Jasarat News:
2025-06-17@04:56:13 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

یہ قبولنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جوانی ہم پر بھی آئی تھی اور یہ قصہ جوانی کا ہے۔ ہم دس سالہ بیٹے کو اردو پڑھا رہے تھے کہ بیچ میں یہ محاورہ آگیا ’’گھوڑے بیچ کر سونا‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹا اسے جملے میں استعمال کرو‘‘۔ اِس زمانے کے بچے بات کریدنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے وہ بولا ’’ابا پہلے آپ اس کا مطلب تو بتائیے‘‘ ہم نے جواب دیا ’’اس کا مطلب ہے بے فکری سے لمبی تان کر سونا۔ پہلے زمانے میں گھوڑا بڑی قیمتی چیز ہوا کرتا تھا اس پر بیٹھ کر آدمی لمبے لمبے سفر طے کرتا تھا جیسے اس زمانے میں گاڑیاں یہ کام کرتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس گھوڑا ہوتا تھا انہیں اس کی رکھوالی کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا ’’پتا کھڑکا بندہ بھڑکا‘‘ بیٹے نے فوراً مداخلت کی ’’نہیں ابا میں نے نہیں سنا‘‘۔

ہم نے کہا ’’اچھا اس کا مطلب پھر کبھی بتائیں گے ابھی گھوڑے کا مسئلہ درپیش ہے اس لیے بس یہ سمجھ لو کہ جو لوگ گھوڑے کو کھونٹے سے باندھ کر سونے کی کوشش کرتے تھے وہ گھوڑے کی ہلکی سی ٹاپ یا ہنہناہٹ پر چونک اُٹھتے تھے اور اس اندیشے کے سبب کہ کہیں چور گھوڑا کھول کر نہ لے جائے، ساری ساری رات آنکھوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ البتہ جو لوگ گھوڑے کی رکھوالی سے تنگ آکر اسے بیچ دیتے تھے وہ بے فکر ہو کر مزے کی نیند سوتے تھے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے تھے‘‘۔

بیٹے نے پھر لقمہ دیا ’’خواب خرگوش سے کیا مطلب؟ ابھی گھوڑے کا قصہ ختم نہیں ہوا کہ آپ نے خرگوش کا ذکر چھیڑ دیا‘‘۔

ہم نے جھلا کر کہا ’’بیٹا تم بہت کند ذہن ہو۔ تم نے تیسری چوتھی جماعت میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی نہیں پڑھی؟

بیٹا جلدی سے بولا ’’ہاں پڑھی ہے۔ خرگوش اور کچھوے کی دوڑ میں کچھوا جیت جاتا ہے اور خرگوش راستے میں سوتا رہ جاتا ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا ’’خرگوش اور کچھوے کی اسی کہانی سے ’’خواب خرگوش‘‘ کا محاورہ ایجاد ہوا ہے اب تم پہلے محاورے یعنی ’’گھوڑا بیچ کر سونا‘‘ کو جملے میں استعمال کرو۔

یہ باتیں ہورہی تھیں کہ بیگم بھی آموجود ہوئیں۔ بیٹے نے ہم دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور محاورے کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے بولا ’’ہمارے ابا ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، الارم بجتا رہتا ہے لیکن وہ اُٹھائے نہیں اُٹھتے‘‘۔

ہم نے پیار سے اسے سمجھایا ’’بیٹا جملہ ایسا بنانا چاہیے جو حقیقت کے قریب ہو۔ اخبار کی ملازمت میں مجھے رات گئے تک جاگنا پڑتا ہے۔ گھر آنے کے بعد میں بالعموم نماز فجر کے بعد سوتا ہوں اور وہ بھی گھوڑے بیچ کر سونا نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے مسکرا کر بیگم کی طرف دیکھا ’’ہاں تم یہ محاورہ اپنی ماں کے بارے میں استعمال کرسکتے ہو، ان کے خراٹے تو پورے کمرے میں گونجتے ہیں۔ بیگم نے غضب ناک نظروں سے ہمیں دیکھا ’’غضب خدا کا آپ کتنی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ جو آپ روزانہ اخبار کے دفتر سے رات کے تین بجے واپس آتے ہیں اور میں ایک آہٹ پر دروازہ کھول دیتی ہوں تو یہ گھوڑے بیچ کر سونا ہوا۔ اچھی کہی آپ نے ’’ہم نے جھینپتے ہوئے کہا ’’بھئی واہ تم سنجیدہ ہوگئیں ہم تو…‘‘

بیگم بات کاٹتے ہوئے بولیں ’’ہاں ہاں میں تو مذاق کررہا تھا۔ اگر میں نے بھی مذاق پر کمر باندھ لی اور واقعی گھوڑے بیچ کر سو گئی تو لگ پتا جائے گا‘‘۔

بیٹا جو پانچویں جماعت کا طالب علم تھا معاملے کی سنگینی کو بھانپ گیا اور اس نے جملے میں کسی تیسرے فریق کو گھوڑے بیچ کر سلا دیا۔

بیٹے کا اردو کا سبق ختم ہوا لیکن یہ محاورہ دیر تک ذہن میں گونجتا رہا۔ آدمی نے جب سے مادی ترقی کی ہے اس کا گھوڑے سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے وہ اب گھڑ سواری کے بجائے ہوائی جہازوں اور تیز رفتار گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ جنگوں میں بھی گھوڑوں کا استعمال متروک ہوگیا ہے اب گھوڑوں کی جگہ ٹینک، میزائل اور راکٹ استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اب بھی گھوڑوں کا کاروبار زوروں پر ہے، اسے سیاست کی زبان میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کہتے ہیں اور اس میں چار ٹانگوں والے گھوڑوں کے بجائے دو ٹانگوں والے انسان نما گھوڑوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے، اقتدار و اختیار کے لیے ان کی بڑی اونچی بولیاں لگتی ہیں۔ پچھلے دنوں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی زبردست منڈی لگی اور ایک ووٹ کی بولی ایک ارب تک پہنچ گئی۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ قوم گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے ورنہ ایسا ممکن نہ تھا۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ نہیں صاحب قوم تو جاگ رہی ہے، البتہ حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی ہے، لاقانونیت ہے، دہشت گردی ہے لیکن حکمرانوں کی نیند نہیں ٹوٹ رہی۔ ایک اور فریق کا کہنا ہے کہ حکمران ٹولہ اپنے مفاد کے لیے خوب جاگ رہا ہے، انداز کیجیے کہ پاکستان قرضوں پر چل رہا ہے، آئی ایم ایف اس سے نئی نئی شرطیں منوا رہا ہے لیکن حکمران ٹولے نے اسمبلی میں اپنی تنخواہیں 200 فی صد تک بڑھوالی ہیں، حالانکہ اس میں ارب پتی کھرب پتی لوگ موجود ہیں جنہیں تنخواہ کی ضرورت نہیں۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ اس قرار داد میں پی ٹی آئی نے بھی حکمران ٹولے کا ساتھ دیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو ناانصافی سے نکالنے آئی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے جس نے عوام کو مزید محرومیوں میں مبتلا کردیا ہے۔

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے اس کھیل میں بعض اوقات آدمی کا ضمیر حائل ہوجاتا ہے آپ ضمیر کو آدمی کے اندر کا گھوڑا کہہ سکتے ہیں جو ہنہنانے پر آئے تو آدمی کی زندگی بے زار کرسکتا ہے اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے بیچ دیا جائے۔ پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے مفادات کے عوض ضمیر کا سودا کرکے اس سے نجات حاصل کرلی ہے ورنہ وہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف احتجاج کرکے اور اس کے خلاف ووٹ دے کر عوام کی ترجمانی بھی کرسکتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے رہے تھے، اسے کہتے ہیں

رِند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں استعمال کہتے ہیں جملے میں اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہم بجٹ کا ڈی این اے تبدیل کریں گے تاہم ان کے اس فرمان کے باوجودوہ جو صبح شام مزدوری کرتا ہے، گلیوں میں ریڑھیاں لگاتا ہے، فیکٹریوں میں کام کرتا ہے، بجٹ 2025 میں اس کے لیے اتنا ہی ہے جتنا اسپتالوں میں بوتل بھر خون نکالنے کے بعد جوس کا ایک ڈبہ پکڑا دیا جاتا ہے۔ بجٹ کا ایک آنریری پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمارا بجٹ بناتے وقت بال اور بھویں مونڈنے کا اپنا شغف برقرار رکھا ہے۔ حکومت کے پاس گنجائش ہی نہیں تھی کہ اپنے ’’استعماری باوا‘‘ پر نظریں جمائے رکھنے کے علاوہ ادھر ادھر دیکھے۔ اس نیک چلنی کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو جس طرح فرہاد کی نظر سے دیکھے گا اس کے بعد 7 ملین ڈالر ملیں ہی ملیں۔ جس کے بعد ورلڈ بینک، سعودیہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور باقی دنیا سے بھی ہاتھ جوڑے بغیر قرض مل جائے گا۔ غریبوں کے کالے بال سفید ہو جائیں بجٹ میں اس کا پورا اہتمام موجود ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی طبیعت ایسی چونچال ہے جیسے غریب پر اس سے زیادہ احسان کسی نے کیا ہی نہ ہو:
ہم آخری گلاب ہیں دنیا کی شاخ پر
ترسیں گے ہم کو لوگ یہ اگلی بہار میں
اگر دل میں شریف برادران اور فوج سے بغض نہ ہو تو بجٹ کے معاملے میں حکومت کو کانٹوں پر گھسیٹنے اور دُر دُر ہُش ہُش کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں کیونکہ پچھلے عمرانی نیک بختوں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں تھا سوائے پاکستان کو دیوالیہ کرنے کے۔ شہباز حکومت کا یہی کارنامہ بہت بڑا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا لیکن بجٹ میں منظر نامے کو جتنا خوشگوار بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ غلط ہے، ایسا تب ہی ممکن ہے جب طوائف کے ہاتھ کی گلوری کھا کر دنیا کو دیکھا گیا ہو۔ ڈھائی تین فی صد جس گروتھ کا دعویٰ کیا گیا ہے اس پر سہرا بندھائی دینے کو دل کرتا ہے لیکن یہ غلط بیانی ہے، گروتھ حد سے حد ڈیڑھ فی صد تک پہنچی ہے۔ پانچ فی صد تک گروتھ لے جانے کے دعووںکا جہاں تک تعلق ہے حکومت کتنے ہی نئے اقدامات کرلے، قوانین منظور کرلے، دھمکیاں دے لے، سخت فیصلے کرلے، ٹیکس جمع، سبسڈیز کا خاتمہ اور اخراجات میں کٹوتیاں کرلے ایسا ممکن نہیں۔ گروتھ دو فی صد تک ممکن ہے۔
بجٹ پیش کرنے کے بعد اگلا مرحلہ بحث کا ہوتا ہے۔ بغیر بجٹ کے اپنی تنخواہوں میں چار سو فی صد اضافہ کرنے والے اراکین اسمبلی اب غریب ملازمین کی تنخواہیں دس فی صد بڑھانے پر بحث کریں گے۔ نوم چو مسکی نے کہا تھا ’’بجٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت کو اصل میں کیا چیز عزیز ہے‘‘۔ حکومت کو سب سے زیادہ عزیز غربت کا خاتمہ ہے۔ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں وزراء، اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکرز، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی غربت کا خاتمہ۔ جن کی تنخواہوں اور مراعات میں چار سو پانچ سو فی صد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نیک بختو! اسی بات سے تو حکومت کو گالی پڑتی ہے۔ عوام اور مڈل کلاس میڈیا کو اپنے پیچھے لگانے کی اس سے بہتر کوئی ترکیب نہیں۔ جن کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ جن کے لیے زندگی گزارنا ہارٹ اٹیک سے کچھ لمحے پہلے والی کیفیت ہوکر رہ گئی ہے۔ پھر حکومت نے غریبوں کے فائدے کی ہر چیز پر ٹیکس لگادیا ہے۔ بلکتے تڑپتے لوگوں نے بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے سولر لگوائے حکومت نے اس پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا۔ سولر سپلائرز سے جو بجلی حکومت 27 روپے فی یونٹ خریدتی اسے 10 روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے۔ بینکوں سے رقم نکلوانے پر بھی ٹیکس لگادیے گئے ہیں۔ آن لائن خریداری پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا گیا ہے۔
اراکین اسمبلی، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی تنخواہوں میں اضافے پر حکومت نے جو چنچل سُر لگایا ہے اس نے محفل کو مزید پھڑکا کر رکھ دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس اضافے کا نوٹس لے لیا ہے۔ سب کو علم ہے نوٹس تو نوٹس بورڈ پر ہی لگا رہے گا اضافہ چھم چھم کرتا بینکوں میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔ یہ نوٹس ایسا ہی ہے جیسے بارش کے بعد چھتری کھولنا۔ اگر نوٹس لینے ہی سے مسئلے حل ہوجاتے تو ڈاکٹر مریضوں کو دوائوں کے نسخے دینے کے بجائے نوٹس دیتے، ڈاکو واردات کے بعد مظلوموں کے ساتھ سیلفی لے کر ڈاکا ڈالنے پر افسوس کا اظہار کرتے، قصائی بکرا ذبح کرنے کے بعد بکرے کی آنکھ میں پائے جانے والے آنسو پر افسوس کرتے۔ کتنا ہی دانتوں اور ہونٹوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا جائے طوائفوں کے محلے میں کھائے گئے کباب اور پیاز کے بھبکے اور پان کا رچائو نہیں جاتا۔
بجٹ میں حکومت نے ایک اور بڑا کارنامہ جو انجام دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک غریب مزدور کوئی چیز خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ہے اور ایک ارب پتی خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کے ذریعے غریبوں اور امیروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ وہ ترکیب ہے جو کثرت استعمال سے گھس گھس کر استرا بن گئی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے روٹی پر بھی ٹیکس ہو اور سانس لینے پر بھی۔ امیر تو یہ ٹیکس با آسانی اداکرکے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن غریبوں کی زندگی ایک ایسی انوائس اور مالیاتی بل بن جاتی ہے جہاں ہر کام، ہر سانس، ہر نوالے، ہر حرکت، ہر خرید اور ہر استعمال پر ٹیکس دینا پڑتا ہے چاہے پیٹ کاٹ کردیں یا قرض لے کر۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس ہوں اور وہ بھی امیروں پر، استطاعت رکھنے والوں پر نہ کہ غریبوں پر۔
بجٹ بہروپ نگر کا وہ طلسم ہے جس کے بعد ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوتا ہے۔ ہر کوئی حکومت کے منہ پر کالک پوت رہا ہوتا ہے۔ ہم اس کالک اور بجٹ پر تبصروں کا کئی دن سے مطالعہ کررہے ہیں۔ تمام تبصروں میں آئی ایم ایف، عوام کے معاشی گلا گھونٹنے، اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں، حکمرانون کی عیاشیوں، مہنگائی، غربت میں اضافے، قرض، کرپشن، اشرافیہ کی سہولتوں میں اضافے، حکمران طبقے کی تنخواہوں میں اضافے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ظلم وستم کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہیں بھی حتیٰ کہ دینی جماعتوں کے بیش تر تبصروں میں بھی 8200 ارب روپے کے سود کی مد میں ادائیگیوں پر کم ہی لعن طعن کی گئی تھی جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ سود کوئی چھوٹا گناہ نہیں ہے۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں روزانہ پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائوں میں مسلمانوں کو فلاح کے راستے کی نشاندہی کی جارہی ہو وہاں حکمران اتنا بڑا گناہ کررہے ہوں اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کررہے ہوں۔ یہ پہلی حکومت نہیں ہے جو ایسا کررہی ہے۔ حکومتیں فوجی ہو یا سویلین سب اس گناہ میں لتھڑی ہوئی ہیں۔
چھوٹے چھوٹے مسائل، فروعی اختلافات پر خوب بحثیں چل رہی ہوتی ہیں فتوی بٹ رہے ہوتے ہیں لیکن اتنے گھنائونے جرم پر کہیں کوئی تحریک نہیں۔ خاموشی ہی خا موشی۔ جیسے سود کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ایسے میں عالمی معاہدوں میں سود کی ادائیگی کی مجبوری کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے کسی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی پر مبنی ہو۔ سود کے لیے یہ جواز دینا شرعاً ناجائز ہے۔ اگر ہماری حکومتیں ملک کی معیشت درست کرنا چاہتی ہیں تو اللہ کی آخری کتاب کی اس آیت پر غور کریں کہ ’’جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا میں اس کی معیشت تنگ کردوں گا‘‘۔ (طہ: 124) یہ ممکن نہیں کہ ایک ایسا بجٹ جس میں 47 فی صد اخراجات اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے مختص ہوں وہ ملک وقوم کو فلاح دے سکے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی فرق نہیں
  • دیسی گھی کھا کے جی
  • سونا سستا ہو گیا ، موجودہ قیمت کیا ؟ جانئے
  • ساحر
  • بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
  • بجٹ اور ہم
  • سنت ابراہیمی
  • سونے کے خریداروں کیلئے بری خبر
  • ایران اسرائیل جنگ: پیٹرول کے بعد سونے کے بھاؤ میں بھی اضافہ
  • ملک میں سونا ہزاروں روپے مہنگا ہوگیا