Jasarat News:
2025-06-02@04:42:07 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

یہ قبولنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جوانی ہم پر بھی آئی تھی اور یہ قصہ جوانی کا ہے۔ ہم دس سالہ بیٹے کو اردو پڑھا رہے تھے کہ بیچ میں یہ محاورہ آگیا ’’گھوڑے بیچ کر سونا‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹا اسے جملے میں استعمال کرو‘‘۔ اِس زمانے کے بچے بات کریدنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے وہ بولا ’’ابا پہلے آپ اس کا مطلب تو بتائیے‘‘ ہم نے جواب دیا ’’اس کا مطلب ہے بے فکری سے لمبی تان کر سونا۔ پہلے زمانے میں گھوڑا بڑی قیمتی چیز ہوا کرتا تھا اس پر بیٹھ کر آدمی لمبے لمبے سفر طے کرتا تھا جیسے اس زمانے میں گاڑیاں یہ کام کرتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس گھوڑا ہوتا تھا انہیں اس کی رکھوالی کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا ’’پتا کھڑکا بندہ بھڑکا‘‘ بیٹے نے فوراً مداخلت کی ’’نہیں ابا میں نے نہیں سنا‘‘۔

ہم نے کہا ’’اچھا اس کا مطلب پھر کبھی بتائیں گے ابھی گھوڑے کا مسئلہ درپیش ہے اس لیے بس یہ سمجھ لو کہ جو لوگ گھوڑے کو کھونٹے سے باندھ کر سونے کی کوشش کرتے تھے وہ گھوڑے کی ہلکی سی ٹاپ یا ہنہناہٹ پر چونک اُٹھتے تھے اور اس اندیشے کے سبب کہ کہیں چور گھوڑا کھول کر نہ لے جائے، ساری ساری رات آنکھوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ البتہ جو لوگ گھوڑے کی رکھوالی سے تنگ آکر اسے بیچ دیتے تھے وہ بے فکر ہو کر مزے کی نیند سوتے تھے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے تھے‘‘۔

بیٹے نے پھر لقمہ دیا ’’خواب خرگوش سے کیا مطلب؟ ابھی گھوڑے کا قصہ ختم نہیں ہوا کہ آپ نے خرگوش کا ذکر چھیڑ دیا‘‘۔

ہم نے جھلا کر کہا ’’بیٹا تم بہت کند ذہن ہو۔ تم نے تیسری چوتھی جماعت میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی نہیں پڑھی؟

بیٹا جلدی سے بولا ’’ہاں پڑھی ہے۔ خرگوش اور کچھوے کی دوڑ میں کچھوا جیت جاتا ہے اور خرگوش راستے میں سوتا رہ جاتا ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا ’’خرگوش اور کچھوے کی اسی کہانی سے ’’خواب خرگوش‘‘ کا محاورہ ایجاد ہوا ہے اب تم پہلے محاورے یعنی ’’گھوڑا بیچ کر سونا‘‘ کو جملے میں استعمال کرو۔

یہ باتیں ہورہی تھیں کہ بیگم بھی آموجود ہوئیں۔ بیٹے نے ہم دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور محاورے کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے بولا ’’ہمارے ابا ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، الارم بجتا رہتا ہے لیکن وہ اُٹھائے نہیں اُٹھتے‘‘۔

ہم نے پیار سے اسے سمجھایا ’’بیٹا جملہ ایسا بنانا چاہیے جو حقیقت کے قریب ہو۔ اخبار کی ملازمت میں مجھے رات گئے تک جاگنا پڑتا ہے۔ گھر آنے کے بعد میں بالعموم نماز فجر کے بعد سوتا ہوں اور وہ بھی گھوڑے بیچ کر سونا نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے مسکرا کر بیگم کی طرف دیکھا ’’ہاں تم یہ محاورہ اپنی ماں کے بارے میں استعمال کرسکتے ہو، ان کے خراٹے تو پورے کمرے میں گونجتے ہیں۔ بیگم نے غضب ناک نظروں سے ہمیں دیکھا ’’غضب خدا کا آپ کتنی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ جو آپ روزانہ اخبار کے دفتر سے رات کے تین بجے واپس آتے ہیں اور میں ایک آہٹ پر دروازہ کھول دیتی ہوں تو یہ گھوڑے بیچ کر سونا ہوا۔ اچھی کہی آپ نے ’’ہم نے جھینپتے ہوئے کہا ’’بھئی واہ تم سنجیدہ ہوگئیں ہم تو…‘‘

بیگم بات کاٹتے ہوئے بولیں ’’ہاں ہاں میں تو مذاق کررہا تھا۔ اگر میں نے بھی مذاق پر کمر باندھ لی اور واقعی گھوڑے بیچ کر سو گئی تو لگ پتا جائے گا‘‘۔

بیٹا جو پانچویں جماعت کا طالب علم تھا معاملے کی سنگینی کو بھانپ گیا اور اس نے جملے میں کسی تیسرے فریق کو گھوڑے بیچ کر سلا دیا۔

بیٹے کا اردو کا سبق ختم ہوا لیکن یہ محاورہ دیر تک ذہن میں گونجتا رہا۔ آدمی نے جب سے مادی ترقی کی ہے اس کا گھوڑے سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے وہ اب گھڑ سواری کے بجائے ہوائی جہازوں اور تیز رفتار گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ جنگوں میں بھی گھوڑوں کا استعمال متروک ہوگیا ہے اب گھوڑوں کی جگہ ٹینک، میزائل اور راکٹ استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اب بھی گھوڑوں کا کاروبار زوروں پر ہے، اسے سیاست کی زبان میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کہتے ہیں اور اس میں چار ٹانگوں والے گھوڑوں کے بجائے دو ٹانگوں والے انسان نما گھوڑوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے، اقتدار و اختیار کے لیے ان کی بڑی اونچی بولیاں لگتی ہیں۔ پچھلے دنوں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی زبردست منڈی لگی اور ایک ووٹ کی بولی ایک ارب تک پہنچ گئی۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ قوم گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے ورنہ ایسا ممکن نہ تھا۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ نہیں صاحب قوم تو جاگ رہی ہے، البتہ حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی ہے، لاقانونیت ہے، دہشت گردی ہے لیکن حکمرانوں کی نیند نہیں ٹوٹ رہی۔ ایک اور فریق کا کہنا ہے کہ حکمران ٹولہ اپنے مفاد کے لیے خوب جاگ رہا ہے، انداز کیجیے کہ پاکستان قرضوں پر چل رہا ہے، آئی ایم ایف اس سے نئی نئی شرطیں منوا رہا ہے لیکن حکمران ٹولے نے اسمبلی میں اپنی تنخواہیں 200 فی صد تک بڑھوالی ہیں، حالانکہ اس میں ارب پتی کھرب پتی لوگ موجود ہیں جنہیں تنخواہ کی ضرورت نہیں۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ اس قرار داد میں پی ٹی آئی نے بھی حکمران ٹولے کا ساتھ دیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو ناانصافی سے نکالنے آئی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے جس نے عوام کو مزید محرومیوں میں مبتلا کردیا ہے۔

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے اس کھیل میں بعض اوقات آدمی کا ضمیر حائل ہوجاتا ہے آپ ضمیر کو آدمی کے اندر کا گھوڑا کہہ سکتے ہیں جو ہنہنانے پر آئے تو آدمی کی زندگی بے زار کرسکتا ہے اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے بیچ دیا جائے۔ پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے مفادات کے عوض ضمیر کا سودا کرکے اس سے نجات حاصل کرلی ہے ورنہ وہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف احتجاج کرکے اور اس کے خلاف ووٹ دے کر عوام کی ترجمانی بھی کرسکتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے رہے تھے، اسے کہتے ہیں

رِند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں استعمال کہتے ہیں جملے میں اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل

انگریزی کے نامور ادیب امیتابھ گھوش نے اپنی کتاب ’سموک اینڈ ایشز‘ میں برطانیہ، چین، انڈیا اور باقی دنیا پر افیون کی تجارت کے معاشی و سماجی اثرات کو موضوع بنایا ہے۔ یہ کتاب افیون کی مخفی تاریخ اور اس دھندے سے فائدہ سمیٹنے والوں کی داستان سناتی ہے، اس کے پہلو بہ پہلو اور بھی قصے چلتے ہیں۔ ایک جگہ ہندوستان میں چائے کے ارتقا کی تاریخ بھی بیان ہوئی جس میں مصنف نے اپنی اور اپنے خاندان کی چائے سے رغبت کے بارے میں بھی بتایا ہے، ان کا کہنا ہے وہ واقعتاً اس کے بغیر ’فنکشن‘ نہیں کر سکتے۔

یہی حال ان کی والدہ کا تھا بلکہ شعور کی منزلیں طے کرتے انہوں نے اپنے آس پاس قریباً ہر کسی کو اسی حال میں پایا، ان کی دانست میں چائے نہ صرف ان کی صحت مندی کے لیے لازمی تھی بلکہ اسے انڈین شناخت کا اہم عنصر سمجھا جانے لگا تھا۔ ان کے خیال میں بہت سے دوسرے انڈینز کی طرح چائے اب ان کے لیے ناگزیر اور آئینی ضرورت بن چکی ہے اور ان کے بقول آج انڈیا میں چائے کا درجہ وہی ہے جو امریکیوں کے لیے ایپل پائی کا ہے۔

امیتابھ گھوش کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی سے پہلے زیادہ تر ہندوستانی چائے کو ناپسند کرتے اور اسے شک کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن پھر اشتہاروں کے ذریعے ان کے ذہن بدلے گئے۔ 40 کی دہائی میں برصغیر میں چائے کو مقبولیت حاصل ہوئی تو یہ جدید انڈیا کی شاید سب سے شاندار اشتہاری مہم کا نتیجہ تھی جس میں چوٹی کے آرٹسٹوں اور ڈیزائنرز نے حصہ لیا اور عظیم فلم ڈائریکٹر ستیہ جیت رے اور انڈیا میں کمرشل ڈیزائن کے بانی آنند منشی کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔

امیتابھ گھوش نے کتاب میں آنند منشی کی ایک تصویر شامل کی ہے جس میں چرخہ کاتنے کی مشین کے ساتھ ساڑھی میں ملبوس ہندوستانی خاتون کو چائے نوش کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کا کیپشن ہے: ’چائے سو فیصد سودیشی ہے۔‘ اس سے لوگوں کے ذہن میں چرخے اور مدر انڈیا جیسی ٹھوس علامتوں کو چائے سے رلا ملا کر بدیشی مال کو دیسی مال قرار دیا گیا تھا۔

یہ اشتہار کی اس قوت کا ابتدائی زمانہ ہے جس کی انتہا ہم اب دیکھ رہے ہیں جس میں اشتہار نے انسان کی خود مختاری اور خود اختیاری پر کاری ضرب لگا کر اس کے دل و دماغ کو مٹھی میں کر رکھا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف برانڈز کی چائے کے اشتہارات اب بھی عام ہیں جس کی ایک بڑی مثال کرکٹ میچوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ میدان میں چائے پینے کے لیے ایک گوشہ مختص کر کے اسے تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وقفے وقفے سے اس کے اشتہارات چلتے رہتے ہیں۔ چائے کا کرکٹ سےدیرینہ رشتہ ہے اور ٹیسٹ میچ کی ایک خوب صورتی چائے کا وقفہ بھی ہے، کسی زمانے میں چائے کھلاڑیوں کو میدان میں ہی ’سرو‘ کی جاتی تھی۔

بات کرکٹ اور چائے کے اشتہارات کی ہو رہی تھی تو یہ کہے بنا رہا نہیں جاتا کہ چائے اور دیگر اشیا کے اشتہاروں کی پیہم یلغار نے ٹی وی پر میچ دیکھنے کا لطف غارت کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے آپ میچ نہیں اشتہار نامہ دیکھ رہے ہیں۔ اس صورت حال کا عمدہ تجزیہ معروف مارکسسٹ دانشور اعجاز احمد نے اپنے خطبے ’عالمی ادب اور ذرائع ابلاغ‘ میں کیا تھا جس سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’کرکٹ میں آپ ایک وقت میں ایک اوور دیکھتے ہیں، اسی پر کمنٹری سنتے ہیں، اوور کے بیچ میں چار اشتہار دیکھتے ہیں، ہر کھلاڑی کا لباس اشتہار ہوتا ہے، کھیل کا میدان اشتہارات سے بھرا ہوتا ہے، وکٹ گرتی ہے تو پھر کارپوریٹ کیپیٹل کی عیش ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ پھر آپ کو 10 اشتہار دکھا دے گا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کس کی وکٹ گری! وہ آسٹریلین ٹیم کی ہو، انڈین ٹیم کی ہو، پاکستانی کی ہو۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرکٹ کو ٹیلی ویژن پر دکھانے کا بنیادی مقصد تو اسے اشیا کے اشتہار کے لیے استعمال کرنا ہے۔ آپ کے جو کرکٹ کے کھلاڑی ہیں وہ چلتی پھرتی اشیا ہیں۔ وہ اشتہار کی مدد سے اشیا بیچتے ہیں۔ ان سب کا اشیائے صرف میں بدل جانا آپ زندگی کے ہر شعبے میں دیکھ سکتے ہیں۔‘ ( بحوالہ ادبی کتابی سلسلہ ’لاہور‘، ہندی سے ترجمہ: ارجمند آرا)

اب دوبارہ چائے کی طرف چلتے ہیں، اس کے اشتہاروں میں ہم نے اپنے زمانے کے مشہور لوگوں کو تو دیکھ ہی لیا ہے اب ہم آپ کو پرانے وقتوں کی دو مثالوں کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق علامہ اقبال سے ہے۔ یہ بات پروفیسر سی ایم نعیم کی کتاب ’منتخب مضامین‘ میں شامل مضمون ’پرانے اخبار اور رسائل‘ کے ذریعے میرے علم میں آئی ہے اور یہ آپ کو بھی دلچسپ معلوم ہوگی:

’ان پرانے اشتہاروں میں کبھی کبھی ایسی چیزیں بھی نظر آجاتی ہیں جن کی ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی۔ ’تہذیب نسواں‘ کے 14 مارچ 1931 کے شمارے میں ’سبز چائے‘ یا ’گرین ٹی‘ کے ایک لاہوری تاجر کا اشتہار شائع ہوا تھا، جسے میں نے ’نیرنگِ خیال‘ کے کسی شمارے میں بھی دیکھا تھا، اوپر موٹے حروف میں ’اعلیٰ سبز چائے‘ لکھ کر جلی حروف میں یہ عبارت درج کی گئی تھی :

کیا فرماتے ہیں ملک الشعرا جناب علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال اس کی تعریف میں کہ :

چائے سبز است کیمیائے شباب

پیر صد سالہ را جواں سازد

اشتہار کے شعر میں علامہ کی حس ظرافت کی جو جھلک ملتی ہے اسے عرصے سے ہم نے تصور کرنا بھی چھوڑ دیا ہے حالاں کہ ’بانگِ درا‘ میں اپنا ظریفانہ کلام شامل کرنے میں خود اقبال نے دریغ نہیں کیا تھا۔

شاعری میں علامہ اقبال کی شہرت برصغیر کے اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی تھی تو گلوکاری میں کے ایل سہگل کی آواز کا ہندوستان میں ڈنکا بج رہا تھا۔ وہ ایک طرزِ احساس کے نمائندہ بن گئے تھے۔ ایسے میں ان کی نگر نگر پھیلی مقبولیت سے چائے والوں نے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی۔

اردو کے ادبی رسائل میں بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔

تقسیم سے پہلے کے رسالے میری دلچسپی کا خاص محور ہیں، ایک دن 1946 کے ’ادبی دنیا‘ کے ایک شمارے میں انڈین ٹی مارکیٹ ایکسپنشن بورڈ کے اشتہار میں کے ایل سہگل کا بھرپور طریقے سے ’استعمال‘ دیکھ کر میں رک گیا، اس میں ان کا سکیچ ہے اور تعارف بھی لیکن چیزے دیگری چائے کے آرٹ سے سمبندھ کو اجاگر کرتی لائنوں کے بعد سہگل کا چائے کے بارے میں قول زریں ہے، آپ یہ دونوں ملاحظہ کرکے جان سکتے ہیں کہ برصغیر میں چائے کی تشہیری مہم کے کیا رنگ ڈھنگ رہے ہیں:

’ساری دنیا کے بڑے بڑے آرٹسٹوں نے چائے کے حسن و خوبی سے محبت کرنا سیکھ لیا ہے، کوئی بھی دوسری چیز دماغ میں آرٹ کے تخلیق کرنے کی صلاحیت کو اتنا زیادہ متحرک نہیں کرتی۔ سنہری آواز والے سہگل کیا فرماتے ہیں، پڑھیے: میں بتاتا ہوں کہ چائے سے مجھے اتنی رغبت کیوں ہے، وجہ یہ ہے کہ گانا، ایکٹنگ اور ہر وہ کام جس سے مجھے اصلی خوشی حاصل ہوتی ہے، چائے میری طبیعت کو موزوں کر دیتی ہے۔‘

گلوکاروں کے چائے کی تشہیری مہم میں حصہ بننے کی ایک مثال ہیرا بائی بڑودیکر کی بھی ہے جو ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کے استاد عبدالکریم خاں صاحب کی صاحبزادی تھیں، ان کے بارے میں داؤد رہبر نے ’باتیں کچھ سریلی سی‘ میں لکھا ہے کہ غم کی دولت انہیں باپ سے ورثے میں ملی تھی، اس لیے وہ جوانی میں بھی اداس اداس گانا گاتی تھیں۔ 1947 میں معروف جریدے ’عالمگیر‘ (لاہور) میں چائے کے اشتہار میں ہیرا بائی بڑودیکر کی چائے کے بارے میں رائے نقل ہوئی ہے جس کے بعد کا رائٹ اپ بھی مزے کا ہے :

’فن موسیقی کی بے نظیر استادِ وقت فرماتی ہیں کہ ’مجھ کو چائے سے بے حد رغبت ہے اس لیے کہ میں نے تجربے سے اس کو خوشگوار متحرک دماغ جانا۔ گانے والوں کے لیے یہ نہایت ہی اہم اور ضروری شے ہے۔‘

ساری دنیا کے لوگ اور بالخصوص آرٹسٹوں کو اس کا تجربہ ہوگیا ہے کہ چائے کے مقابلہ میں کوئی بھی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو دماغ کو اتنا زیادہ تازہ زرخیز اور بار آور بنا سکتی ہے۔

برصغیر کے عوام کو چائے کی لت لگانے کے لیے اشتہارات کے ساتھ ساتھ دوسرے طریقے بھی اختیار کیے گئے۔ مثلاً اس کی پڑیاں گھر گھر پھینکی گئیں اور اسے بہت ارزاں قیمت پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس طریقہ واردات کی ایک جھلک پران نول کی کتاب ’لاہور اے سینٹی مینٹل جرنی‘ میں دیکھی جاسکتی ہے:

’تیس کی دہائی کے دوران انڈین ٹی مارکیٹ ایکسپنشن بورڈ نے چائے کو مقبول بنانے کے لیے ایک زبردست مہم چلائی، لاہور کے بازاروں اور گلیوں میں نمایاں جگہوں پر موبائل ٹی اسٹال بنائے گئے جس میں چائے کی تیاری کا عملی مظاہرہ پیش کیا جاتا۔ چائے کے گرما گرم کپ مفت تقسیم کیے جاتے۔ اس کے بعد چائے کا ایک چھوٹا پیکٹ مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا جس کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ جلد ہی چینی کے برتنوں میں چائے پینا نوجوان نسل کا فیشن بن گیا.’(ترجمہ: نعیم احسن)

صاحبو! چائے نے اشتہارات کے بل بوتے پر برصغیر میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر لی ہیں کہ اب یہ پینے والوں کی ’بشری کمزوری‘ بن چکی ہے۔ اس لیے جب تین سال پہلے وفاقی وزیر احسن اقبال نے قوم کو چائے کم پینے کا مشورہ دیا تو چائے کے ’شیدائیوں‘ نے ان کی خوب خبر لی تھی، کیوں کہ آخر ہم پاکستانی بھی تو امیتابھ گھوش کی طرح چائے کے بغیر ’فنکشن‘ نہیں کر سکتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews احسن اقبال اشتہار افیون امیتابھ گھوش برصغیر بھارت چائے علامہ اقبال کرکٹ محمودالحسن وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ریت پر بنی اسرائیلی فرعونیت
  • جنگ اور امن
  • عید سے قبل عمران خان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں
  • چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل
  • حقیقتیں
  • ’’انصاف‘‘
  • دنیا کے امیر ترین افراد ایک عمارت میں سونا کیوں جمع کر رہے ہیں؟ مالیت بھی سامنے آگئی
  • جنگی اذیتیں
  • عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونا سستا ہوگیا
  • آئی ایم ایف ہی کی سن لیں