لاہور ہائیکورٹ کے 3 جج اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
عدالتی تاریخ میں لاہور ہائیکورٹ سے کتنے ججوں کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ ہوا جو بعد میں چیف جسٹس بنے؟ اس حوالے سے 3مثالیں موجود ہیں۔
فروری 2008ء میں جسٹس سردار اسلم کا لاہور ہائیکورٹ سے تبادلہ ہوا اور چیف جسٹس بنے۔ جسٹس ایم بلال خان 2009 ء میں لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ بطور چیف جسٹس ٹرانسفر ہوئے۔جسٹس اقبال حمید الرحمان کو اٹھارویں ترمیم کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے دوبارہ قیام کے بعد ٹرانسفر کیا گیا اور آرٹیکل 200 کے تحت وہ چیف جسٹس تعینات ہوئے۔
احسان کھوکھر ایڈووکیٹ نے ایکسپریس نیوز کوبتایا آئین کے تحت جج کی پیشگی رضامندی کے بعد صدر، چیف جسٹس اور دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے مابین ضروری ہے۔ جس جج کا ایک ہائیکورٹ سے دوسری میں تبادلہ ہوتا ہے، اس کی سینارٹی، مراعات اور دیگر فوائد میں تبدیلی نہیں آتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ لاہور ہائیکورٹ ہائیکورٹ سے چیف جسٹس
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔