یہ قبولنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جوانی ہم پر بھی آئی تھی اور یہ قصہ جوانی کا ہے۔ ہم دس سالہ بیٹے کو اردو پڑھا رہے تھے کہ بیچ میں یہ محاورہ آگیا ’’گھوڑے بیچ کر سونا‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹا اسے جملے میں استعمال کرو‘‘۔ اِس زمانے کے بچے بات کریدنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے وہ بولا ’’ابا پہلے آپ اس کا مطلب تو بتائیے‘‘ ہم نے جواب دیا ’’اس کا مطلب ہے بے فکری سے لمبی تان کر سونا۔ پہلے زمانے میں گھوڑا بڑی قیمتی چیز ہوا کرتا تھا اس پر بیٹھ کر آدمی لمبے لمبے سفر طے کرتا تھا جیسے اس زمانے میں گاڑیاں یہ کام کرتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس گھوڑا ہوتا تھا انہیں اس کی رکھوالی کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا ’’پتا کھڑکا بندہ بھڑکا‘‘ بیٹے نے فوراً مداخلت کی ’’نہیں ابا میں نے نہیں سنا‘‘۔
ہم نے کہا ’’اچھا اس کا مطلب پھر کبھی بتائیں گے ابھی گھوڑے کا مسئلہ درپیش ہے اس لیے بس یہ سمجھ لو کہ جو لوگ گھوڑے کو کھونٹے سے باندھ کر سونے کی کوشش کرتے تھے وہ گھوڑے کی ہلکی سی ٹاپ یا ہنہناہٹ پر چونک اُٹھتے تھے اور اس اندیشے کے سبب کہ کہیں چور گھوڑا کھول کر نہ لے جائے، ساری ساری رات آنکھوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ البتہ جو لوگ گھوڑے کی رکھوالی سے تنگ آکر اسے بیچ دیتے تھے وہ بے فکر ہو کر مزے کی نیند سوتے تھے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے تھے‘‘۔
بیٹے نے پھر لقمہ دیا ’’خواب خرگوش سے کیا مطلب؟ ابھی گھوڑے کا قصہ ختم نہیں ہوا کہ آپ نے خرگوش کا ذکر چھیڑ دیا‘‘۔
ہم نے جھلا کر کہا ’’بیٹا تم بہت کند ذہن ہو۔ تم نے تیسری چوتھی جماعت میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی نہیں پڑھی؟
بیٹا جلدی سے بولا ’’ہاں پڑھی ہے۔ خرگوش اور کچھوے کی دوڑ میں کچھوا جیت جاتا ہے اور خرگوش راستے میں سوتا رہ جاتا ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا ’’خرگوش اور کچھوے کی اسی کہانی سے ’’خواب خرگوش‘‘ کا محاورہ ایجاد ہوا ہے اب تم پہلے محاورے یعنی ’’گھوڑا بیچ کر سونا‘‘ کو جملے میں استعمال کرو۔
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ بیگم بھی آموجود ہوئیں۔ بیٹے نے ہم دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور محاورے کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے بولا ’’ہمارے ابا ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، الارم بجتا رہتا ہے لیکن وہ اُٹھائے نہیں اُٹھتے‘‘۔
ہم نے پیار سے اسے سمجھایا ’’بیٹا جملہ ایسا بنانا چاہیے جو حقیقت کے قریب ہو۔ اخبار کی ملازمت میں مجھے رات گئے تک جاگنا پڑتا ہے۔ گھر آنے کے بعد میں بالعموم نماز فجر کے بعد سوتا ہوں اور وہ بھی گھوڑے بیچ کر سونا نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے مسکرا کر بیگم کی طرف دیکھا ’’ہاں تم یہ محاورہ اپنی ماں کے بارے میں استعمال کرسکتے ہو، ان کے خراٹے تو پورے کمرے میں گونجتے ہیں۔ بیگم نے غضب ناک نظروں سے ہمیں دیکھا ’’غضب خدا کا آپ کتنی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ جو آپ روزانہ اخبار کے دفتر سے رات کے تین بجے واپس آتے ہیں اور میں ایک آہٹ پر دروازہ کھول دیتی ہوں تو یہ گھوڑے بیچ کر سونا ہوا۔ اچھی کہی آپ نے ’’ہم نے جھینپتے ہوئے کہا ’’بھئی واہ تم سنجیدہ ہوگئیں ہم تو…‘‘
بیگم بات کاٹتے ہوئے بولیں ’’ہاں ہاں میں تو مذاق کررہا تھا۔ اگر میں نے بھی مذاق پر کمر باندھ لی اور واقعی گھوڑے بیچ کر سو گئی تو لگ پتا جائے گا‘‘۔
بیٹا جو پانچویں جماعت کا طالب علم تھا معاملے کی سنگینی کو بھانپ گیا اور اس نے جملے میں کسی تیسرے فریق کو گھوڑے بیچ کر سلا دیا۔
بیٹے کا اردو کا سبق ختم ہوا لیکن یہ محاورہ دیر تک ذہن میں گونجتا رہا۔ آدمی نے جب سے مادی ترقی کی ہے اس کا گھوڑے سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے وہ اب گھڑ سواری کے بجائے ہوائی جہازوں اور تیز رفتار گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ جنگوں میں بھی گھوڑوں کا استعمال متروک ہوگیا ہے اب گھوڑوں کی جگہ ٹینک، میزائل اور راکٹ استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اب بھی گھوڑوں کا کاروبار زوروں پر ہے، اسے سیاست کی زبان میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کہتے ہیں اور اس میں چار ٹانگوں والے گھوڑوں کے بجائے دو ٹانگوں والے انسان نما گھوڑوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے، اقتدار و اختیار کے لیے ان کی بڑی اونچی بولیاں لگتی ہیں۔ پچھلے دنوں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی زبردست منڈی لگی اور ایک ووٹ کی بولی ایک ارب تک پہنچ گئی۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ قوم گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے ورنہ ایسا ممکن نہ تھا۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ نہیں صاحب قوم تو جاگ رہی ہے، البتہ حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی ہے، لاقانونیت ہے، دہشت گردی ہے لیکن حکمرانوں کی نیند نہیں ٹوٹ رہی۔ ایک اور فریق کا کہنا ہے کہ حکمران ٹولہ اپنے مفاد کے لیے خوب جاگ رہا ہے، انداز کیجیے کہ پاکستان قرضوں پر چل رہا ہے، آئی ایم ایف اس سے نئی نئی شرطیں منوا رہا ہے لیکن حکمران ٹولے نے اسمبلی میں اپنی تنخواہیں 200 فی صد تک بڑھوالی ہیں، حالانکہ اس میں ارب پتی کھرب پتی لوگ موجود ہیں جنہیں تنخواہ کی ضرورت نہیں۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ اس قرار داد میں پی ٹی آئی نے بھی حکمران ٹولے کا ساتھ دیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو ناانصافی سے نکالنے آئی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے جس نے عوام کو مزید محرومیوں میں مبتلا کردیا ہے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے اس کھیل میں بعض اوقات آدمی کا ضمیر حائل ہوجاتا ہے آپ ضمیر کو آدمی کے اندر کا گھوڑا کہہ سکتے ہیں جو ہنہنانے پر آئے تو آدمی کی زندگی بے زار کرسکتا ہے اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے بیچ دیا جائے۔ پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے مفادات کے عوض ضمیر کا سودا کرکے اس سے نجات حاصل کرلی ہے ورنہ وہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف احتجاج کرکے اور اس کے خلاف ووٹ دے کر عوام کی ترجمانی بھی کرسکتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے رہے تھے، اسے کہتے ہیں
رِند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں استعمال کہتے ہیں جملے میں اور اس ہیں کہ
پڑھیں:
بدل دو نظام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251120-03-2
جماعت اسلامی کا ملک گیر اجتماع 21، 22، 23 نومبر 2025 کو لاہور میں ایسے موقع پر منعقد ہو رہا ہے جب پاکستان کی ریاست، سیاست اور معیشت بری طرح بگاڑ کا شکار ہے۔ ملک کی سیکورٹی پر بنیادی نوعیت کے سوالات اُٹھ رہے ہیں اور موجودہ دہشت گردی سے نمٹنا بھی ریاست اور حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کو بدلے بغیر نہ تو ریاست کا نظام درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی عوامی مسائل ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ موجودہ نظام کی اصلاح یا اس میں انقلابی اقدامات اٹھائے بغیر ملک کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ 26 اور 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد تو اس ملک کی طاقتور اشرافیہ نے ریاستی اور حکومتی نظام کو شخصی مفادات کے تابع کر لیا گیا ہے۔ حالیہ آئینی ترامیم کے بعد ملک میں سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ ان ترامیم میں پارلیمانی سیاست اور پارلیمنٹ کا مذاق اُڑایا گیا ہے اس میں اگرچہ غیر سیاسی طاقتوں کے کھیل کو بالادستی حاصل ہوئی ہے اور پاکستان کی موجودہ حکومتی سیاسی جماعتیں جمہوریت پر سمجھوتا کر کے غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں کو مضبوط کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بھارت اور افغانستان کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان کے لیے نئی نئی مشکلات پیدا کر رہا ہے اور اگر افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہ ہوئے تو ہمیں ایک نئی شدت پسندی اور جنگ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ معاشی ترقی کے بڑے بڑے سیاسی دعوے عملاً سیاسی نعروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت کا مستقبل بھی مخدوش ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں معیشت کی بہتری کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاوہ گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی کشیدہ ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پختون خوا صوبائی حکومت کی جانب سے جو امن جرگہ منعقد کیا گیا ہے اور اس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں بھی وفاقی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی حکومت کے درمیان افغانستان کے تناظر ایک بڑا واضح ٹکراؤ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام ریاست کے بحران اور اس کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ جماعت اسلامی کو موجودہ ریاستی اور حکومتی نظام پر سخت تحفظات ہیں اور وہ سمجھتی ہے کہ جس طرح سے یہ نظام چلایا جا رہا ہے اس سے پاکستان کی مشکلات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔ جماعت اسلامی کا بنیادی سلوگن بدل دو نظام ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی موجودہ نظام کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ریاست اور حکومت نے چاروں طرف سے قومی نظام کو جکڑ لیا ہے اور عدلیہ سمیت میڈیا اور جمہوریت پر مختلف نوعیت کی پابندیاں ظاہر کرتی ہیں کہ تبدیلی کے کسی بھی عمل کو آسانی سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ جماعت اسلامی کا یہ اجتماع عام اور اس کی مشترکہ قرارداد یا اعلامیہ پاکستان کے موجودہ بحران کا کیا حل پیش کرتا ہے اور کیا اس نظام کے خلاف ایک بڑی ممکنہ تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے گی۔ لوگوں کو یقینی طور پر جماعت اسلامی کے اجتماع عام سے بہت سی توقعات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اجتماع سیاسی حالات میں بہتری کے لیے ایک درست سمت کا تعین کر سکتا ہے۔ نظام بدل دو کا نعرہ بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل درامد یا اس کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک بڑی سیاسی تحریک کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک جماعت اسلامی سیاسی طور پر تن تنہا نہیں چلا سکے گی اور اسے عوامی حمایت بھی درکار ہوگی۔ اس وقت میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کے معاملات بھی کافی بگڑے نظر آتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کو طاقت کے ذریعے دبانا چاہتا ہے جس سے رد عمل کی سیاست جنم لے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو اجتماع عام کے ذریعے اس بیانیے کو تشکیل دینا ہے کہ ملک کے موجودہ نظام کو تبدیل کیے بغیر ریاست کی سمت درست نہیں ہو سکتی اور یہ عمل ایک مشترکہ بڑی سیاسی جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ جس انداز سے طاقتور طبقات شخصی حکمرانی کو مضبوط کر رہے ہیں اس سے ملک میں انتشار کی سیاست کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوگا۔ اس بات کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ خود طاقت کے مراکز میں اور سیاسی قوتوں کے درمیان طاقت کے اس نئے کھیل میں نیا ٹکراؤ دیکھنے کو ملے۔ اس وقت خیبر پختون خوا بلوچستان میں لوگ اسلام آباد سے نالاں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست طاقت سے ان کے بنیادی حقوق پامال کر رہی ہے۔ خود مختار عدلیہ جمہوری نظام میں کنجی سمجھی جاتی ہے مگر 26 ویں اور 27 ویں کی ترمیم کے بعد عدلیہ کو قانونی طور پر مفلوج کر کے اس پر حکومتی کنٹرول کو بڑھا دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کو ایک طرف سیاسی حکمت عملی درکار ہے تو دوسری طرف ایک بڑی قانونی جنگ کا بھی سامنا ہے جو عدالتی محاذ پر لڑی جائے گی۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنا کہ بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں اور اب ان کے مقابلے میں ایک نئی سیاسی قیادت درکار ہے جو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ملک کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی کو پیدا کر سکے۔ یہ عمل نوجوانوں کو جوڑے بغیر ممکن نہیں ہے اور آج پاکستان کا نوجوان عملی سیاست میں ووٹ کی بنیاد پر ایک بڑی سیاسی طاقت بن چکا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس نظام کی لڑائی میں نوجوانوں کو متحد کرنا اور ان کے سامنے ایک پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ رکھنا بھی اہم ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ جو ملک میں یک طرفہ حکمرانی یا شخصی حکمرانی کا نظام پیدا کیا جا رہا ہے اس کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ آج ڈیجیٹل نظام نے بنیادی اہمیت اختیار کر لی ہے اور اسی کے ذریعے دنیا میں بیانیے کی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے۔ اس لیے ڈیجیٹل میڈیا میں نظام کی تبدیلی کی ایک بڑی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے اور اس کی مدد سے ریاست اور حکمرانی کے نظام میں ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنا بھی وقت کی بڑی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ نظام کی تبدیلی جلسے جلوس کی سیاست یا جذباتیت پر مبنی نعروں سے ممکن نہیں، اس کے لیے عملی سطح پر ٹھوس سیاسی حکمت عملی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر جماعت اسلامی کا یہ اجتماع عام لوگوں کو ایک درست راستہ دینے میں کامیاب ہو جائے یا ایک ایسا روڈ میپ سامنے آ جائے جس کی مدد سے نظام میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے تو یقینی طور پر لوگ بھی اس تبدیلی کے عمل میں کھڑے ہوں گے۔ تبدیلی کا یہ عمل کسی مسلح جدوجہد سے ممکن نہیں بلکہ ہمیں سیاسی اور قانونی محاذ پر ایک پرامن جنگ کی بنیاد پر ریاست پاکستان کا مقدمہ لڑنا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت ملک میں جو معاشی تقسیم یا معاشی ناہمواریاں ہیں اس نے لوگوں کی زندگیوں میں بہت زیادہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن نے خود مڈل کلاس طبقے میں بے چینی پیدا کی ہوئی ہے۔ اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے سیاسی نظام کی تبدیلی میں وہ کردار ادا نہ کیا جو آج ریاست کی ضرورت ہے تو پھر یہ نظام عام لوگوں پر اور زیادہ سیاسی اور معاشی بوجھ کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایک زمانے میں یہ نعرہ لگتا تھا کہ چہرے نہیں نظام کو بدلو اور اب واقعی ہمیں چہروں کی تبدیلی کے بجائے نظام کی تبدیلی پر توجہ دینی ہوگی۔