Jasarat News:
2025-08-11@11:02:36 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

یہ قبولنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جوانی ہم پر بھی آئی تھی اور یہ قصہ جوانی کا ہے۔ ہم دس سالہ بیٹے کو اردو پڑھا رہے تھے کہ بیچ میں یہ محاورہ آگیا ’’گھوڑے بیچ کر سونا‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹا اسے جملے میں استعمال کرو‘‘۔ اِس زمانے کے بچے بات کریدنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے وہ بولا ’’ابا پہلے آپ اس کا مطلب تو بتائیے‘‘ ہم نے جواب دیا ’’اس کا مطلب ہے بے فکری سے لمبی تان کر سونا۔ پہلے زمانے میں گھوڑا بڑی قیمتی چیز ہوا کرتا تھا اس پر بیٹھ کر آدمی لمبے لمبے سفر طے کرتا تھا جیسے اس زمانے میں گاڑیاں یہ کام کرتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس گھوڑا ہوتا تھا انہیں اس کی رکھوالی کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا ’’پتا کھڑکا بندہ بھڑکا‘‘ بیٹے نے فوراً مداخلت کی ’’نہیں ابا میں نے نہیں سنا‘‘۔

ہم نے کہا ’’اچھا اس کا مطلب پھر کبھی بتائیں گے ابھی گھوڑے کا مسئلہ درپیش ہے اس لیے بس یہ سمجھ لو کہ جو لوگ گھوڑے کو کھونٹے سے باندھ کر سونے کی کوشش کرتے تھے وہ گھوڑے کی ہلکی سی ٹاپ یا ہنہناہٹ پر چونک اُٹھتے تھے اور اس اندیشے کے سبب کہ کہیں چور گھوڑا کھول کر نہ لے جائے، ساری ساری رات آنکھوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ البتہ جو لوگ گھوڑے کی رکھوالی سے تنگ آکر اسے بیچ دیتے تھے وہ بے فکر ہو کر مزے کی نیند سوتے تھے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے تھے‘‘۔

بیٹے نے پھر لقمہ دیا ’’خواب خرگوش سے کیا مطلب؟ ابھی گھوڑے کا قصہ ختم نہیں ہوا کہ آپ نے خرگوش کا ذکر چھیڑ دیا‘‘۔

ہم نے جھلا کر کہا ’’بیٹا تم بہت کند ذہن ہو۔ تم نے تیسری چوتھی جماعت میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی نہیں پڑھی؟

بیٹا جلدی سے بولا ’’ہاں پڑھی ہے۔ خرگوش اور کچھوے کی دوڑ میں کچھوا جیت جاتا ہے اور خرگوش راستے میں سوتا رہ جاتا ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا ’’خرگوش اور کچھوے کی اسی کہانی سے ’’خواب خرگوش‘‘ کا محاورہ ایجاد ہوا ہے اب تم پہلے محاورے یعنی ’’گھوڑا بیچ کر سونا‘‘ کو جملے میں استعمال کرو۔

یہ باتیں ہورہی تھیں کہ بیگم بھی آموجود ہوئیں۔ بیٹے نے ہم دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور محاورے کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے بولا ’’ہمارے ابا ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، الارم بجتا رہتا ہے لیکن وہ اُٹھائے نہیں اُٹھتے‘‘۔

ہم نے پیار سے اسے سمجھایا ’’بیٹا جملہ ایسا بنانا چاہیے جو حقیقت کے قریب ہو۔ اخبار کی ملازمت میں مجھے رات گئے تک جاگنا پڑتا ہے۔ گھر آنے کے بعد میں بالعموم نماز فجر کے بعد سوتا ہوں اور وہ بھی گھوڑے بیچ کر سونا نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے مسکرا کر بیگم کی طرف دیکھا ’’ہاں تم یہ محاورہ اپنی ماں کے بارے میں استعمال کرسکتے ہو، ان کے خراٹے تو پورے کمرے میں گونجتے ہیں۔ بیگم نے غضب ناک نظروں سے ہمیں دیکھا ’’غضب خدا کا آپ کتنی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ جو آپ روزانہ اخبار کے دفتر سے رات کے تین بجے واپس آتے ہیں اور میں ایک آہٹ پر دروازہ کھول دیتی ہوں تو یہ گھوڑے بیچ کر سونا ہوا۔ اچھی کہی آپ نے ’’ہم نے جھینپتے ہوئے کہا ’’بھئی واہ تم سنجیدہ ہوگئیں ہم تو…‘‘

بیگم بات کاٹتے ہوئے بولیں ’’ہاں ہاں میں تو مذاق کررہا تھا۔ اگر میں نے بھی مذاق پر کمر باندھ لی اور واقعی گھوڑے بیچ کر سو گئی تو لگ پتا جائے گا‘‘۔

بیٹا جو پانچویں جماعت کا طالب علم تھا معاملے کی سنگینی کو بھانپ گیا اور اس نے جملے میں کسی تیسرے فریق کو گھوڑے بیچ کر سلا دیا۔

بیٹے کا اردو کا سبق ختم ہوا لیکن یہ محاورہ دیر تک ذہن میں گونجتا رہا۔ آدمی نے جب سے مادی ترقی کی ہے اس کا گھوڑے سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے وہ اب گھڑ سواری کے بجائے ہوائی جہازوں اور تیز رفتار گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ جنگوں میں بھی گھوڑوں کا استعمال متروک ہوگیا ہے اب گھوڑوں کی جگہ ٹینک، میزائل اور راکٹ استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اب بھی گھوڑوں کا کاروبار زوروں پر ہے، اسے سیاست کی زبان میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کہتے ہیں اور اس میں چار ٹانگوں والے گھوڑوں کے بجائے دو ٹانگوں والے انسان نما گھوڑوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے، اقتدار و اختیار کے لیے ان کی بڑی اونچی بولیاں لگتی ہیں۔ پچھلے دنوں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی زبردست منڈی لگی اور ایک ووٹ کی بولی ایک ارب تک پہنچ گئی۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ قوم گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے ورنہ ایسا ممکن نہ تھا۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ نہیں صاحب قوم تو جاگ رہی ہے، البتہ حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی ہے، لاقانونیت ہے، دہشت گردی ہے لیکن حکمرانوں کی نیند نہیں ٹوٹ رہی۔ ایک اور فریق کا کہنا ہے کہ حکمران ٹولہ اپنے مفاد کے لیے خوب جاگ رہا ہے، انداز کیجیے کہ پاکستان قرضوں پر چل رہا ہے، آئی ایم ایف اس سے نئی نئی شرطیں منوا رہا ہے لیکن حکمران ٹولے نے اسمبلی میں اپنی تنخواہیں 200 فی صد تک بڑھوالی ہیں، حالانکہ اس میں ارب پتی کھرب پتی لوگ موجود ہیں جنہیں تنخواہ کی ضرورت نہیں۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ اس قرار داد میں پی ٹی آئی نے بھی حکمران ٹولے کا ساتھ دیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو ناانصافی سے نکالنے آئی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے جس نے عوام کو مزید محرومیوں میں مبتلا کردیا ہے۔

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے اس کھیل میں بعض اوقات آدمی کا ضمیر حائل ہوجاتا ہے آپ ضمیر کو آدمی کے اندر کا گھوڑا کہہ سکتے ہیں جو ہنہنانے پر آئے تو آدمی کی زندگی بے زار کرسکتا ہے اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے بیچ دیا جائے۔ پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے مفادات کے عوض ضمیر کا سودا کرکے اس سے نجات حاصل کرلی ہے ورنہ وہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف احتجاج کرکے اور اس کے خلاف ووٹ دے کر عوام کی ترجمانی بھی کرسکتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے رہے تھے، اسے کہتے ہیں

رِند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں استعمال کہتے ہیں جملے میں اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

ایک انوکھی کہانی

آئی ایم ایف کے تازہ ترین جائزے میں یہ چشم کشا حقیقت سامنے آئی کہ تعلیم اور صحت کے لیے مختص وسائل مکمل طور پر استعمال نہیں کیے جا سکے حالانکہ تعلیم اور صحت ہر سیاسی پارٹی اور حکومتوں کی زبانی ترجیحات میں بظاہر نمبر ون پر ہوتے ہیں۔

جہاں یہ وسائل استعمال ہو رہے ہیں، وہاں یہ صورتحال ہے کہ عوام ناخوش اور حکومت مصر ہے کہ صحت کی سہولتوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ دیگر صوبوں میں بھی عمومی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔

پاکستان میں صحت کا شعبہ طویل عرصے سے حکومتی ترجیحات کے دعوؤں میں آگے لیکن عملاً لڑکھڑا رہا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی کل جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد صحت کے سرکاری شعبے میں خرچ ہوتا ہے۔ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ میڈیکل اخراجات 45 ڈالر سے بھی کم ہیں، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم شمار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ہر 1300 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر اور 1800 افراد کے لیے ایک بستر دستیاب ہے۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا حادثہ بچوں کو سہنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر 11 میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے وفات پا جاتا ہے۔ہمارے ہاں غربت اور بیماری ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے نکلنا غریب عوام کے لیے ممکن نہیں۔

پاکستان میں تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جن کے لیے بیماریاں اس غربت کی دلدل کو مزید گھمبیر بنا دیتی ہیں۔ایک حالیہ سروے کے مطابق 70 فیصد مریض علاج کا خرچ خود ادا کرتے ہیں، یعنی کوئی انشورنس، کوئی سوشل سیکیورٹی کا نظام نہیں۔

بیماری کی صورت میں ایک عام گھرانہ اپنی سالانہ آمدنی کا 30 سے 50 فیصد صرف صحت پر خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ایسے میں نجی شعبے میں صحت کے اعلیٰ معیار اور بلاتخصیص علاج تک رسائی کی چند روشن مثالیں قابل قدر اور قابل ستائش ہیں۔ دو روز قبل لاہور کے جوبلی ٹاؤن میں انڈس اسپتال کے 600 بستروں پر مشتمل کیمپس کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

گزشتہ سال ہمیں انڈس اسپتال کراچی وزٹ کرنے اور ان کے سسٹم کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو بجائے خود ایک انوکھا تجربہ تھا۔ انڈس اسپتال جوبلی ٹاؤن کو اسی تجربے کا شاندار تسلسل پایا۔ یہ روایتی اسپتال نہیں، بلکہ طبّی سہولت، انسانی ہمدردی اور انتظامی سلیقے کی ایک انوکھی مثال ہے۔

شاندار اور وسیع عمارت جے سی آئی کے عالمی معیارات پر سنگاپور کی ایک معروف فرم کے ڈیزائن کے مطابق تعمیر شدہ ہے ( واضح رہے کہ پاکستان کے صرف تین اسپتال جے سی آئی سرٹیفائیڈ ہیں)۔ تربیت یافتہ، منظم اور خوش اخلاق عملہ، تمام شعبوں کی مربوط کارکردگی اور سب سے بڑھ کر علاج کی مکمل بلامعاوضہ فراہمی کے مشن پر مکمل عملدرآمد۔ پورے اسپتال میں کہیں بھی کیش کاؤنٹر نہیں ہے۔

یہ سب کیسے ممکن ہو پا رہا ہے؟ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر شفیق حیدر سے تفصیلی ملاقات اور ان کی ٹیم کے ہمراہ اسپتال کے تفصیلی ملاحظے سے ادارے کے بانی ڈاکٹر عبد الباری کے ’’مفت علاج سب کے لیے‘‘ کے خواب کی تعبیر سے مزید آگاہی ہوئی۔ انھوں نے انڈس ہیلتھ کئیر نیٹ ورک کے ارتقائی سفر، نظریاتی بنیاد، انڈس ہیلتھ نیت ورک کی موجودہ سہولیات، اداروں اور جوبلی ٹاؤن کیمپس کے موجودہ اور مستقبل کے ماسٹر پلان سے آگاہ کیا۔

انڈس نیٹ ورک کا سفر 2007میں کراچی کے ایک چھوٹے سے اسپتال سے شروع ہوا، آج یہ نیٹ ورک ملک بھر میں بیسیوں اسپتالوں، کلینکس اور طبی مراکز پر مشتمل ہے، جہاں سالانہ ساٹھ لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج بلاامتیاز کیا جاتا ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان… ہر صوبے میں انڈس کی موجودگی، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ ماڈل کے تحت کامیابی سے جاری ہے۔

یہ نیٹ ورک نہ صرف علاج، بلکہ طبّی تعلیم، تحقیق، نرسنگ اور پیرامیڈیکل ٹریننگ کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مخیر حضرات کی امداد کو انتہائی شفافیت کے ساتھ مریضوں کی خدمت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی اعتماد اور شفافیت اس نیٹ ورک کی کامیابی کی کلید ہے۔

یہ صرف ایک ادارہ جاتی کامیابی نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی فخریہ مثال ہے۔ ایسے وقت میں جب مہنگے اسپتالوں کے بل انسانوں کو مقروض اور مایوس بنا رہے ہیں، انڈس جیسا ادارہ ایک روشن راہ دکھا رہا ہے۔یہ اسپتال اس سوچ کا اظہار کہ اگر نیت خالص ہو، نظام شفاف ہو اور عوام کا اعتماد حاصل ہو، تو دنیا کا کوئی خواب ناممکن نہیں۔ ہمیں بطور قوم ایسے اداروں سے سیکھنا چاہیے۔ مخیر طبقے کو مزید منظم انداز میں انڈس اور ایسے مزید اداروں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔

کبھی سوچا تھا کہ ایک اسپتال بغیر فیس کے، بغیر نسلی یا مالی امتیاز کے، عالمی معیار کی سہولت دے سکتا ہے؟ انڈس اسپتال نیٹ ورک نے ثابت کیا کہ خواب، اگر بصیرت اور عزم کے ساتھ دیکھے جائیں، تو وہ تعبیر پا سکتے ہیں۔ ہماری دعائیں، تحسین اور تعاون انڈس جیسے اداروں کے لیے ہیں… جو ہمیں سکھاتے ہیں کہ انسانیت کا سب سے قیمتی علاج محبت، خلوص اور خدمت ہے۔

مہنگائی اور زندگی کے تقاضوں نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے بلکہ یہ مشکل ہر گزرتے دن مشکل تر ہو رہی ہے۔ تعلیم اور صحت ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے۔ ماں باپ کی اپنی زندگی جیسے بھی گزر جائے ان کی شدید خواہش اور خواب یہی ہوتا ہے کہ ان کی اولاد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو تاکہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔

عوام کی یہ بھی ایک بنیادی ضرورت ہے کہ غربت کے مارے ہوئے اور مسائل کی چکی میں پسنے کے باوجود انھیں صحت کی اس قدر بنیادی سہولتیں ضرور میسر ہوں کہ سانس کا ناتا برقرار رہے۔ سرکاری شعبے میں انتظامی مداخلت اور مالی وسائل کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کا مسلسل دباؤ سرکاری صحت کے انفرااسٹرکچر کو مسلسل زیربار کیے ہوئے ہے۔

کمرشل بنیادوں پر استوار نجی شعبے کی صحت سہولیات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ایسے میں انڈس اسپتال نیٹ ورک اور ایسے دیگر ادارے خدمت کی روشن مثال قائم کر رہے ہیں۔ انھیں تعاون کی ضرورت ہے اور ان کے لیے راستے آسان کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں سونے کی قیمت میں ہزاروں روپے کمی
  • منہ کھول کر سونا کسی بیماری کی علامت تو نہیں؟ ڈاکٹرز کی رائے اور احتیاطی تدابیر
  • کرکٹرز کو کنٹرول کریں
  • عمران خان کا مخمصہ
  • زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
  • غریب ہک زندہ لاش اے
  • کوئی فرق نہیں!
  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • قصائی خانے اور افسر خانے
  • ایک انوکھی کہانی