مظفر وارثی۔۔۔ وجد آفرین کلام پیش کرنے والے منفرد شاعر
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کی صبح کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی مشہور نعت ’مرا پیمبر عظیم تر‘ سے ہوتا تھا جسے مظفر وارثی اپنی وجد آفرین آواز میں پیش کرتے۔ ایک روحانی احساس سے روح سرشار ہو جاتی۔ دیکھا جائے تو مظفر وارثی کی سادہ سی شخصیت تھی لیکن ان کے کلام اور پرسوز آواز میں سحر طاری ہوجاتا۔ صرف ایک یہی کلام نہیں بلکہ مظفر وارثی کی حمد ’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے‘ کو جس انداز سے انہوں نے خود پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ مظفر وارثی کا بھارتی شہر میرٹھ میں ڈاکٹر محمد شرف الدین احمد صدیقی کے یہاں جنم ہوا۔ والدین نے محمد مظفر الدین نام رکھا۔ والد شاعر تھے اور ادبی حلقوں میں ولی وارثی کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔ والد کو مشاعروں میں کلام پڑھتے دیکھ کر ہی مٖظفر وارثی کے اندر شاعر بننے کی شمع روشن ہوئی۔ ابتدا میں چھوٹے چھوٹے شعروں سے سفر شروع کیا۔ وارثی کا تخلص بھی والد کی مناسبت سے رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد گھرانہ کراچی منتقل ہوا اور پھر لاہور کے ہی ہوکر رہ گئے جہاں سے مظفر وارثی نے میٹرک بھی کیا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان کے مرکزی بینک سے منسلک ہوئے۔ لیکن شاعری کے شوق کو کسی بھی مرحلے پس پشت نہ ڈالا۔
بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ ابتدا میں مظفر وارثی نے فلمی گانوں سے اپنے ۤآپ کو تسلیم کرایا۔ پہلی فلم ’فرشتہ‘1961میں آئی جس میں ان کا لکھا ہوا گانا ’دل کی دھڑکن تری آواز ہوئی جاتی ہے‘ ملکہ ترنم نور جہاں کی مدھر اور رسیلی آواز میں گنگنایا گیا۔ یہ اپنے دور کا مقبول نغمہ تھا۔ 1966 میں جب انہوں نے فلم ’ہمراہی‘ کے گانے لکھے تو ان کی شہرت ساتویں آسمان پر پہنچی۔ فلم کے گانوں ’یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو، کیا کہوں اے دنیا والو کیا ہوں میں، ہوگئی زندگی مجھے پیاری اور کرم ایک نظر ہم پر خدارا یا پھر مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والے‘ نمایاں رہے۔ موسیقار تصدق حسین نے مظفر وارثی کے بولوں پر ایسی موسیقی ترتیب دی کہ ہر گانا زبان زد عام ہوا۔ مظفر وارثی نے لگ بھگ 15 فلموں میں 60 سے زیادہ گیت لکھے۔ مظفر وارثی نے 70 کی دہائی تک فلمی گانے لکھے لیکن پھر انہوں نے فلمی نغمہ نگاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے آپ کو صرف نعت اور حمد خوانی کے لیے وقف کردیا۔
عدنان سمیع خان کو شہرت کے سفر کا راہی بنانے میں مظفر وارثی کی حمد ’اے خدا اے خدا‘ کا اہم کردار رہا اسی طرح نصرت فتح علی خان نے مظفر وارثی کا ہی کلام ’و کجا من کجا ، تو کجا من کجا‘ پیش کرکے غیر معمولی تعریف و توصیف حاصل کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مظفر وارثی نے اپنے ایمان پرور کلام سے فلمی گانوں سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ ان کے لکھے ہوئے کلام میں روحانی پہلو کی اس قدر خوبصورت انداز میں عکاسی کی جاتی کہ ہر بند اور مصرعہ دلوں پر اثر کرجاتا۔ مظفر وارثی کی شاعری پر تبصرہ کرنے والوں کا ماننا ہے کہ نعت خوانی کے ساتھ انہوں نے غزل کی صنف میں طبع آزمائی کرکے یہ باور کرایا کہ وہ ہر صنف کے شاعر ہیں۔ جو ایمان افروز کلام بھی پیش کرسکتے ہیں، وہیں ان کی غزلیں بھی تادیر تاثیر چھوڑنے کی اہلیت رکھتیں۔
اپنے منفرد اور مختلف شاعرانہ اسلوب کے ساتھ ساتھ 20 سے زیادہ کتابیں بھی پیش کیں۔ ان میں ’برف کی ناؤ، باب حرم، لہجہ، نور ازل، الحمد، حصار، لہو کی ہریالی، ستاروں کی آب جو، کعبۂ عشق، کھلے دریچے بند ہوا، دل سے در نبی تک، ظلم نہ سہنا، کمند، گئے دنوں کا سراغ اور آپ بیتی‘ شامل ہیں۔ ان کے نعتیہ اور حمدیہ کلام پر مبنی کتابیں تو ہرکوئی حاصل کرنے کی جدوجہد میں رہتا۔ مظفر وارثی کی غزلیات کا پہلا مجموعہ 1972 میں ’برف کی ناﺅ‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ نظموں اور گیتوں کے حوالے سے ان کے مجموعے ’حصار‘، ’ظلم نہ سہنا‘، ’لہو کی ہریالی‘، ’پربت‘، اور ’کمند‘ نمایاں ہیں۔ مظفر وارثی نے اپنی سوانح عمری ’گئے دنوں کا سراغ‘ بھی پیش کی جس میں ان کی زندگی کے نشیب و فراز بیان کیے گئے ہیں وہیں اس میں سابق صدر جنرل ضیاالحق کے ساتھ مختلف ملاقاتوں کے دلچسپ احوال قابل ذکر ہیں۔
سال 1981 میں مظفر وارثی کو ریڈیو پاکستان کی طرف سے بہترین نعت خواں کا ایوارڈ بھی دیا گیا اور 1988 میں حکومت پاکستان نے ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی دیا۔ بڑھاپا جب اعصاب پر بہت زیادہ حاوی ہوا تو مشاعروں کی جان تصور کیے جانے والے مظفر وارثی ادبی محفلوں سے دور ہوتے چلے گئے۔
زندگی کے ۤآخری دور تک قلم سے ان کا ناطہ نہ ٹوٹ سکا۔ شدید علالت کے باوجود روزنامہ ’نوائے وقت‘ میں سیاسی قطعات لکھتے۔ مظفر وارثی صبح کے اخبار کا مطالعہ کرنے کے بعد سیاسی، سماجی اور تہذیبی زاویے کی کسی خبر کا انتخاب کرتےاور پھر قطعہ ٹیلی فون پر املا کرا دیتے جو ادارتی صفحے پر نمایاں طور پر شائع ہوتے۔ طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد 28 جنوری 2011 کو 77 برس کی عمر میں لاہور میں ان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔
مظفر وارثی کا مقبول کلام
تصور سے بھی آگے تک در و دیوار کھل جائیں
اے خدا اے خدا اے خدا اے خدا
اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے
مرا پیمبر عظیم تر
تو کجا من کجا، تو کجا من کجا
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
داغ دے کر صاف چہرہ مانگتی ہے زندگی
ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا
خود مری آنکھوں سے اوجھل میری ہستی ہوگئی
سنبھلنے کے لیے گرنا پڑا ہے
اس کی عادت ہے بھلا دیتا ہے وعدہ کرکے
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
لبِ خاموش سے اظہارِ تمنا چاہیں
کس قدر محتاط جینے کا چلن ہم کو ملا
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
wenews حمد سفیان خان شاعر فلم مظفر وارثی نعتیہ کلام وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سفیان خان فلم مظفر وارثی وی نیوز مظفر وارثی کی مظفر وارثی نے انہوں نے وارثی کا کے بعد خدا اے اے خدا
پڑھیں:
لندن میں پاکستان کے خلاف تماشا کرنے والے مودی کے حامیوں کا اپنا ہی تماشا بن گیا
سٹی42: لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے تماشا لگانے کے لئے آنے والے نریندر مودی کے حامیوں کا وہاں خود اپنا ہی تماشا بن گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کے پاکستان مخالف مظاہرے کے دوران پاکستانیوں نے مظاہرین کو "ابھینندن چائے" کی پیشکش کر دی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق بھارت کی نریندر مودی حکومت پاکستان کے خلاف اپنے خود ساختہ پروپیگنڈا کو لے کر بیرون ممالک بھی اپنے زیر اثر انڈین ڈایا سپورا کو پاکستان کے خلاف اکسا رہی ہے اور اس صورتحال سے یورپی ممالک میں مقیم دونوں ممالک کے شہریوں میں باہمی تناؤ پھیلنے لگا ہے۔
گلیڈئیٹرز vs کے کے؛ روسو حسن علی کا تیسرا شکار بن گئے
لندن میں جمعہ کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی انڈینز نے پاکستان مخالف مظاہرہ کیا تو پاکستانی نژاد شہری بھی وہاں پہنچ گئے۔ پاکستانیوں نے ان مظاہرین کو ابھینندن ٹی کی پیشکش کی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر بھارت کی حمایت میں مظاہرہ کیا گیا، لندن میں موجود پاکستانی برادری نے بھارتی مظاہرین کو چائے کا سٹال لگا کر نریندر مودی حکومت کے واہیات پروپیگنڈا کا سارکِسٹک جواب دیا ۔
قذافی سٹیڈیم میں کوئٹہ گلیڈئیٹرز اور کراچی کنگز کے میچ میں ڈرامائی آغاز
جب مودی کے حامی انڈین پاکستانی ہائی کمیشن کے آگے نام نہاد احتجاج کرنے کے لئے آئے تو پاکستان کے حامی شہریوں نے پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر چائے کا سٹال لگا دیا، اس چائے کے سٹال پر آپریشن سوئفٹ ریٹارڈ میں زندہ بچائے جانے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے پوسٹر آویزاں کیے گئے اور اسے پاکستان آرمی کی تحویل میں پلائی گئی بدنام زمانہ چائے کی یاد تازہ کرنے کے لئے چائے بنا کر رکھی گئی۔۔
وفاقی کابینہ نے نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی تشکیل دیدی
"ابھی نندن چائے" کے سٹال پر پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کی نشاندہی کرنے کیلئے بینر آویزاں کئے گئے۔
"ٹی از فینٹیسٹک" کے جملوں کی گونج رہی، پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے تماشا لگانے کے لئے آنے والے نریندر مودی کے حامیوں کا وہاں خود اپنا ہی تماشا بن گیا۔
مظاہرین ٹی سٹال ابھینندن کے پوسٹر اور بینرز دیکھ کر سیخ پا ہوتے رہے، بھارتی مظاہرین کے سامنے پاکستان کے حامی مظاہرین نے بھرپور نعرے بازی کی، پاکستان کے حامی مظاہرین نے سبز ہلالی پرچم بھی لہرایا۔
صدر مملکت سے وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہم ملاقات
Waseem Azmet