Jasarat News:
2025-10-05@05:55:32 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

گھوڑے بیچ کر سونا

یہ قبولنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جوانی ہم پر بھی آئی تھی اور یہ قصہ جوانی کا ہے۔ ہم دس سالہ بیٹے کو اردو پڑھا رہے تھے کہ بیچ میں یہ محاورہ آگیا ’’گھوڑے بیچ کر سونا‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹا اسے جملے میں استعمال کرو‘‘۔ اِس زمانے کے بچے بات کریدنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے وہ بولا ’’ابا پہلے آپ اس کا مطلب تو بتائیے‘‘ ہم نے جواب دیا ’’اس کا مطلب ہے بے فکری سے لمبی تان کر سونا۔ پہلے زمانے میں گھوڑا بڑی قیمتی چیز ہوا کرتا تھا اس پر بیٹھ کر آدمی لمبے لمبے سفر طے کرتا تھا جیسے اس زمانے میں گاڑیاں یہ کام کرتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس گھوڑا ہوتا تھا انہیں اس کی رکھوالی کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا ’’پتا کھڑکا بندہ بھڑکا‘‘ بیٹے نے فوراً مداخلت کی ’’نہیں ابا میں نے نہیں سنا‘‘۔

ہم نے کہا ’’اچھا اس کا مطلب پھر کبھی بتائیں گے ابھی گھوڑے کا مسئلہ درپیش ہے اس لیے بس یہ سمجھ لو کہ جو لوگ گھوڑے کو کھونٹے سے باندھ کر سونے کی کوشش کرتے تھے وہ گھوڑے کی ہلکی سی ٹاپ یا ہنہناہٹ پر چونک اُٹھتے تھے اور اس اندیشے کے سبب کہ کہیں چور گھوڑا کھول کر نہ لے جائے، ساری ساری رات آنکھوں میں کاٹ دیتے ہیں۔ البتہ جو لوگ گھوڑے کی رکھوالی سے تنگ آکر اسے بیچ دیتے تھے وہ بے فکر ہو کر مزے کی نیند سوتے تھے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے تھے‘‘۔

بیٹے نے پھر لقمہ دیا ’’خواب خرگوش سے کیا مطلب؟ ابھی گھوڑے کا قصہ ختم نہیں ہوا کہ آپ نے خرگوش کا ذکر چھیڑ دیا‘‘۔

ہم نے جھلا کر کہا ’’بیٹا تم بہت کند ذہن ہو۔ تم نے تیسری چوتھی جماعت میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی نہیں پڑھی؟

بیٹا جلدی سے بولا ’’ہاں پڑھی ہے۔ خرگوش اور کچھوے کی دوڑ میں کچھوا جیت جاتا ہے اور خرگوش راستے میں سوتا رہ جاتا ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا ’’خرگوش اور کچھوے کی اسی کہانی سے ’’خواب خرگوش‘‘ کا محاورہ ایجاد ہوا ہے اب تم پہلے محاورے یعنی ’’گھوڑا بیچ کر سونا‘‘ کو جملے میں استعمال کرو۔

یہ باتیں ہورہی تھیں کہ بیگم بھی آموجود ہوئیں۔ بیٹے نے ہم دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور محاورے کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے بولا ’’ہمارے ابا ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، الارم بجتا رہتا ہے لیکن وہ اُٹھائے نہیں اُٹھتے‘‘۔

ہم نے پیار سے اسے سمجھایا ’’بیٹا جملہ ایسا بنانا چاہیے جو حقیقت کے قریب ہو۔ اخبار کی ملازمت میں مجھے رات گئے تک جاگنا پڑتا ہے۔ گھر آنے کے بعد میں بالعموم نماز فجر کے بعد سوتا ہوں اور وہ بھی گھوڑے بیچ کر سونا نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے مسکرا کر بیگم کی طرف دیکھا ’’ہاں تم یہ محاورہ اپنی ماں کے بارے میں استعمال کرسکتے ہو، ان کے خراٹے تو پورے کمرے میں گونجتے ہیں۔ بیگم نے غضب ناک نظروں سے ہمیں دیکھا ’’غضب خدا کا آپ کتنی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ جو آپ روزانہ اخبار کے دفتر سے رات کے تین بجے واپس آتے ہیں اور میں ایک آہٹ پر دروازہ کھول دیتی ہوں تو یہ گھوڑے بیچ کر سونا ہوا۔ اچھی کہی آپ نے ’’ہم نے جھینپتے ہوئے کہا ’’بھئی واہ تم سنجیدہ ہوگئیں ہم تو…‘‘

بیگم بات کاٹتے ہوئے بولیں ’’ہاں ہاں میں تو مذاق کررہا تھا۔ اگر میں نے بھی مذاق پر کمر باندھ لی اور واقعی گھوڑے بیچ کر سو گئی تو لگ پتا جائے گا‘‘۔

بیٹا جو پانچویں جماعت کا طالب علم تھا معاملے کی سنگینی کو بھانپ گیا اور اس نے جملے میں کسی تیسرے فریق کو گھوڑے بیچ کر سلا دیا۔

بیٹے کا اردو کا سبق ختم ہوا لیکن یہ محاورہ دیر تک ذہن میں گونجتا رہا۔ آدمی نے جب سے مادی ترقی کی ہے اس کا گھوڑے سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے وہ اب گھڑ سواری کے بجائے ہوائی جہازوں اور تیز رفتار گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ جنگوں میں بھی گھوڑوں کا استعمال متروک ہوگیا ہے اب گھوڑوں کی جگہ ٹینک، میزائل اور راکٹ استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اب بھی گھوڑوں کا کاروبار زوروں پر ہے، اسے سیاست کی زبان میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کہتے ہیں اور اس میں چار ٹانگوں والے گھوڑوں کے بجائے دو ٹانگوں والے انسان نما گھوڑوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے، اقتدار و اختیار کے لیے ان کی بڑی اونچی بولیاں لگتی ہیں۔ پچھلے دنوں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی زبردست منڈی لگی اور ایک ووٹ کی بولی ایک ارب تک پہنچ گئی۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ قوم گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے ورنہ ایسا ممکن نہ تھا۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ نہیں صاحب قوم تو جاگ رہی ہے، البتہ حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی ہے، لاقانونیت ہے، دہشت گردی ہے لیکن حکمرانوں کی نیند نہیں ٹوٹ رہی۔ ایک اور فریق کا کہنا ہے کہ حکمران ٹولہ اپنے مفاد کے لیے خوب جاگ رہا ہے، انداز کیجیے کہ پاکستان قرضوں پر چل رہا ہے، آئی ایم ایف اس سے نئی نئی شرطیں منوا رہا ہے لیکن حکمران ٹولے نے اسمبلی میں اپنی تنخواہیں 200 فی صد تک بڑھوالی ہیں، حالانکہ اس میں ارب پتی کھرب پتی لوگ موجود ہیں جنہیں تنخواہ کی ضرورت نہیں۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ اس قرار داد میں پی ٹی آئی نے بھی حکمران ٹولے کا ساتھ دیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو ناانصافی سے نکالنے آئی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے جس نے عوام کو مزید محرومیوں میں مبتلا کردیا ہے۔

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے اس کھیل میں بعض اوقات آدمی کا ضمیر حائل ہوجاتا ہے آپ ضمیر کو آدمی کے اندر کا گھوڑا کہہ سکتے ہیں جو ہنہنانے پر آئے تو آدمی کی زندگی بے زار کرسکتا ہے اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے بیچ دیا جائے۔ پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے مفادات کے عوض ضمیر کا سودا کرکے اس سے نجات حاصل کرلی ہے ورنہ وہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف احتجاج کرکے اور اس کے خلاف ووٹ دے کر عوام کی ترجمانی بھی کرسکتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے رہے تھے، اسے کہتے ہیں

رِند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں استعمال کہتے ہیں جملے میں اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن

اسلام ٹائمز: گریٹا تھن برگ آج کروڑوں نوجوانوں کے لیے امید کی علامت ہیں۔ ان کا پیغام سادہ ہے کہ ’’کوئی بھی شخص اتنا چھوٹا نہیں کہ فرق نہ ڈال سکے۔‘‘ یہی پیغام دنیا کے ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتا ہے جو مایوس ہے کہ وہ تنہا کیا بدل سکتا ہے۔ گریٹا نے عملی طور پر دکھا دیا کہ ایک پندرہ سالہ بچی اکیلی بیٹھ کر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ 

دنیا آج کئی بحرانوں کی زد میں ہے۔ جنگیں، معاشی ابتری، بھوک اور بے روزگاری جیسے مسائل تو ہیں ہی، مگر سب سے بڑا بحران وہ ہے جسے ماہرینِ سائنس اور عالمی ادارے صدی کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں: ماحولیاتی تبدیلی۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، برف کے پہاڑوں کا پگھلنا، سمندروں کا بڑھتا ہوا شور اور جنگلات کی کٹائی نے زمین کو ایک ایسے خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انسانی بقا خطرے میں ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے رہنما کانفرنسوں میں تقریریں تو کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات کم نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ایک کم سن لڑکی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ لڑکی ہے سویڈن کی گریٹا تھن برگ، جو صنفِ نازک کے باوجود ایک مردِ آہن کی مانند ڈٹ کر دنیا کی طاقتوں کو للکارتی ہے۔

گریٹا ٹنٹن ایلینورا ارنمَن تھن برگ ۳ جنوری 2003ء کو اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک فنکار گھرانے سے ہے۔ والدہ ملینا ارنمَن عالمی شہرت یافتہ اوپیرا سنگر ہیں اور والد سوانتے تھن برگ ایک اداکار۔ فنونِ لطیفہ سے جڑے اس گھرانے نے گریٹا کی شخصیت میں اعتماد اور اظہار کی قوت پیدا کی، مگر ان کی اصل پہچان فن نہیں بلکہ ماحولیات سے جڑی فکر بنی۔ گریٹا صرف آٹھ برس کی تھیں جب انہوں نے اسکول میں گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پڑھا۔ وہ کئی دن اس سوچ میں گم رہیں کہ اگر دنیا اسی طرح تباہ ہوتی رہی تو مستقبل کی نسلوں کا کیا ہوگا۔ یہ سوال ان کے ذہن میں بیٹھ گیا اور رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔

انہیں ایسپرگر سنڈروم (Asperger Syndrome) لاحق ہے، جو آٹزم اسپیکٹرم کی ایک کیفیت ہے۔ عموماً لوگ اسے کمزوری سمجھتے ہیں، مگر گریٹا اسے اپنی طاقت قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کیفیت انہیں غیر معمولی توجہ اور استقامت عطا کرتی ہے۔ 20018ء میں گریٹا صرف پندرہ سال کی تھیں جب انہوں نے اسکول چھوڑ کر سویڈش پارلیمنٹ کے باہر احتجاج شروع کیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک تختی تھی جس پر لکھا تھا: ’’Skolstrejk för klimatet‘‘ (یعنی: ماحولیاتی تبدیلی کے لیے اسکول سٹرائیک)۔ شروع میں وہ اکیلی تھیں، مگر ان کی خاموش بیٹھک نے میڈیا اور عوام کی توجہ کھینچ لی۔

رفتہ رفتہ یہ احتجاج دنیا بھر میں پھیل گیا۔ لاکھوں طلبہ ہر جمعہ اسکول چھوڑ کر سڑکوں پر نکلنے لگے اور ماحولیات کے تحفظ کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس تحریک کو ’’Fridays for Future‘‘ کا نام ملا۔ گریٹا کی تحریک نے انہیں عالمی رہنما بنا دیا۔ وہ یورپی پارلیمان، ورلڈ اکنامک فورم، اور اقوامِ متحدہ جیسے بڑے فورمز پر مدعو کی گئیں۔ ستمبر 2019ء میں نیویارک میں منعقدہ ’’Climate Action Summit‘‘ میں ان کی تقریر نے دنیا کو ہلا دیا۔ ان کا جملہ ’’How dare you‘‘ آج بھی ماحولیاتی تحریک کا استعارہ ہے۔ گریٹا نے عالمی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ اپنی وقتی آسائشوں کے لیے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو برباد کر رہے ہو۔

2019ء میں ٹائم میگزین نے گریٹا کو ’’Person of the Year‘‘ قرار دیا۔ وہ سب سے کم عمر شخصیت تھیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ ان کی تقاریر کا مجموعہ ’’No One Is Too Small to Make a Difference‘‘ شائع ہوا، جو دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ ان پر دستاویزی فلم ’’I Am Greta‘‘ (2020ء) ریلیز ہوئی، جس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔ جہاں گریٹا کو بے پناہ حمایت ملی، وہیں انہیں سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برازیل کے صدر جائر بولسونارو نے انہیں ’’brat‘‘ کہا، اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان کا مذاق اڑایا لیکن گریٹا نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ کہتی ہیں: ’’میں چاہتی ہوں لوگ مجھے نہیں، بلکہ سچائی کو سنیں۔‘‘

گریٹا نے اپنی آواز صرف ماحولیاتی مسائل تک محدود نہیں رکھی بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کے لیے بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے یوکرین جنگ پر متاثرین کی حمایت کی اور فلسطین میں جاری انسانی بحران پر بھی بارہا احتجاج کیا۔ ان کے مطابق، انسانی بقا اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں۔ اکتوبر 2025ء میں گریٹا تھن برگ ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ وہ ایک بین الاقوامی قافلے ’’Global Sumud Flotilla‘‘ کا حصہ تھیں، جس میں تقریباً 40 کشتیوں پر 500 سے زائد کارکن، وکلاء اور سیاسی رہنما سوار تھے۔ اس قافلے کا مقصد غزہ کی محصور آبادی کے لیے انسانی امداد پہنچانا تھا۔

تاہم اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں ان کشتیوں کو گھیر لیا اور انہیں اشدود بندرگاہ کی طرف موڑنے پر مجبور کیا۔ اس دوران گریٹا سمیت درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا کہ ’’گریٹا اور ان کے ساتھی محفوظ ہیں‘‘ مگر دنیا بھر میں اس کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ گریٹا کی جدوجہد محض ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ وہ ہر اس جدوجہد میں شامل ہوتی ہیں جہاں انسانیت کو دبایا جاتا ہے۔ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ان کی ہمت اور اصول پسندی کو واضح کرتا ہے۔

گریٹا تھن برگ آج کروڑوں نوجوانوں کے لیے امید کی علامت ہیں۔ ان کا پیغام سادہ ہے: ’’کوئی بھی شخص اتنا چھوٹا نہیں کہ فرق نہ ڈال سکے۔‘‘ یہی پیغام دنیا کے ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتا ہے جو مایوس ہے کہ وہ تنہا کیا بدل سکتا ہے۔ گریٹا نے عملی طور پر دکھا دیا کہ ایک پندرہ سالہ بچی اکیلی بیٹھ کر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔ گریٹا تھن برگ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک ہیں۔

گریٹا تھن برگ صنفِ نازک میں مردِ آہن ہیں، جو اپنے عزم اور استقامت سے دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں کو للکارتی ہیں۔ چاہے ماحولیات کا مسئلہ ہو یا فلسطین کے مظلوم عوام کا درد، گریٹا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سچائی اور حوصلہ سب سے بڑی طاقت ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل طاقت دولت، اسلحہ یا حکومت میں نہیں، بلکہ اصول پسندی اور جرات میں ہے۔ آج اگر دنیا کو بچانا ہے تو ہمیں گریٹا کی طرح سچ بولنے اور عمل کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • سب سے مل آؤ مگر…
  • سوناایک ہفتے میں فی تولہ 12 ہزار روپے سے زائد مہنگا
  • سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، قیمتوں میں آج بھی بڑا اضافہ
  • سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، نرخ میں آج بھی بڑا اضافہ
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
  • عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت مستحکم
  • ملک میں فی تولہ سونا ہزاروں روپے اضافے کے بعد 2500 روپے سستا ہوگیا
  • مسلسل اضافے کے بعد پاکستان میں سونے کی قیمت میں نمایاں کمی