Islam Times:
2025-04-26@03:17:18 GMT

پیرس سے تہران تک

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

پیرس سے تہران تک

اسلام ٹائمز: بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ تحریر: سید تنویر حیدر

یوں تو امام خمینیؒ کی زندگی کا تمام سفر ہی غیر معمولی اور بے نظیر ہے لیکن پیرس سے تہران تک کا ان کا سفر ایسا تھا جس پر دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ امام خمینیؒ یکم  فروری 1979 کو اپنی طویل جلا وطنی ختم کرکے پیرس سے طہران کی طرف عازم سفر ہوئے۔ فرانس سے نکلتے وقت امام خمینیؒ رات کو ”خیابان نوفل لوشاتو“ گئے اور وہاں کے لوگوں کو خدا حافظ کہا اور ان کی زحمات پر ان سے معذرت چاہی۔ آپ نے فرانس کی عوام کے نام بھی ایک پیغام چھوڑا جس میں ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا۔ اسی دوران ایک تنظیم نے ”ایسوسی ایٹڈ پریس“ کے دفتر سے رابطہ کرکے خبرداد کیا کہ اگر آیت اللہ نے پیرس سے تہران جانے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو تباہ کر دیا جائے گا۔ ایئر فرانس، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر امام اور ان کے رفقاء کو تہران منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ تاہم کچھ ایرانیوں نے ایئر فرانس کے پورے طیارے کو کرائے پر لے لیا اور اس کا بیمہ بھی کروا لیا۔ صبح 5:30 بجے ایئر فرانس کے جمبو جیٹ طیارے 747 نے ٹیک آف کیا۔ تقریباً 500 کے قریب پولیس اور اسپیشل فورسز نے ”چارلس ڈی گال ایئر پورٹ“ اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں کی حفاظت کی۔

بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ میں نے سفر کے دوران امام خمینیؒ کی ویڈیو بھی بنائی۔ امام فرسٹ کلاس میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ہمیں نظرانداز کر رہے تھے۔ ایک صحافی نے امام خمینیؒ سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے کے بعد واپس اپنے وطن جاتے ہوئے کیا محسوس کر رہے؟ امام خمینی نے اس کے جواب میں بس اتنا کہا ”ھیچ“ یعنی کچھ بھی نہیں۔

ایرانی فضائیہ ہم پر حملہ کرنے سے تو باز رہی البتہ ہمارا جہاز تہران کے ہوائی اڈے کے اوپر مسلسل چکر لگاتا رہا۔ نیچے موجود حکام کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے جو طول پکڑ گئے۔ جہاز کے دائرے کی شکل میں گھومنے کی وجہ سے ہمارے دل ڈوبے جا رہے تھے۔ بالآخر ہمارا جہاز زمین پر اتر گیا۔ آیت اللہ کے استقبال کے لیے جو ہجوم اکھٹا ہوا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ اس سفر کی منصوبہ بندی فرانس کے ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی جہاں ٹریفک کا جام ہونا اور برف باری کا ہونا بھی ایک خبر بن جاتا ہے۔“ امام خمینیؒ کا طیارہ تقریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر کے ساتھ 9:33 پر تہران کے ہوائی اڈے پر اترا۔ تہران کے ہوائے اڈے سے بہشت زھراء تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم امام خمینیؒ کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ عوام نے امام کی آمد پر سڑکوں پر جھاڑو دیا ہوا تھا اور انہیں پانی سے دھویا ہوا تھا۔ امام کے راستے کو رنگ برنگے پھولوں سے کئی کلو میٹر تک سجایا گیا تھا۔

امام خمینیؒ کے ایئر پورٹ ہال میں داخل ہوتے ہی ایئر پورٹ اللہ اکبر کی صدا سے لرز اٹھا۔ طلباء کے ایک گروہ نے ”خمینی ای امام“ کا ترانہ گاتے ہوئے امام کی آمد کے جوش و خروش کو سامعین کے آنسووں سے جوڑ دیا۔ امام نے ہوائی اڈے پر آنے والی عوام کا شکریہ ادا کیا اور شاہ کی روانگی اور اپنی آمد کو فتح کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔ شاہ پور بختیار کی جانب سے وعدے کے باوجود امام کی آمد کی تقریب کی براہ راست نشریات کو چند منٹوں کے بعد ہی منقطع کر دیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی دباؤ پر گورنر نے تین دن کے لیے مارچ اور مظاہروں کی اجازت دے دی۔ شاہی کونسل کے دوسرے رکن ڈاکٹر علی آبادی کے مستعفی ہونے کی خبر شائع ہوئی۔ یونیورسٹی میں دھرنا دیئے ہوئے علماء نے امام کی آمد کے بعد اپنا حتمی بیان جاری کرکے اپنا دھرنا ختم کردیا۔

توقع سے زیادہ استقبال کو دیکھتے ہوئے آیت اللہ طالقانی اور آیت اللہ بہشتی نے امام خمینیؒ کو بہشت زھرا کا پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا۔ امام نے اطمینان سے پوچھا۔” گاڑی کہاں ہے؟ میں نے بہشت زھرا جانے کا وعدہ کیا ہے۔“ امام کے سفر کے لیے بلیزر کار چند دن قبل ہی تیار کی گئی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ اور اور پچھلی سیٹ کے درمیان بلٹ پروف شیشہ لگایا گیا تھا۔ امام کو جب اس کا علم ہوا تو وہ اگلی سیٹ پر براجمان ہوگئے۔ استقبال کرنے والی کمیٹی نے امام کی حفاظت کے لیے کار کے علاوہ متعدد موٹر سائیکل سوار بھی تیار کئے ہوئے تھے۔ اس گروہ کے سربراہ شہید محمد بروجردی کو بعد میں ”مسیح کردستان“ اور کردستان کا بہادر کمانڈر کا لقب دیا گیا۔ بروجردی اور گروپ کے باقی ارکان رش میں پھنس گئے۔ صرف محمد رضا طالقانی جو بلیرز پر بیٹھے تھے، گاڑی کے ساتھ جا سکے۔ گاڑی ”خیابان رجائی“ کے راستے میں اچانک رک گئی۔ امام نے گاڑی سے اترنے اور بہشت زھراء تک کا باقی رستہ پیدل طے کرنے پر اصرار کیا۔

آخر ہیلی کاپٹر آگیا اور امام اس میں سوار ہوئے۔ امام خمینیؒ دوپہر دو بجے بہشت زھرا کے قطعہء 17 پر پہنچے جہاں 17 شہریور کے شہداء کو دفن کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے قیام کے مقام پر قرآن خوانی کی گئی۔ اس کے بعد ترانہ ”برخیزید ای شہیدان راہ خدا“ گایا گیا۔ بعد ازاں امام کی آواز فضا میں گونجی جس نے حق و حقیقت کے مشتاقان اور شیفتگان کی قلب و روح کو سرشار کر دیا۔ امام کا خطاب 3:30 پر ختم ہوا۔ امام خمینیؒ کو لینے کے لیے آنے والے ہیلی کاپٹر نے تین بار اترنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کے سبب ناکام رہا۔ حاج احمد آغا اور جناب ناطق نوری امام کو تھامے ہوئے ایک آئل کمپنی کی ایمبولینس تک لے گئے۔ ایمبولینس قم کی جانب محو سفر ہوئی۔ ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر ایک مقام پر اترا اور امام اس میں سوار ہوگئے۔ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ ہیلی کاپٹر کو اپنی مرضی کے مقام پر اتارنا چاہتا تھا لیکن اسے ”امام خمینیؒ ہسپتال“ جو انقلاب سے پہلے رضا شاہ پہلوی کے نام سے موسوم تھا، میں اترنے کا مشورہ دیا گیا۔ چنانچہ امام کا ہیلی کاپٹر اس ہسپتال کے احاطے میں اترا۔

امام کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ امام بہشت زھرا سے ”مدرسہء رفاہ“ جائیں گے لیکن امام نے اپنی بھتیجی، آقای پسندیدہ کی بیٹی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ امام رات دس بجے تک وہاں رہے تاکہ راستہ ذرا پر سکون ہو جائے۔ ادھر مدرسہء رفاہ میں سب پریشان تھے۔ کسی کو امام کے بارے میں خبر نہ تھی۔ آخر رات کے آخری پہر کسی نے خبر دی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ہے۔ دروازہ بند تھا۔ دروازہ کھلا اور ” امام آگئے “۔  امام مدرسے میں داخل ہونے کے بعد مدرسے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھے اور سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے۔ اس کے بعد امام خمینیؒ اپنے عقب میں آنے والے ہجوم کی طرف متوجہ ہوئے اور لوگوں سے چند منٹ تک گفتگو کی۔ رات اپنے اختتام کو پہنچی اور ایران کی اگلی صبح اپنے دامن میں ایک ایسا آفتاب لیے ہوئی تھی جو تمام مستضعفین عالم کے لیے ایک صبح نو کا پیغام لایا تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام کی آمد ہیلی کاپٹر طیارے کو میں سوار آیت اللہ امام کے پیرس سے کے لیے کی طرف کے بعد کہ میں کے ایک

پڑھیں:

کومل عزیز کس خوف کی وجہ سے شادی نہیں کررہیں؟ اداکارہ کا انکشاف

پاکستانی شوبز انڈسٹری کی خوبرو اور باصلاحیت اداکارہ کومل عزیز خان نے حال ہی میں ایک مارننگ شو میں شرکت کے دوران اپنی ذاتی زندگی کے ایک ایسے پہلو پر بات کی جس نے مداحوں کو چونکا دیا۔

انٹرویو کے دوران جب میزبان نے ان سے پوچھا کہ انہیں کس چیز سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے تو کومل عزیز نے بلا جھجک اعتراف کیا کہ شادی ان کےلیے خوف کی علامت بن چکی ہے۔

اداکارہ کا کہنا تھا کہ وہ بہت بہادر ہیں، دھرنے میں کھڑی ہوسکتی ہیں، کاروبار چلا سکتی ہیں اور تنازعات کا سامنا کر سکتی ہیں، مگر شادی کا تصور انہیں ہراساں کر دیتا ہے۔

کومل کے مطابق، انہوں نے بچپن سے جو شادیاں اپنے اردگرد دیکھی ہیں وہ اتنی متاثر کن نہیں تھیں کہ ان سے ترغیب لی جا سکے۔ یہی مشاہدہ ان کے اندر شادی سے متعلق ہچکچاہٹ اور خوف کی بنیاد بنا۔

کومل نے کہا کہ اُن کی پہلی ترجیح ہمیشہ خودمختاری رہی ہے، خود کمانا، خود فیصلے لینا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی کے فیصلے کو سنجیدگی سے تبھی لیں گی جب یہ یقین ہوجائے کہ اُن کی آزادی اور خودمختاری متاثر نہیں ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے دفتر کی کئی خواتین شادی کے بعد ملازمت چھوڑ چکی ہیں، جو ان کےلیے ایک مستقل تشویش کا باعث رہا ہے۔

تاہم، کومل عزیز نے یہ بھی بتایا کہ ان کے اپنے خاندان میں ایسا ماحول نہیں ہے جہاں شادی کے بعد عورت کو محدود کردیا جائے، اور اسی بنا پر ان کا خوف وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک اور انٹرویو میں اداکارہ یہ بھی واضح کر چکی ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کریں گی جو خود سے زیادہ کمانے والا اور کامیاب ہو، کیونکہ ان کے نزدیک برابری اور سمجھ داری ایک کامیاب رشتے کی بنیاد ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے اپنے ہونے والے شریکِ حیات کے لیے جو اعلیٰ معیار ذہن میں بنا رکھے ہیں، وہی اُن کی شادی میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور بھارت خود ہی کسی نہ کسی طرح اپنے تعلقات دیکھ لیں، ٹرمپ
  • عمران خان نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا 
  • حضرت معصومہ قم (س)
  • کومل عزیز کس خوف کی وجہ سے شادی نہیں کررہیں؟ اداکارہ کا انکشاف
  • پاکستانی باکسر عثمان وزیر نے بھارتی حریف کو پہلے راؤنڈ میں شکست دیدی
  • بھارت نے اپنے اقدامات سے پاکستان کو تحریری آگاہ کر دیا
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی روضۂ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر حاضری
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟