جشن بہار، “چینی سال” سے “گلوبل فیسٹیول” تک،سی ایم جی تبصرہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
بیجنگ:جشن بہار چین میں سب سے قدیم اور سب سے اہم روایتی تہوار ہے۔ 2023 کے آخر میں ، جشن بہار کو اقوام متحدہ کی تعطیل کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ 2024 کے آخر میں ، جشن بہار یونیسکو کی انسانیت کے غیر مادی ثقافتی ورثے کی نمائندہ فہرست میں شامل ہو چکا ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چینی نیا سال اور چینی ثقافت کو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں بہت سے قومی اور بین الاقوامی اداروں نے غیر مادی ثقافتی ورثے کی نمائشوں، پرفارمنسز اور تجرباتی سرگرمیوں کا انعقاد کیا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں نے مل کر چینی نئے سال کی خوشگوار اور پرامن ضیافت کا تجربہ کیا ہے۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے اپنے نئے سال کے پیغام میں کہا ہے کہ غیر مادی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل یہ تہوار ایک عالمگیر رواج بن چکا ہے جو دنیا میں خوشی اور امن کا پیغام پھیلا رہا ہے۔جشن بہار بھی چینی ثقافت کی ایک علامت بن گیا ہے جسے دنیا بھر میں قبول کیا جاتا ہے، تسلیم کیا جاتا ہے اور سراہا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے تقریبا 20 ممالک نے جشن بہار کو عام تعطیل کے طور پر نامزد کیا ہے جس نے جشن بہارکو ایک عالمی ثقافتی تقریب میں تبدیل کر دیا ہے اور تمام ممالک کے عوام کے درمیان افہام و تفہیم اور دوستی میں اضافہ کیا ہے۔
ماہرین کے نزدیک ایک جانب تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جشن بہار کی ثقافت وسیع پیمانے پر جامع اور قابل قبول ہے ، اور اس سے اجاگر ہونے والی اقدار ، جیسے خاندانی ہم آہنگی ، بزرگوں کا احترام اور نوجوانوں کے لئے محبت ، محنت اور بہادری ، تمام ممالک کے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں ، اور انسانیت اور فطرت کے مابین ہم آہنگی کا تصور اور عالمی عظیم مساوات تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسری جانب ، گلوبلائزیشن کی گہری ترقی کے ساتھ ، ممالک کے مابین ثقافتی تبادلے زیادہ سے زیادہ فروغ پا رہے ہیں ، خاص طور پر جدید میڈیا اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی ، جو جشن بہار کی ثقافت کی بین الاقوامی تشہیر کے لئے مزید چینلز اور پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے ، اور “چین کے سال” کو “عالمی تہوار” بننے کے لئے مزید فروغ دیتی ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دنیا بھر جشن بہار جاتا ہے کیا ہے
پڑھیں:
امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) نو جون پیر کے روز کسٹمز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ محصولات کے بعد امریکہ کو بھیجی جانے والی اشیاء میں کمی کے باعث مئی کے مہینے میں چینی برآمدات میں نمو کی شرح تین ماہ کی اپنی کم ترین سطح پر آ گئی۔
مجموعی طور پر چینی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 4.8 فیصد کا اضافہ ہوا، تاہم اپریل میں یہ برآمدات 8.1 فیصد سے کم ہو گئیں اور امریکہ کو چینی برآمدات میں تقریباً 12 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
ٹرمپ اور شی میں فون کال کے بعد تجارتی مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق
چینی برآمدات میں سست روی سے متعلق یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب پیر نوجون ہی کے روز لندن میں امریکی اور چینی حکام کے مابین تجارتی مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
(جاری ہے)
مئی میں چین نے امریکہ کو 28.8 بلین ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کی، جو اپریل میں 33 بلین ڈالر کی برآمدات سے واضح طور پر کم تھیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مارچ اور اپریل میں مضبوط تجارتی اعداد و شمار کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ متوقع ٹیرفس میں اضافے سے قبل برآمد کنندگان کی طرف سے زیادہ سے زیادہ سامنے امریکہ بھیجنے کی کوشش کی گئی ہو گی۔
شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟
اسی دوران چین میں امریکی درآمدات میں بھی 7.4 فیصد کی کمی دیکھی گئی، اور ان کی مالیت کم ہو کر 10.8 بلین ڈالر رہ گئی۔
ٹرمپ اور شی کے مابین فون کال کا اثرگزشتہ جمعرات کے روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ’’بہت اچھی فون کال‘‘ پر بات چیت ہوئی تھی، جس کا نتیجہ ’’دونوں ممالک کے لیے بہت ہی مثبت نکلنے کی توقع‘‘ تھی۔
فون پر یہ بات چیت 90 دنوں کے لیے ٹیرفس میں توقف کے تناظر میں ہوئی، جسے گزشتہ ماہ نافذ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اضافی محصولات کے نفاذ سے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین تجارت کے بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔چین نے ہانگ کانگ میں عالمی ثالثی ادارہ قائم کر دیا
امریکی صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے آغاز کے لیے 90 دنوں تک چینی مصنوعات پر اپنی طرف سے عائد کردہ 145 فیصد محصولات کو کم کر کے 30 فیصد کر دیا تھا، جب کہ چین نے بھی امریکی اشیاء پر درآمدی ٹیکس 125 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا ہے۔
چین کی اقتصادی بحالی کے لیے اقدامچین اور امریکہ کے درمیان تجارتی مذاکرات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں، جب امریکی پالیسی سازوں نے ہائی ٹیک، دفاع اور صاف توانائی کے شعبوں میں کام آنے والی نایاب اور قیمتی معدنیات سمیت دیگر اشیاء کی برآمد کے لیے چین کی جانب سے برآمدی لائسنس کی منظوری نہ دیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ٹرمپ کی ’گولڈن ڈوم‘ میزائل شیلڈ کیا، اس پر تنقید کیوں؟
چین کے سرکاری اعداد و شمار نے پروڈیوسر پرائس انڈکس میں بھی کمی ظاہر کی ہے، جبکہ صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے۔
اس دوران اقتصادی دھچکے کو کم کرنے کے لیے بیجنگ نے مئی میں بعض فعال اقدامات متعارف کرائے تھے، جن میں شرح سود میں کمی بھی شامل ہے۔
ادارت: مقبول ملک