امریکی تفتیش کاروں نے دریائے پوٹومک سے امیریکن ایئر لائنز اور بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز کے ‘بلیک باکس’ برآمد کر لیے ہیں۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی ہیلی کاپٹر سے کچھ ریکارڈنگ ڈیوائسز بھی ملی ہیں جنہیں معائنے کے لیے نیشنل ٹرانسپورٹیشن اینڈ سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کو بھجو ا دیا گیا ہے۔

بدھ کی شب امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے قریب مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان فضا میں تصادم ہوا تھا جس کے بعد ملبہ دریائے پوٹومک میں گر گیا تھا۔ مسافر طیارے میں 64 جب کہ ہیلی کاپٹر میں تین افراد سوار تھے۔

کسی بھی فضائی حادثے کے بعد امدادی کارروائیوں کے دوران جو پہلا کام کیا جاتا ہے وہ عام طور پر ‘بلیک باکس’ کی تلاش ہوتی ہے تاکہ حادثے کی وجوہات کا پتا لگایا جا سکے۔

ایوی ایشن ماہرین کہتے ہیں کہ طیارے کا بلیک باکس ہی حادثے کی درست وجوہات کے تعین میں مدد دے سکتا ہے۔

بلیک باکس ہے کیا؟

ایوی ایشن ایکسپرٹ قاسم قادر کے بقول جہاز کا یہ پرزہ نام کی طرح کالا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ دو حصوں، ڈیجیٹل فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر (ڈی ایف ڈی آر) اور کاک پٹ وائس ریکارڈ (سی وی آر) پر مشتمل ہوتا ہے۔

بلیک باکس کا وزن تقریباً پانچ کلو گرام تک ہوتا ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر عابد راؤ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلے یہ ریکارڈنگ اور ڈیٹا صرف آخری 30 منٹ کی پرواز تک محدود ہوا کرتا تھا۔

لیکن وقت کے ساتھ اس میں بہتری آئی اور اب اس میں زیادہ طویل ریکارڈنگز موجود ہوتی ہیں۔ لہذٰا یہ حادثے کی وجوہات جاننے میں مدد دیتا ہے۔






Photo Gallery:

واشنگٹن طیارہ حادثہ: دریائے پوٹومک میں ریکوری آپریشن

ڈی ایف ڈی آر اور سی وی آر کیا معلومات دیتے ہیں؟

عابد راؤ کا کہنا تھا کہ ڈی ایف ڈی آر اور سی وی آر کی مدد سے ماہرین ایک طرح سے پرواز کے دوران ہر گفتگو اور پائلٹس کے ہر اقدام کا ازسر نو جائزہ لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ تکنیکی تفصیلات درکار ہوتی ہیں جو بلیک باکس فراہم کرتا ہے۔

قاسم قادرکے مطابق فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر میں اس پرواز کی تمام تکنیکی سرگرمیوں کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ یعنی کس موقع پر انجن تھرسٹ کی پوزیشن کیا تھی؟ لینڈنگ گیئر کے استعمال، جہاز کے فلیپس اوپر نیچے کیے جانے تک کی تفصیلات اسی ڈیٹا کا حصہ ہوتی ہیں۔

لیکن ان کے بقول یہ تمام معلومات کوڈ کی شکل میں موجود ہوتی ہیں جن کو ڈی کوڈ کرنا پڑتا ہے اور طیارہ بنانے والی کمپنی ہی اس کوڈ کو ڈی کوڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ماہرین کے بقول کاک پٹ وائس ریکاڈر میں اس گفتگو کی عام ریکارڈنگ ہوتی ہے جو کاک پٹ میں پائلٹس کے درمیان ہوتی ہے یا پھر جو ایئر ٹریفک کنٹرول روم سے کی جا رہی ہوتی ہے۔

کیپٹن قاسم قادر کا کہنا تھا کہ یہ معلومات بہت اہم ہوتی ہیں کیوں کہ ان سے نہ صرف حادثے سے پہلے کی صورتِ حال کا پتا چلتا ہے۔ بلکہ اس گفتگو میں طیارے کو اس سے قبل پیش آنے والے تکنیکی مسائل کی بھی تفصیل ہوتی ہے۔ جو لامحالہ تحقیقات میں مددگار ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیک باکس میں پرواز کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات بھی ہوتی ہیں۔

سی وی آر ہو یا ڈی ایف ڈی آر، دونوں کی مدد سے ماہرین ان وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے حادثہ پیش آتا ہے۔

بلیک باکس تباہ کیوں نہیں ہوتا؟

یہ ایک عام سوال ہے جو اکثر افراد کرتے ہیں کہ اتنی تباہی اور جانوں کے ضائع ہو جانے کے بعد بھی صرف یہی معلومات کیسے محفوظ رہتی ہیں؟

اس کا جواب دیتے ہوئے کیپٹن قاسم نے بتایا کہ اس باکس کی ساخت طیارےسے بالکل مختلف ہوتی ہے یہ آگ اور شدید دباؤ کو سہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن کیپٹن قاسم نے بتایا کہ طیارہ زیادہ بلندی سے زمین پر گرا ہو تو معلومات ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ امیریکن ایئر لائنز کا طیارہ نچلی پرواز کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا تو غالب امکان ہے کہ تمام ڈیٹا محفوظ ہو گا۔

کیپٹن قاسم نے بتایا کہ ماضی میں ایسے کئی حادثے پیش آ چکے ہیں جن میں بلیک باکس نہیں مل سکا۔ اس لیے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پرزہ ہمیشہ ہی مل جاتا ہے۔

کیا طیارے کی ساخت بلیک باکس جتنی مضبوط نہیں ہو سکتی؟

ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کے جواب میں کیپٹن قاسم نے کہا کہ طیارے کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد اس بلیک باکس کے مقابلے میں کئی درجے کم وزنی ہوتا ہے۔ لہذٰا کسی طور بھی اس کی بناوٹ میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ورنہ طیارہ پرواز ہی نہیں بھر سکے گا۔

عابد راؤ کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ طیارہ سازی میں جدت آ رہی ہے۔ اُن کے بقول 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں طیاروں کے پر آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ وزنی اور ناپائیدار ہوتے تھے۔

آج کل طیارہ ساز کمپنیاں ایسا میٹریل استعمال کرتی ہیں جو مضبوطی کے ساتھ ساتھ ہلکا بھی ہوتا ہے، لہذٰا بلیک باکس کی طرز پر طیارے کی باڈی نہیں بنائی جا سکتی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیک باکس کے ذریعے معلومات کی فراہمی میں کئی روز لگ سکتے ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے بعض معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل کیپٹن قاسم نے ڈی ایف ڈی ا ر بلیک باکس حادثے کی سی وی ا ر بتایا کہ ہوتی ہیں ہوتا ہے کے بقول ہوتی ہے کا کہنا

پڑھیں:

پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی

عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔

یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔

سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے، اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے، اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ 

انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے، نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔

مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے، گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی، پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ 

انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا، اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں، تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔

طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔

انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے، بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔

شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے، مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔

انہوں نے کہا  وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی، جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے، ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا، ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا، میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں، ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔

انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چینی چھوڑنے سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان؟وہ حقائق جو سب کومعلوم نہیں
  • تھائی لینڈ میں فوجی طیارہ گر کر تباہ؛ تمام افسران ہلاک
  • لاہور: بندوق کی نوک پر نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی، ویڈیوز بناکر بلیک میل کرنے والا رشتے دار گرفتار
  • عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب
  • سلمان خان کی فلم سکندر باکس آفس پر سست روی کا شکار
  • چینی فلم ’نیژا 2‘، مشہور زمانہ ’ٹائیٹنک‘ کا ریکارڈ توڑنے کے قریب، 2.18 بلین ڈالرسے زیادہ کا بزنس
  • بھارت اس ریجن کے اندر ایک غنڈے کی طرح برتاؤ کرتا ہے
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • ‘پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے’، بھارتی میڈیا کیسے جنگی ماحول بنارہا ہے؟