Islam Times:
2025-07-26@15:25:39 GMT

پیرس سے تہران تک

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

پیرس سے تہران تک

اسلام ٹائمز: بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ تحریر: سید تنویر حیدر

یوں تو امام خمینیؒ کی زندگی کا تمام سفر ہی غیر معمولی اور بے نظیر ہے لیکن پیرس سے تہران تک کا ان کا سفر ایسا تھا جس پر دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ امام خمینیؒ یکم  فروری 1979 کو اپنی طویل جلا وطنی ختم کرکے پیرس سے طہران کی طرف عازم سفر ہوئے۔ فرانس سے نکلتے وقت امام خمینیؒ رات کو ”خیابان نوفل لوشاتو“ گئے اور وہاں کے لوگوں کو خدا حافظ کہا اور ان کی زحمات پر ان سے معذرت چاہی۔ آپ نے فرانس کی عوام کے نام بھی ایک پیغام چھوڑا جس میں ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا۔ اسی دوران ایک تنظیم نے ”ایسوسی ایٹڈ پریس“ کے دفتر سے رابطہ کرکے خبرداد کیا کہ اگر آیت اللہ نے پیرس سے تہران جانے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو تباہ کر دیا جائے گا۔ ایئر فرانس، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر امام اور ان کے رفقاء کو تہران منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ تاہم کچھ ایرانیوں نے ایئر فرانس کے پورے طیارے کو کرائے پر لے لیا اور اس کا بیمہ بھی کروا لیا۔ صبح 5:30 بجے ایئر فرانس کے جمبو جیٹ طیارے 747 نے ٹیک آف کیا۔ تقریباً 500 کے قریب پولیس اور اسپیشل فورسز نے ”چارلس ڈی گال ایئر پورٹ“ اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں کی حفاظت کی۔

بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ میں نے سفر کے دوران امام خمینیؒ کی ویڈیو بھی بنائی۔ امام فرسٹ کلاس میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ہمیں نظرانداز کر رہے تھے۔ ایک صحافی نے امام خمینیؒ سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے کے بعد واپس اپنے وطن جاتے ہوئے کیا محسوس کر رہے؟ امام خمینی نے اس کے جواب میں بس اتنا کہا ”ھیچ“ یعنی کچھ بھی نہیں۔

ایرانی فضائیہ ہم پر حملہ کرنے سے تو باز رہی البتہ ہمارا جہاز تہران کے ہوائی اڈے کے اوپر مسلسل چکر لگاتا رہا۔ نیچے موجود حکام کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے جو طول پکڑ گئے۔ جہاز کے دائرے کی شکل میں گھومنے کی وجہ سے ہمارے دل ڈوبے جا رہے تھے۔ بالآخر ہمارا جہاز زمین پر اتر گیا۔ آیت اللہ کے استقبال کے لیے جو ہجوم اکھٹا ہوا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ اس سفر کی منصوبہ بندی فرانس کے ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی جہاں ٹریفک کا جام ہونا اور برف باری کا ہونا بھی ایک خبر بن جاتا ہے۔“ امام خمینیؒ کا طیارہ تقریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر کے ساتھ 9:33 پر تہران کے ہوائی اڈے پر اترا۔ تہران کے ہوائے اڈے سے بہشت زھراء تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم امام خمینیؒ کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ عوام نے امام کی آمد پر سڑکوں پر جھاڑو دیا ہوا تھا اور انہیں پانی سے دھویا ہوا تھا۔ امام کے راستے کو رنگ برنگے پھولوں سے کئی کلو میٹر تک سجایا گیا تھا۔

امام خمینیؒ کے ایئر پورٹ ہال میں داخل ہوتے ہی ایئر پورٹ اللہ اکبر کی صدا سے لرز اٹھا۔ طلباء کے ایک گروہ نے ”خمینی ای امام“ کا ترانہ گاتے ہوئے امام کی آمد کے جوش و خروش کو سامعین کے آنسووں سے جوڑ دیا۔ امام نے ہوائی اڈے پر آنے والی عوام کا شکریہ ادا کیا اور شاہ کی روانگی اور اپنی آمد کو فتح کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔ شاہ پور بختیار کی جانب سے وعدے کے باوجود امام کی آمد کی تقریب کی براہ راست نشریات کو چند منٹوں کے بعد ہی منقطع کر دیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی دباؤ پر گورنر نے تین دن کے لیے مارچ اور مظاہروں کی اجازت دے دی۔ شاہی کونسل کے دوسرے رکن ڈاکٹر علی آبادی کے مستعفی ہونے کی خبر شائع ہوئی۔ یونیورسٹی میں دھرنا دیئے ہوئے علماء نے امام کی آمد کے بعد اپنا حتمی بیان جاری کرکے اپنا دھرنا ختم کردیا۔

توقع سے زیادہ استقبال کو دیکھتے ہوئے آیت اللہ طالقانی اور آیت اللہ بہشتی نے امام خمینیؒ کو بہشت زھرا کا پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا۔ امام نے اطمینان سے پوچھا۔” گاڑی کہاں ہے؟ میں نے بہشت زھرا جانے کا وعدہ کیا ہے۔“ امام کے سفر کے لیے بلیزر کار چند دن قبل ہی تیار کی گئی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ اور اور پچھلی سیٹ کے درمیان بلٹ پروف شیشہ لگایا گیا تھا۔ امام کو جب اس کا علم ہوا تو وہ اگلی سیٹ پر براجمان ہوگئے۔ استقبال کرنے والی کمیٹی نے امام کی حفاظت کے لیے کار کے علاوہ متعدد موٹر سائیکل سوار بھی تیار کئے ہوئے تھے۔ اس گروہ کے سربراہ شہید محمد بروجردی کو بعد میں ”مسیح کردستان“ اور کردستان کا بہادر کمانڈر کا لقب دیا گیا۔ بروجردی اور گروپ کے باقی ارکان رش میں پھنس گئے۔ صرف محمد رضا طالقانی جو بلیرز پر بیٹھے تھے، گاڑی کے ساتھ جا سکے۔ گاڑی ”خیابان رجائی“ کے راستے میں اچانک رک گئی۔ امام نے گاڑی سے اترنے اور بہشت زھراء تک کا باقی رستہ پیدل طے کرنے پر اصرار کیا۔

آخر ہیلی کاپٹر آگیا اور امام اس میں سوار ہوئے۔ امام خمینیؒ دوپہر دو بجے بہشت زھرا کے قطعہء 17 پر پہنچے جہاں 17 شہریور کے شہداء کو دفن کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے قیام کے مقام پر قرآن خوانی کی گئی۔ اس کے بعد ترانہ ”برخیزید ای شہیدان راہ خدا“ گایا گیا۔ بعد ازاں امام کی آواز فضا میں گونجی جس نے حق و حقیقت کے مشتاقان اور شیفتگان کی قلب و روح کو سرشار کر دیا۔ امام کا خطاب 3:30 پر ختم ہوا۔ امام خمینیؒ کو لینے کے لیے آنے والے ہیلی کاپٹر نے تین بار اترنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کے سبب ناکام رہا۔ حاج احمد آغا اور جناب ناطق نوری امام کو تھامے ہوئے ایک آئل کمپنی کی ایمبولینس تک لے گئے۔ ایمبولینس قم کی جانب محو سفر ہوئی۔ ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر ایک مقام پر اترا اور امام اس میں سوار ہوگئے۔ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ ہیلی کاپٹر کو اپنی مرضی کے مقام پر اتارنا چاہتا تھا لیکن اسے ”امام خمینیؒ ہسپتال“ جو انقلاب سے پہلے رضا شاہ پہلوی کے نام سے موسوم تھا، میں اترنے کا مشورہ دیا گیا۔ چنانچہ امام کا ہیلی کاپٹر اس ہسپتال کے احاطے میں اترا۔

امام کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ امام بہشت زھرا سے ”مدرسہء رفاہ“ جائیں گے لیکن امام نے اپنی بھتیجی، آقای پسندیدہ کی بیٹی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ امام رات دس بجے تک وہاں رہے تاکہ راستہ ذرا پر سکون ہو جائے۔ ادھر مدرسہء رفاہ میں سب پریشان تھے۔ کسی کو امام کے بارے میں خبر نہ تھی۔ آخر رات کے آخری پہر کسی نے خبر دی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ہے۔ دروازہ بند تھا۔ دروازہ کھلا اور ” امام آگئے “۔  امام مدرسے میں داخل ہونے کے بعد مدرسے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھے اور سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے۔ اس کے بعد امام خمینیؒ اپنے عقب میں آنے والے ہجوم کی طرف متوجہ ہوئے اور لوگوں سے چند منٹ تک گفتگو کی۔ رات اپنے اختتام کو پہنچی اور ایران کی اگلی صبح اپنے دامن میں ایک ایسا آفتاب لیے ہوئی تھی جو تمام مستضعفین عالم کے لیے ایک صبح نو کا پیغام لایا تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام کی آمد ہیلی کاپٹر طیارے کو میں سوار آیت اللہ امام کے پیرس سے کے لیے کی طرف کے بعد کہ میں کے ایک

پڑھیں:

سوشل میڈیا اور ہم

انگریز نے جب ہندوستان میں اپنے قدم  جما لیے اور حکمران بن  بیٹھا تو چونکہ وہ اپنے دوست اور دیگر رشتے دار پیچھے چھوڑ آیا تھا تو یہ ثابت کرنے کےلیے کہ وہ بھی سماجی حیوان ہے، اس نے ہندوستان میں جم خانے اور کلب بنائے تاکہ وہ اپنے ہم رنگ،  ہم نسل، ہم منصب، ہم نوالہ، ہم پیالہ کے ساتھ وقت گزار سکے اور سماجی سرگرمیاں کرسکے۔ اس کو صرف اپنے لوگوں تک محدود کرنے کےلیے اس نے باہر بورڈ لگوا دیے کہ ’’کتوں اور ہندوستانیوں‘‘ کا داخلہ ممنوع ہے۔

انگریز چلے گئے، قوم آزاد ہوگئی اور جم خانوں اور کلبوں سے بورڈ اتر گئے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بورڈ آج بھی آویزاں ہیں بس نظر نہں آتے۔ کیونکہ آج بھی صرف ایک مخصوص سماجی حیثیت کے لوگ ہی ان جم خانوں اور کلبوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ان کے رشتے دار خاص طور پر وہ جو سماجی حیثیت میں اُن کے ہم پلہ نہ ہوں، اگر وہ ان سے ملنے کے خواستگار ہوں تو یہ انکار کر دیتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں اور کلب جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں نوٹس تو اب بھی موجود ہے لیکن اب وہ مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اس میں سے سماجی نکال دوں تو صرف حیوان رہ جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں اور طریقے متعارف کرائے جاتے رہے۔ موجودہ دور سماجی ذرائع ابلاغ کا ہے، بدقسمتی سے اس سماجی ذرائع ابلاغ نے ملاقات کے معنی بدل دیے ہیں۔ اب ملنا بھی آن لائن ہوگیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ملاقات تو آن لائن ہوجاتی ہے لیکن موت تنہائی یا اکیلے میں ہوتی ہے۔

جس تواتر سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے لگتا ہے کہ قوم جلد ہی اس کو بھی قبول کرلے گی اور ابھی جو تھوڑا بہت اثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور ہم بالکل احساس سے عاری لوگوں کا ہجوم بنے ہوئے تو ہیں ہی بس یہ سب کچھ اور پکا ہوجائے گا۔ جب بھی کوئی نئی چیز یا طریقہ متعارف کرایا گیا تو یہ خیال رکھا گیا کہ نئی چیز یا طریقہ انسان کے تابع ہوں۔ یہ پہلی بار ہے کہ انسان اس سوشل میڈیا کا عادی بلکہ ’’غلام‘‘ بن گیا ہے۔ بے شمار ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ لوگ اس قدر سوشل میڈیا پر منہمک تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے لیکن کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔

ہمارا مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تم اگر کچھ اچھا کھاتے یا پیتے ہو لیکن کسی بھی وجہ سے اسے اپنے ہمسایے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے تو اس کی باقیات کو باہر مت پھینکو کہ تمہارے ہمسایے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ لیکن آج سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی نمائش کی جاتی ہے، جیسے میں پیزا کھا رہا ہوں، میں نے حلوہ پوری کھائی اور دیگر چیزوں میں کہ میں طیران گاہ سے ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہورہا ہوں اور لوگ کھانے کی چیزوں پر yummy اور دیگر چیزوں پر مختلف تاثرات دیتے ہیں۔ ایک اور طریقہ "like" کا ہے جس میں مختلف اشکال بھی ہیں، جیسے دل یا انگوٹھا۔ اگر فیس بک کا بٹن دلی کیفیت بتا سکتا تو دل کے ساتھ ’’چھریاں‘‘ بھی ہوتیں اور ’’انگوٹھے‘‘ کے ساتھ بقایا انگلیاں بھی ہوتیں، باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔

خدا کےلیے ہوش کے ناخن لیجیے۔ یہ موجودہ دور کا فتنہ ہے۔ ہر دور کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور اگر ان فتنوں کا وقت پر سدِباب نہیں  کیا گیا تو یہ قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اور قرآن میں اس قسم  کے واقعات کی بہت مثالیں ہے۔ انتہا تو یہ کہ میں نے مسجد میں داخلے کے (check in) کے پیغامات بھی پڑھے ہیں۔ اگر یہ خدا کےلیے ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں ہے؟ ہمارا تو ایمان ہے کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اگر لوگوں کےلیے ہیں تو پھر اسے دکھاوے کے سوا کیا نام دوں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہر چیز بشمول ہمارے اپنے اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے، تو کہیں اس فیس بک کے چکر میں ہم کہیں فیس دکھانے کہ لائق نہ رہے اور یہ فیس بک والا like نہیں، آگے اپ کی مرضی اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔  

آخر میں ہماری قومی ذہنیت پر ایک کہانی اور اختتام۔

ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے پیزا ڈلیوری والا لڑکا کھڑا تھا۔ گھر کے مکین نے کہا کہ ہم نے تو کوئی پیزا کا آرڈر نہیں دیا ہے۔ پیزا ڈلیوری والے نے کہا کہ معلوم ہے اور یہ کہہ کر پیزا کا ڈبہ کھول کر انھیں پیزا دکھایا اور کہا کہ یہ آپ کے پڑوسیوں کا آرڈر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو دکھا دوں  کیونکہ ان کے یہاں بجلی نہیں ہے اور اس کو فیس بک پر پوسٹ نہ کرسکیں گے۔

آپ پیزا دیکھ کر جل بھن کر کباب بنیں اور چاہے تو پھر وہی جلے بھنے کباب کھا لیجئے گا اور اپنے پڑوسیوں کو پیزا سے لطف اندوز ہونے دیں۔ 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • امام صحافت مجید نظامی کی برسی آج منائی جائے گی
  • سمیع خان نے علیزہ شاہ اور منسا ملک کے جھگڑے کی اصل کہانی بتا دی
  • وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کی زیر صدارت حضرت بری امام سرکارؒ کے سالانہ عرس مبارک کے انتظامات سے متعلق ذیلی کمیٹی کا اجلاس
  • کوئٹہ، امام جمعہ علامہ غلام حسنین وجدانی کی رہائی کیلئے احتجاج
  • لبنانی عسکریت پسند چالیس سال بعد فرانسیسی جیل سے رہا
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • تہران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی ٹیم کے دورہ ایران پر رضامند
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟