Daily Ausaf:
2025-09-18@10:14:39 GMT

غزہ کی تباہی، مظالم، انصاف اور بحالی کے چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

فلسطینی نژاد ڈاکٹرخالدکے مسلسل اصرارکے بعد جب اس کے گھرپہنچاتوعجیب ایک روحانی اور رومانوی مناظرنے مجھے مسحورکردیا۔یوں محسوس ہواکہ کمرے کی تمام دیواروں پرشہداء کے متعلق قرآنی کیلی گرافی کی شاہکارتصاویرمیرامحاسبہ کررہی ہیں۔ خالد عرصہ درازسے لندن میں مقیم ہے۔10سال کے بعدپہلی مرتبہ اس کی اہلیہ اورتین بچے جونہی غزہ پہنچے تودو دن کے بعد غزہ،جنگ کے شعلوں میں بے دریغ انسانوں کی مقتل گاہ بن گیااورڈاکٹرخالدآج تنہابڑے تفاخر سے اپنے میزپرپڑی تصاویرالبم کے ہرصفحے پر مسکراتے شہداچہروں کا تعارف کراتے ہوئے کہتاہے کہ یہ سب اکٹھے اللہ کے ہاں رزق پارہے ہیں اورمیراانتظارکر رہے ہیں۔اپنے بڑے بیٹے اوربیٹی کی تصویرکودیکھ کراپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے اور کپکپاتے ہونٹوں سے گویا ہواکہ یہ میرے رب کی امانت تھے،اسی کولوٹادیاہے اوریقینا میری راہِ آخرت کے کانٹے ہٹانے کاکام کررہے ہیں ۔
غزہ میں حالیہ جنگ بندی کاذکراوروہاں کے مکینوں کی واپسی کاموضوع شروع ہواتودل تھامنامشکل ہوگیا۔خالدنے ٹی وی اسکرین پرکچھ تازہ ویڈیوکلپ چلانے شروع کردیئے جس میں غزہ کے ملبوں کے ڈھیروں پرلوگ دیوانہ واراپنوں کوڈھونڈرہے ہیں۔ کہیں کسی بچے کارنگ برنگاسکول بیگ پڑاہے،کہیں جوتا،کہیں لوہے کا گلدان ،کہیں بیڈیاکرسی کے ٹکڑے،کہیں ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں، کہیں پانی کے گلاس کے ٹکڑے اورکہیں کٹے پھٹے کپڑے اورکہیں انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں۔ہاں تمام چیزیں گڈمڈ نظرآتی ہیں۔
یہ مٹی سے اٹی ہوئی اشیاغزہ میں اکثر ’’پیاروں کی نشانیوں‘‘ کے طورپردیکھی جارہی ہیں اورانہیں دیکھ کراندازہ لگایاجاتاہے کہ یہ چیزیں جن افرادکے زیر ِاستعمال تھیں ان کی لاشیں کہیں قریب ہی ملبے تلے دبی ہوسکتی ہیں۔قابض اسرائیلی فورسزکے رفح سے دفع ہونے کے بعدسینکڑوں لاشیں گھروں کے ملبے تلے دبی ہوئی ملی ہیں۔فلسطینی حکامِ صحت کااندازہ ہے کہ وہاں10 ہزارلوگ تاحال لاپتاہیں۔ایمرجنسی ٹیمیوں کواکثر کپڑے یادیگراشیاء دیکھ کرملبے تلے لاشوں کی موجودگی کاعلم ہوتاہے اورجب یہ نشانیاں نظر نہیں آتیں توپھرلاپتا افراد کے رشتہ داروں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں یا پھر ملبے کے پاس خون اورانسانی باقیات کی بو سونگھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسرائیلی حکومت نے تمام خبررساں غیرملکی اداروں کے غزہ میں داخلے اورآزادانہ رپورٹنگ کرنے پرپابندی عائدکررکھی ہے۔ایسے میں لاپتاافراد کو ڈھونڈنے والے لوگوں کی کہانیاں دنیاتک پہنچانے کے لئے ڈاکٹرخالدسے زیادہ مستندسہاراکہاں سے لاؤں۔
غزہ اوراسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ کے بعدجومناظرسامنے آئے،وہ دل دہلادینے والے اور انسانی ضمیرکوجھنجھوڑنے والے ہیں۔جنگ کے دوران ہونے والے جانی ومالی نقصانات کے بعد،غزہ کے مکینوں کی اپنے گھروں کوواپسی کامنظرنہایت تکلیف دہ تھا۔ اجڑے ہوئے مکان،ملبے کے ڈھیر،اورپیاروں کی ناقابل شناخت لاشیں غزہ کے باسیوں کے لئے ایک ایسی حقیقت بن چکی ہیں جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
غزہ کی گلیاں اورمحلے اس وقت ایک کھنڈرکی صورت اختیارکرچکے ہیں۔جب لوگ جنگ بندی کے بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹے توانہیں ایسی تباہی کا سامناکرناپڑاجوانسانی تصور سے بالاترتھی۔کئی خاندان اپنے پیاروں کوکھوچکے ہیں،اورکچھ تواپنے پیاروں کی لاشوں کوبھی شناخت کرنے سے قاصرہیں۔ایسے مناظر، جہاں بھوکے کتوں کوانسانی لاشوں کو کھاتے دیکھاگیا، انسانیت کی بے بسی اورظلم کی انتہاکی عکاسی کرتے ہیں۔
مقامی افرادبہت محتاط اندازمیں ملبے ہٹا رہے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اس مٹی اورپتھروں کے ڈھیرکے نیچے وہ’’انسانیت کے پرخچے‘‘ڈھونڈرہے ہیں۔ اکثر انہیں ملبے کے نیچے سے ہڈیوں کے ڈھیرکے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے یہاں اکثرشہداکے جسم بھی متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے تھے۔یہاں ملنے والی ہڈیوں اورکپڑوں کے ٹکڑوں کوکفن میں لپیٹ کررکھا جاتاہے اورایک سفیدریش بزرگ ان کفن نماتھیلوں پر ’’ناقابلِ شناخت‘‘کالیبل لگارہے ہیں۔
غزہ کے ایک رہائشی جنگ بندی کے بعدجب اپنے گھرلوٹے توانہیں اندرایک ڈھانچہ ملاجس کی کھوپڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ان کے خیال میں یہ لاش وہاں تقریباً 6مہینوں سے پڑی ہوئی تھی۔لاش کودیکھ کر پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہہ رہاہے کہ’’ہم انسان ہیں اورجذبات رکھتے ہیں۔میں آپ کوبتانہیں سکتاکہ یہ کتنابے بس کردینے والاالمیہ ہے۔یہ لاشیں خوفناک ہیں،ہم دہشت کواپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔میں قسم کھاکرکہتاہوں کہ یہ ایک دردناک احساس ہے اورمیں اس سب کومحسوس کرکے اس لئے روتاہوں کہ مجھے ان کے ساتھ گزرے ہوئے زندگی کے50سال یادآرہے ہیں اوریہ تمام نوخیزکلیاں بہارآنے سے پہلے مسل دی گئیں‘‘۔
رفح کے ہسپتالوں میں بھی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جواکثراپنے اہلخانہ کی لاشوں کی باقیات وصول کرنے آتے ہیں۔ جنوبی غزہ کے یورپین ہسپتال کے صحن میں کپڑوں کے تھیلوں میں ہڈیوں کا مجموعہ اورکپڑے رکھے ہوئے ہیں۔19سالہ عبدالسلام رفح کے رہائشی تھے۔ان کے چچاذکی کے مطابق وہ شبورا کے علاقے میں لاپتہ ہوئے تھے اوریہ وہ مقام تھا جہاں دورانِ جنگ زندہ بچنابہت مشکل تھا۔اسی لیے ہم عبدالسلام کووہاں ڈھونڈنے نہیں گئے کیونکہ پھروہاں سے ہم زندہ واپس نہیں آسکتے تھے۔ان کے سامنے پڑی ہڈیاں اورکپڑے لاپتہ ہونے والے عبدالسلام کے ہیں۔وہ یہاں ہسپتال کے ایک کارکن کے ساتھ کھڑے عبدالسلام کے بھائی کاانتظارکررہے ہیں۔ہمیں99 فیصدیقین ہے کہ یہ لاش عبدالسلام کی ہی ہے لیکن ہم پھربھی حتمی تصدیق کے لئے ان کے بھائی کے منتظرہیں کیونکہ وہ ان کے سب سے قریبی عزیزہیں اوروہ حتمی طورپربتاسکیں گے کہ یہ جوتے اور پینٹ ان کے بھائی کے ہیں‘‘۔
پھرجنوبی غزہ میں ہی واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں رہائش پزیرعبدالسلام کے بھائی ہسپتال پہنچ گئے۔ان کے موبائل میں اپنے لاپتہ بھائی کی ایک تصویرتھی جس میں ان کے جوتے بھی نظرآرہے تھے۔وہ وہاں موجودلاش کے سامنے جھک گئے اور اس پرسے پردہ ہٹایا۔انہوں نے کھوپڑی اورکپڑوں کوچھوااور پھر جوتوں کو دیکھا۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اوربھائی کے جوتوں کو بوسہ دیتے ہی ایک اورلاش کاشناختی عمل مکمل ہو چکا تھا۔یہاں ہی موجودایک اورخاندان کفن نماتھیلوں کوٹٹول رہاتھا۔ان میں ایک بوڑھی دادی تھیں،ایک بیٹاتھا،ایک بیٹی تھی اورایک شیرخواربچہ،باقی خاندان کے دودرجن افراکے آنکھوں کے سامنے پرخچے اڑتے ہوئے دیکھ کر ضعیف وناتواں دادی ان بچوں کے ساتھ کھڑی آسمان کی طرف منہ کرکے نجانے کیا باتیں کررہی تھی
اس گروہ میں بچے کوسب سے پیچھے رکھا گیاتھااوربزرگ خاتون اوران کاپوتاایک کفن نماتھیلے کو دیکھ رہے تھے۔وہ اس تھیلے کوکچھ لمحوں تک دیکھتے رہے اورپھردکھ میں ایک دوسرے کے گلے لگ کررونے لگے۔ اس کے بعدہسپتال کے کارکنان کی مدد سے یہ خاندان ایک لاش کی باقیات اپنے ساتھ لے گیا۔ان سب کی سسکیاں سنی جاسکتی تھیں لیکن وہ باآواز بلند نہیں رورہے تھے۔ 13سالہ آیاالدبیح غزہ کے شمال میں اپنے خاندان اوردیگر ہزاروں پناہ گزینوں کے ساتھ ایک سکول میں رہائش پذیرتھی۔وہ اپنے والدین کے نوبچوں میں سے ایک تھی۔اس کے خاندان کے مطابق غزہ میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں آیاسکول کی اوپری منزل پر بنے باتھ روم گئی اوراسے ایک اسرائیلی سنائپرنے سینے پرگولی ماردی۔ تاہم اقوامِ متحدہ کے دفتربرائے انسانی حقوق کے مطابق جنگ کے دوران’’اسرائیلی فوج کی جانب سے گنجان آبادعلاقوں میں شدیدفائرنگ کی جاتی تھی جس کے نتیجے میں یہاں غیر قانونی ہلاکتیں ہوتی تھی جس میں غیرمسلح راہگیربھی شامل ہوتے تھے‘‘۔
آیاکے خاندان نے اسے اسکول کے پاس ہی دفنادیا۔اس کی43سالہ والدہ لیناالدبیح نے اسے ایک کمبل میں لپیٹ دیاتھاتاکہ اگراس کی قبرکے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑکرے تواس کی لاش’’بارش اورسورج کی روشنی سے محفوظ رہ سکے‘‘۔جب اسرائیلی فوج نے سکول کاکنٹرول سنبھالاتولیناالدبیع وہاں سے غزہ کے جنوبی علاقے میں منتقل ہوگئیں۔ان کے پاس اپنی بیٹی کی قبر سے دورجانے کے علاوہ کوئی اورراستہ بھی نہیں تھا، تاہم ان کویہ امیدتھی کہ وہ بعد میں یہاں دوبارہ آکراپنی بیٹی کی باقیات کودوبارہ ڈھونڈیں گی اور باقاعدہ ان کے کفن دفن کاانتظام کریں گی۔لینا الدبیع اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آیاایک بہت مہربان لڑکی تھی،ہرکوئی اس سے محبت کرتاتھااور وہ سب سے محبت کرتی تھی۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے بھائی رہے ہیں کے ساتھ کی لاش کے بعد غزہ کے کے ہیں جنگ کے

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں ہسپتال تباہی کے دہانے پر، ڈبلیو ایچ او کے سربراہ
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟
  • مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
  • بھارتی صحافی رویش کمار کا اپنے ہی اینکر پر وار، ارنب گوسوامی کو دوغلا قرار دیدیا
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • قوانین میں کہیں بھی ہاتھ ملانے کی شرط درج نہیں،بھارتی کرکٹ بورڈ
  • ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے