Nai Baat:
2025-04-29@00:43:34 GMT

پنجاب میں بڑھتے جرائم

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پنجاب میں بڑھتے جرائم

جس معاشرے میں قانون کا دفاع کرنے والے خود قاتل، ڈکیت، چور اور ڈاکو بن جائیں تو پھر وہ معاشرے جرائم کی دنیا کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان بھر میں جرائم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ پنجاب میں معاملات بجائے سدھرنے کے بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خاص کر سوشل میڈیا نے پنجاب پولیس کے پورے نظام کو ننگا کر دیا ہے۔ فکر انگیز بات ہے کہ بہت سے بڑھتے جرائم میں پولیس خود ملوث ہے، پنجاب پولیس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی اس کی بری کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے۔ انہوں نے پنجاب میں بڑھتے کرائم پر آئی جی پنجاب سمیت اعلیٰ افسران کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پولیس کا قبلہ درست کریں اور نمبر گیم کی بجائے کارکردگی پر زور دیا جائے۔ انہوں نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا آپ کا نظام ہے کہ حوالات میں ملزموں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور ملزمان بھاگ جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ شہریوں کو سرعام لوٹا اور مارا جا رہا ہے لہٰذا اس سلسلے کو فوراً روکا جائے۔

شکر الحمدللہ سی ایم صاحبہ نے بھی نوٹس لیتے ہوئے پولیس والوں کو آئینہ دکھا دیا۔ ہمارے نزدیک بجائے پولیس کی وردی میں ملبوس پولیس عوام کی چوکیداری کرے، ان کو تحفظ دے، ان کی جان و مال کی حفاظت کرے اور بڑھتے کرائم کو کنٹرول کرے، وہ خود کرائم کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔ لگتا ہے وزیراعلیٰ مریم نواز کو ایک گرینڈ آپریشن کرنا ہوگا تاکہ موجودہ نظام پولیس میں بہت سی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر اس کے اندر صفائی کی جاسکے۔

سی ایم صاحبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کا عوام کے ساتھ موجودہ طرزعمل کسی طرح قبول نہیں۔ میرے نزدیک تو خود آئی جی پنجاب کی اپنی کارکردگی پر بڑا سوال اٹھ گیا ہے جو یہ بات کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ پنجاب پولیس دوسرے صوبوں سے بہتر ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بہرحال ویسا ضرور ہے جس کا اظہار مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا۔ اگر پولیس کی کارکردگی شاندار ہوتی تو پھر آج شہر لاہور کے علاوہ پنجاب میں ظلمت اور درندگی کے رجحانات میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور 100سپیڈ کی رفتار سے صوبے میں کرائم بے قابو ہو گیا ہے۔ خاص کر آئے روز معصوم کلیوں کو پھول بننے سے پہلے ہی مسلنے کے واقعات سے لے کر کچے کے ڈاکوئوں اور شہر لاہور میں بڑھتے سٹریٹ کرائم نے خوفناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ پنجاب بھر میں نہ قانون، نہ اس کے رکھوالے، نہ وکیل اور نہ منصف، مجبور عدالتیں اور ان کی دی تاریخیں جگہ جگہ قتل عام، مظلوموں کے ساتھ بے انصافیاں، میڈیا پر جھوٹ کے اوپر جھوٹ اور جھوٹے دعوے بعض کرائم کی نہ تردید نہ تصدیق اب لگتا ہے کہ قوم کو ڈاکوں اور چوری میں الجھا دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو پورے قانون کے نظام میں فرشتوں سے نہیں انہی اچھے افراد سے انتخاب ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے قانون بنانے اور توڑنے والے بھی یہی منتخب لوگ ہیں تو پھر ان سے انصاف اور قانون پر عملدرآمد کی توقع کرنا بے سود ہے۔ آئے روز تھوک کے حساب سے کرائم کی خبریں روزانہ کا معمول بن گئی ہیں اور انسانیت سوز واقعات میں ہوشربا اضافہ ہونا میرے نزدیک جہاں پولیس کے موجودہ نظام پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے وہاں ہم انسانی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگتا دیکھ رہے ہیں۔ آج شاید عوام ڈاکوں سے اتنے نہیں ڈرتے جتنے پولیس اور اس کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ پولیس کی موجودگی میں کرائم بجائے ختم ہونے کی بجائے خوف پھیل رہا ہے۔ گزشتہ روز شرقپور میں سفاک درندوں نے ایک معصوم کلی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے آنے والے کل کو اندھیروں میں غرق کر دیا۔ اس طرح کے واقعات نے ایک خوف پیدا کر رکھا ہے اور پولیس اس وقت متحرک ہوتی ہے جب ملزمان اس کی پہنچ سے دور جا چکے ہوتے ہیں کہ تباہی اس میں ہماری پولیس کے بنائے غلط سسٹم کا بڑا ہاتھ ہے۔ اول تو وہ ملزم تک پہنچ نہیں پاتے۔ اگر پکڑ لے جاتے ہیں تو عدالتیں ان کو ضمانت دے کر ان کا مزید حوصلہ بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اس پوری گفتگو میں سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ہم نے اچھی پولیس کا انتخاب کرنا بند کر دیا ہے یعنی اچھی پولیس نہ اس کی اچھی کارکردگی نظرآ رہی اور ان کی ذمہ داریاں اور نہ ان کی طرف سے زندگی کو تحفظ دینے کے اقدامات نظر آئے۔ میرے نزدیک عوام اور پولیس کے درمیان بہت فاصلے بڑھ چکے ہیں اور عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ آپ نے ماڈل تھانے تو بنا دیئے مگر ماڈل پولیس نہ بنا سکے شاید ایسی ہی تباہیاں اور دل ہلا دینے والے منظر ہم صبح سے رات گئے تک ٹی وی چینلز پر دیکھ کر پریشان ہیں، یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ آئے روز مائوں کی گود کو اجاڑا جائے اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی کہ وہ اس کو اچھال رہا ہے۔ مریم نواز کے بیان کے بعد شدت کے ساتھ یہ بات سوچ رہا ہوںکہ ہماری جیتی جاگتی زندگی ماند کیوں پڑگئی، رشتہ داریاں اور وابستگیاں اب خوف میں کیوں بدل گئیں۔ شاید ہم قانون کے ہوتے ہوئے بھی تحفظ میں محسوس نہیں کرتے کہ قانون شہریوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ جب رشوت، کرپشن اور سیاسی تعلقات کے سائے میں پولیس سسٹم بنے گا تو پھر کاہے کے گلے شکوے… عوام تو پہلے ہی لٹتے رہے ہیں،لٹ رہے ہیںاور آگے بھی لٹتے رہے گے۔

پولیس کے لاقانونیت کے اس ماحول میں آج قائداعظمؒ کی روح ہم سب سے کچھ مانگ رہی ہے کہ پاکستان کی خاطر قربانیاں دینے والی قوم پریشان حال ہے۔ بجائے پولیس کا نظام چلانے والے اپنے اندر کی خامیوں کو تلاش کریں۔ افسران کے درمیان بھی ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ اب معیار کی بجائے تعداد پر توجہ صرف ہو رہی ہے۔ دیکھنے کو تو بہت فوٹو شوٹس مگر عمل میں صفر پلس صفر… میرے نزدیک الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا یعنی کرائم کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی بھی یہاں پر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا اور تو اور سوشل میڈیا پر کرائم کی غلط خبر کو بھی جس طرح ٹویٹ کیا جاتا ہے اور اس خبر کو الیکٹرانک میڈ یا بغیر تحقیق کے مزید سنسنی پھیلا دیتا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں، بعض اوقات ایک معمولی واقعہ کو اس قدر بڑھ چڑھ کر بیان کیا جاتا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔

میڈیا پر پھیلائے جانے والا جرائم اور اس کا طرزعمل اور وتیرہ عوام کو خطرناک حدود میں لے چکا ہے۔ اس کو روکنا بھی بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اگر اس سلسلے کو ابھی سے نہ روکا گیا اور شہروں میں بڑھتے کرائم کو مزید کھلی چھٹی دیدی گئی تو پھر دیانتدار اور بااصول پولیس افسران پر انگلیاں تو اٹھیں گی اور میری وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اولین فرصت میں صوبے میں بڑھتے کرائم کو روکنے کے لئے پولیس کے اندر بے دریغ کالی بھیڑوں کو باہر نکالیں جو بڑھتے کرائم کے ذمہ دار ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ جس طرح وہ صوبے کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے لئے تیز رفتاری سے گامزن ہیں وہاں وہ عوام کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے عمل کو بھی تیز کریں گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بڑھتے کرائم میرے نزدیک سوشل میڈیا میں بڑھتے مریم نواز پولیس کے پولیس کا پولیس کی نے والے کے ساتھ رہے ہیں رہا ہے ہے اور تو پھر گیا ہے کر دیا

پڑھیں:

لاہور کے لیے بڑا اعزاز، عالمی ایجنسی نے گلوبل 249 شہروں میں سب سے زیادہ محفوظ قرار دے دیا

کرائم اینڈسیفٹی انڈیکس  2025 نے اپنی جاری کردہ رپورٹ  میں لاہور کو گلوبل 249 شہروں میں سب سے زیادہ محفوظ قرار دیا ہے۔

مستند عالمی ایجنسی نمبیو کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے کرائم انڈیکس میں واضح کمی رپورٹ ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق عالمی کرائم انڈیکس میں لاہور کا 37 واں، محفوظ شہروں میں 63 واں نمبر ہے۔

عالمی ایجنسی رپورٹ نے کہا کہ کرائم فائٹنگ کی بہترحکمت عملی کی بدولت لاہور محفوظ شہروں میں سرفہرست ہے۔

عالمی ایجنسی اپنی رپورٹ میں کہا کہ لاہور کی تاریخ میں پہلی بار کرائم میں واضح کمی آئی ہے، لاہور نیو یارک، لندن، واشنگٹن، برلن، استنبول، پیرس سے ذیادہ محفوظ ہے۔ 

اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں لاہور میں جرائم کی شرح میں واضح کمی واقع ہوئی ہے، اپریل سے اپریل 24-2023 میں 67585 جبکہ 25-24 میں 34091 جرائم رپورٹ ہوئے،  ڈکیتی قتل میں 64 فیصد، ڈکیتی میں 55 فی صد کمی واقع ہوئی۔

اعداد و شمار کے مطابق موٹرسائیکل چوری میں 33، چھیننے میں 42 فی صد کمی واقع ہوئی،  کار چوری میں 33 فی صد، دیگر گاڑیوں کی چوری میں 39 فی صد کمی واقع ہوئی،  محکمانہ احتساب میں 400 سے زائد افسران و اہلکاروں کو سزائیں دی گئیں، جرائم ثابت ہونے پر 4 ایس ایچ اوز تک کو انہی کے تھانوں میں بند کیا گیا۔

ڈی آئی جی آپریشنز  فیصل کامران نے کہا کہ ڈیٹا اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے کرائم ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی کی، کرائم پاکٹس میں ہیومین ریسورس اور وسائل میں اضافہ کیا گیا، اشتہاری، مفرور و عادی مجرمان کو جیلوں میں ڈالا گیا، میرٹ پر تعیناتیاں عمل میں لا کر نوجوان افسران کو موقع دیا گیا۔

ڈی آئی جی آپریشنز نے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر کے بہت سے چیلنجز کے باوجود کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے، سیاسی حمایت اور عدم دباؤ کی بدولت کھل کر پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد کا موقع ملا، مستقبل کا ہدف واضح ہے، لاہور کو عالمی سطح پر محفوظ ترین بنانا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی میں اختلافات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، شیر افضل مروت
  • لاہور کے لیے بڑا اعزاز، عالمی ایجنسی نے گلوبل 249 شہروں میں سب سے زیادہ محفوظ قرار دے دیا
  • ماہ رنگ بلوچ کی حمایت میں پوسٹیں کرنے پر اسلام آباد کی وکیل کے خلاف مقدمہ
  • مصری وزیر خارجہ کا ایرانی عوام کیساتھ اظہار یکجہتی
  • پنجاب حکومت کا ڈی این اے کیلئے مرکزی ڈیٹا بیس بنانے کا فیصلہ
  • پنجاب میں اسپتالوں کی نجکاری غریب عوام کے ساتھ دھوکہ ہے، حافظ نعیم
  • پنجاب پولیس کی بڑی کارروائی: 24 گھنٹوں میں 66 جرائم پیشہ افراد گرفتار
  • ملزمان کی بروقت شناخت کیلئے ڈی این اے کا مرکزی ڈیٹا بیس بنانے کا فیصلہ
  • گرمی بڑھتے ہی ٹھنڈے مشروبات کی مانگ میں اضافہ
  • پولیس اور عوام