سندھ ہائیکورٹ کے 12 نئے ایڈیشنل ججز نے عہدے کا حلف اٹھالیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے سندھ ہائیکورٹ کے 12 نئے ایڈیشنل ججز سے عہدے کا حلف لے لیا۔ تقریب حلف برداری میں ججز کی فیملی، بار کے عہدیداران سمیت وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے 12 نئے ججز کی حلف برداری کی تقریب کا انعقاد سندھ ہائیکورٹ کے کمیٹی روم میں ہوا۔ حلف برداری کی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔ تقریب حلف برداری میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی اور سینئر ہیونی جج جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو بھی
شریک ہوئے۔ تقریب حلف برداری میں ججز کی فیملی، بار کے عہدیداران سمیت وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے نئے ججز سے حلف لیا۔ حلف لینے والے نئے ججز میں جسٹس میراں محمد شاہ، جسٹس تسنیم سلطانہ، جسٹس ریاضت علی سحر، جسٹس محمد حسن اکبر، جسٹس خالد حسین شاہانی، جسٹس عبدالحامد بھرگڑی، سید فیض الحسن شاہ، جسٹس جان علی جونیجو، نثار احمد بھمرو، جسٹس علی حیدر (ادا)، محمد عثمان علی ہادی اور محمد جعفر رضا شامل ہیں۔نئے ججز کے حلف اٹھانے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ ہائیکورٹ کے حلف برداری ججز کی
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کردی
—فائل فوٹوسندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کر دی۔
سندھ پبلک سروس کمیشن کے افسران کے خلاف نیب انکوائری کے کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے نیب انکوائری کے خلاف سندھ پبلک سروس کمیشن کی درخواست منظور کر لی۔
جسٹس ذوالفقارعلی سانگی نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا، نیب امتحانات سے متعلق انکوائری نہیں کر سکتا ہے، نیب کو اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات میں بھی کرپشن ثابت کرنا ہوگی۔
دوران سماعت جسٹس ذوالفقارعلی سانگی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کوئی کسی کے خلاف شکایت کرتا ہے تو نیب کیا پورے پاکستان کے خلاف تحقیقات شروع کردے گا، قانون کے مطابق امتحانات کی مارک شیٹس کو تحفظ حاصل ہے نیب جانچ پڑتال نہیں کر سکتا۔
نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب وزیراعظم کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ قانون کے مطابق وزیر اعظم اور صدر پاکستان کو قانون تحفظ دیتا ہے۔
عدالت کی جانب سے تفتیشی افسر سے سوال کیا گیا کہ 6 سال میں نیب نے ملزمان کے خلاف کیا مواد اکٹھا کیا ہے؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ مجھے جنوری 2025ء میں انکوائری ملی ہے، وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں وقت لگتا ہے، ملزمان کو تحقیقات کے لیے نوٹس بھیجا تو وہ عدالت آگئے۔
جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے کہا کہ سپریم کورٹ ملزمان کے خلاف انکوائری بند کر چکی ہے، نیب تحقیقات نہیں کرسکتا۔ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا 10، 10 سال کیس کی تحقیقات میں لگ جائیں۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب کے ایک ایک تفتیشی افسر کے پاس 20، 20 انکوائریاں ہیں، تحقیقات میں وقت لگتا ہے۔
جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے کہا کہ جس نے سندھ پبلک سروس کمیشن افسران کے خلاف شکایت کی اس کے نہ تو شناختی کارڈ کی کاپی لی نہ حلف نامہ لیا۔
واضح رہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن و دیگرنے نیب انکوائری کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔