ٹرمپ کے مشیر کا تارکین وطن کی جبری بیدخلی پر ہالی ووڈ اداکارہ کو بے رحمانہ جواب
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
امریکا سے ہنگامی بنیادوں پر تارکینِ وطنوں کی جبری بیدخلی، گرفتاریوں اور چھاپوں پر روتے ہوئے ویڈیو بیان ریکارڈ کروانے والی اداکارہ سلینا گومز کو ٹرمپ حکومت کا جواب سامنے آگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن کے مشیر نے سلینا گومز کی ویڈیو پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جذباتی ویڈیوز سے حقیقت کو نہیں بدلا جا سکتا۔
ٹرمپ کے مشیر نے مزید کہا کہ اس امیگریشن پالیسی پر کسی کو معافی نہیں مل سکتی۔ سب کے ساتھ ایک سا سلوک ہوگا۔
مشیر برائے امیگریشن نے کہا کہ یہ کارروائیاں امریکا کی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں : ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی پر سلینا گومز پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم یہ ذمہ داری پوری کریں گے چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔
یاد رہے کہ امریکی گلوکارہ اور اداکارہ سلینا گومز نے ویڈیو بیان میں روتے ہوئے کہا تھا کہ یہ چھاپے خاندانوں کو تقسیم کر رہے ہیں اور بہتر زندگی کا خواب لیے امریکا آنے والے ہزاروں افراد مایوسی کا شکار ہیں۔
سلینا گومز نے مزید کہا کہ ہم انسان ہیں، ہمیں محبت اور ہمدردی چاہیے لیکن یہ پالیسیاں تکلیف دہ ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلینا گومز کہا کہ
پڑھیں:
امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔
کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔
اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔