پاکستانی اداکار نےراکھی ساونت کا دل توڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
راکھی ساونت دل شکستہ ہیں کیونکہ پاکستانی اداکار اور بزنس مین دودی خان نے ان سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جمعرات کی رات، دودی خان نے اپنے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے واضح کیا کہ وہ راکھی کے ساتھ شادی نہیں کریں گے۔ اس ویڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے راکھی نے کمنٹس میں آنسو بھری آنکھوں اور ٹوٹے دل والے ایموجیز چھوڑے۔
دودی خان نے اپنی ویڈیو پیغام میں کہا کہ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر آپ نے میری ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں میں نے راکھی ساونت کو پرپوز کیا تھا۔ میں نے انہیں پرپوز کیا کیونکہ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ جب میں نے انہیں جاننا شروع کیا تو مجھے لگا کہ وہ ایک ایسی ہستی ہے جو خدا سے بہت پیار کرتی ہے۔
انہوں نے راکھی کی تعریف کی اور کہا کہ وہ انہیں بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ راکھی نے اپنی زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کیا ہے، انہوں نے اپنے والدین کو کھویا، ایک مشکل رشتہ گزرا، اسلام قبول کیا، اور عمرہ کے لیے بھی گئیں اور اپنا نام فاطمہ رکھ لیا۔ مجھے یہ بہت پسند آیا اس لیے میں نے انہیں پرپوز کیا۔
دودی خان نے مزید کہا کہ، لیکن، مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ مجھے بہت سارے پیغامات اور ویڈیوز موصول ہوئے ہیں، اور میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ تو، راکھی جی، آپ میرے بہت اچھی دوست ہیں، اور ہمیشہ رہیں گی۔ آپ شاید میری دلہن نہ بن پائیں، لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ پاکستان کی بہو بنیں گی۔ آپ کی شادی اپنے کسی بھائی سے کروا دوں گا۔
راکھی کے مداحوں نے بھی دودی خان کی ویڈیو پر ردعمل دیا اور ان سے سوال کیا کہ انہوں نے راکھی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ایک مداح نے کہا، پہلے بنا سوچے پرپوز کیا تھا، جبکہ دوسرے نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، یہ بہت افسوسناک ہے۔ آپ دونوں کو میڈیا کی پرواہ کیے بغیر شادی کرلینی چاہیےاور خوشگوار زندگی گزارنی چاہیے، کیونکہ لوگ ہمیشہ تنقید کرتے ہیں۔
راکھی ساونت کی شادی پہلے عادل خان درانی سے ہوئی تھی، مگر 2023 میں دونوں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے راکھی نے رتیش راج سنگھ سے بھی شادی کی تھی اور دونوں بگ باس 15 میں شریک ہوئے تھے، لیکن فروری 2022 میں شو کے ختم ہونے کے بعد دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: راکھی ساونت پرپوز کیا انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی