غزہ پر یہودی حملوں کی شدت چھپانے کیلئے میڈیا پر پابندی(134 مسلمان شہید)
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
1 ہزار سے زائد زخمیوں کی اطلاع ، خوراک کے متلاشی 99 افراد کا قتل ، ملبے سے 4 شہداء نکالے
رابطے منقطع ، تازہ صورتحال میں صحافیوں کو دشواری ، رپورٹنگ کی آزادی تقریباً ختم کردی ، میڈیا
میڈیا پر پابندیاں، غزہ میں قیامت خیز تباہی جاری ،اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ میدان میں موجود صحافیوں اور میڈیا چینلز کو شدید پابندیوں، خطرات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، رپورٹنگ کی آزادی تقریبا ختم ہوچکی ہے اور متعدد علاقوں میں معلومات تک رسائی ممکن نہیں رہی۔ صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے کے خدشات، انٹرنیٹ کی معطلی اور زمینی رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے تازہ حالات کا احاطہ انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ادھر غزہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں کم از کم 134 فلسطینی شہید اور 1,155 زخمی ہو نے کی اطلاعات حاصل ہوسکی ہیں۔ شہدا میں 99 امدادی متلاشی افرادبھی شامل ہیں، جو خوراک اور پانی کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے جبکہ مزید 4 لاشیں پرانے حملوں کے ملبے سے نکالی گئیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
بی جے پی حکومت نے سینکڑوں بنگالی نژاد مسلمان ملک بدر کر دیے، ہیومن رائٹس واچ
ذرائع کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ جن لوگوں کو بنگلہ دیش بھیجا گیا ان میں سے بیشتر بنگلہ دیش سے متصل بھارتی ریاستوں کے شہری ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ”ہیومن رائٹس“ واچ نے کہا ہے کہ بھارتی حکام نے حالیہ عرصے میں سینکڑوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا اور انہیں ملک بدر کر کے بنگلہ دیش بھیج دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ جن لوگوں کو بنگلہ دیش بھیجا گیا ان میں سے بیشتر بنگلہ دیش سے متصل بھارتی ریاستوں کے شہری ہیں۔ ایچ آر ڈبلیو اور انسانی حقوق کی کئی دیگر تنظیموں نے انکشاف کیا ہے کہ رواں برس مئی سے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت حکومت نے بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھیجنے کی کارروائی تیز کر دی ہے۔ ایک بھارتی اردو اخبار روزنامہ ”منصف“ کی خبر میں کہا گیا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے زور دیکر کہا ہے کہ بی جے پی حکومت کے یہ اقدامات قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کے مترادف ہیں۔ تنظیم کی ایشیائی امور کی ڈائریکٹر ایلن پیئرسن Elaine Pearson نے کہا کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی بھارتی مسلمانوں کیخلاف امتیاز کو ہوا دے رہی ہے اور بنگالی مسلمانوں کو بغیر کسی قانونی جواز کے بے دخل کر رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے جون میں اٹھارہ افراد کے انٹرویو کیے جن میں متاثرہ افراد اور ان کے اہلخانہ شامل تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے بھارتی وزارت داخلہ کو 8 جولائی کو بنگالی نژاد مسلمانوں کی بلاجواز بے دخلی کے بارے میں لکھا لیکن اس نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے، بھارت نے بے دخل کیے گئے افراد کی تعداد بھی نہیں بتائی تاہم بنگلہ دیشی بارڈر گارڈز کے مطابق 7 مئی سے 15 جون کے درمیان 15سو سے زائد مسلم مرد، خواتین اور بچوں کو بنگلہ دیشن کے اندر دھکیلا گیا۔ آسام، اترپردیش، مہاراشٹر، گجرات، اڈیسہ، راجستھان جیسی بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں میں بنگالی بولنے والے غریب مسلمان مزدوروں کو گرفتار کیا گیا اور بغیر شہریت کی تصدیق کے بنگلہ دیش بھیج دیا گیا، کئی لوگوں کے فون، شناختی دستاویزات اور دیگر سامان ضبط کیا گیا۔
ریاست آسام کے ایک استاد خیر الاسلام نے بتایا کہ 26مئی کو ان کے ہاتھ باندھ کر اور منہ بند کر کے 14 افراد کے ساتھ زبردستی سرحد پار بھیجا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے جانے سے انکار کیا تو بی ایس ایف کے ایک اہلکار نے مجھے مارا اور ڈرانے دھمکانے کیلئے چار بار ہوا میں گولیاں چلائیں۔ بی جے پی حکومت نے مئی میں آسام کی ایک جیل سے 100روہنگیا پناہ گزینوں کو بھی بنگلہ دیش بھیجا۔ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے 8 مئی کو بھارت کو ایک خط لکھا جس میں زبردستی دھکیلے جانے والے افراد کو ناقابل قبوں قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ صرف ان لوگوں کو قبول کیا جائے گا جو باضابطہ طور پر تصدیق شدہ بنگلہ دیشی شہری ہوں۔