیوں کے خلاف اقدام تھا۔ لیکن اسی ہفتے جنین بٹالین نے اعلان کیا کہ اس کو ختم کرنے کے لیے اور فلسطینی قومی اتحاد کو محفوظ رکھنے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مجرمانہ قبضے کی مزاحمت کے جائز حق کو برقرار رکھا یعنی اسرائیلی تشدد اور کارروائیوں کے مقابلے میں فلسطینی حق ِ مزاحمت کو برقرار رکھا گیا ہے، یہ بھی ایک طرح سے حماس کی کامیابی ہے۔ اب اسرائیلی فوج بلڈوزروں اور جنگی مشینوں کے ذریعے جنین کیمپ پر حملہ آور ہے، ان کے اسنائپرز عمارتوں کے اوپر موجود ہیں جو ہر حرکت کرنے والی چیز پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کہہ رہے ہیں کہ ان کی فوج مغربی کنارے میں غزہ میں سیکھے گئے اسباق کو دہرائے گی۔
جنین مغربی کنارے پر آباد ہے اسرائیل مغربی کنارے پر اپنی بستیاں بسانے اور اپنے علاقے کو وسیع کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ جنین کیمپ جنین شہر کے اندر آدھے کلو میٹر سے بھی کم علاقے پر موجود ہے جہاں اس مختصر جگہ پر چودہ ہزار فلسطینی رہتے ہیں۔ اس ہفتے اسرائیلی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے کئی قصبوں پر حملے کیے، عمارتوں اور گاڑیوں میں آگ لگائی، چالیس فلسطینی زخمی ہوئے اور دس سے زیادہ شہید ہوئے۔ مغربی کنارے کے علاقوں پر فلسطینیوں کے گھر، دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے اور فلسطینیوں کو زخمی اور شہید کرنے کو حماس نے اسرائیل کا دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے اور فلسطینیوں کو ان حملوں کا جواب دینے کے لیے تمام شکلوں کی مزاحمت پر زور دیا ہے۔ کیونکہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ اسرائیلی فوج کو غزہ سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج کی کامیابی حماس کے کے ساتھ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) * غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے جمعرات 24 جولائی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ایک بیان میں کہا کہ اس نے اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ غزہ پٹی میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز کا جواب دے دیا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات دو ہفتوں سے زائد عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔
(جاری ہے)
ثالثی کی کوششوں کے باوجود فریقین تاحال کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں، جس سے خطے میں جاری انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
غزہ پٹی میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینی شہری شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ 100 سے زائد بین الاقوامی امدادی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں ’’بڑے پیمانے پر بھوک‘‘ پھیل رہی ہے، جس سے ایک ممکنہ انسانی المیے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز پر اپنا اور دیگر فلسطینی دھڑوں کا جواب ثالثوں کو پیش کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسے یہ جواب موصول ہو چکا ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان میں اس امر کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ اسے حماس کا جواب موصول ہو گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا، ’’ فی الحال حماس کے جواب کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
‘‘دوحہ میں مذاکرات سے واقف فلسطینی ذرائع کے مطابق حماس کے ردعمل میں امداد کے داخلے سے متعلق شقوں میں مجوزہ ترامیم، ان علاقوں کے نقشے جہاں سے اسرائیلی فوج کو واپس جانا چاہیے اور جنگ کے مستقل خاتمے کی ضمانتوں کے مطالبات شامل ہیں۔
گزشتہ 21 مہینوں کی لڑائی کے دوران دونوں جنگی فریق اپنے اپنے طویل المدتی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، جو دو مرتبہ قلیل المدتی جنگ بندی کو دیرپا جنگ بندی میں بدل دینےکی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔
دوحہ میں بالواسطہ بات چیت چھ جولائی کو ایک جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس کے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی بھی عمل میں آنا تھی۔
اکتوبر 2023ء میں حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 49 یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 27 ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس کے اسرائیل میں حملے میں 1200 سے زائد افراد مارے گئے تھے اور اسی حملے کے فوری بعد غزہ کی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔
ادارت: افسر اعوان، مقبول ملک