آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ نام نہاد دشمن کچھ بھی کر لے قوم اور فوج کی طاقت سے اسے شکست دیں گے۔ اپنے مادر وطن اور اس کے عوام کے دفاع کے لیے ہم یقینی طور پر جوابی کارروائی کریں گے اورآپ کا شکار کریں گے۔

ہفتہ کے روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بلوچستان کا دورہ کیا جہاں انہیں بلوچستان کی موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جس میں سینیئر سیکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام نے بھی شرکت کی۔

آئی ایس پی آر کے اعلامیے کے مطابق آرمی چیف، گورنربلوچستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے کمبائنڈ ملٹری اسپتال کوئٹہ میں شہدا کی نماز جنازہ پڑھی اور زخمی جوانوں کی عیادت کی اورملک کے دفاع کے لیے ان کے غیر متزلزل عزم کو سراہا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے یہاں اپنے خطاب میں کہا کہ جوغیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پرجو دہشتگرد پراکسی کے طورپرکام کر رہے ہیں اور جو شکاری کے شکار اور خرگوش کے ساتھ دوڑنے کے دہرے معیارکو ظاہر کرنے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے نام نہاد دشمن کو متنبع کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ نام نہاد ’دشمن‘ کچھ بھی کریں، آپ یقینی طور پر ہماری قابل فخر قوم اوراس کی مسلح افواج کی ثابت قدمی سے شکست کھائیں گے۔

آرمی چیف نے کہا کہ اپنے مادر وطن اور اس کے عوام کے دفاع کے لیے ہم یقینی طور پر جوابی کارروائی کریں گے اور’آپ کا شکار کریں گے‘، جب بھی ہم نے ضرورت محسوس کی اور جہاں بھی آپ ہوں گے وہاں آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج، فرنٹیئر کور اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بہادر افسران اور جوانوں کی کاؤشوں کو بھی سراہا۔

انہوں نے بلوچستان کے عوام کی سلامتی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے عزم کا اعادہ کیا جبکہ خطے میں امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں میں صوبائی حکومت کی حمایت کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے مطابق آرمی چیف ا ئی ایس پی ا ر کے رمی چیف نے ا رمی چیف کریں گے کے لیے

پڑھیں:

خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ

زمانہ قدیم سے ہی سلطنتوں کی عظمت کا دارومدار ان کے زیرِزمین خزانوں اورتجارتی شاہراہوں پررہا ہے۔ آج بھی جب چین اورامریکا جیسے عظیم اقتصادی طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ کی آگ بھڑکتی ہے،تواس کامرکزصرف محصولات تک محدودنہیں رہتابلکہ یہ جنگ اب ان نایاب معدنیات تک پھیل چکی ہے جوجدید ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں ۔ چین نے حال ہی میں ان معدنیات کی برآمد پرپابندیوں کااعلان کرکے امریکاکوایک ایسے میدان میں للکاراہے جہاں اس کی کمزوریاں عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔امریکااور چین کے درمیان ایک دوسرے کی اشیاء پرٹیرف اورجوابی ٹیرف لگانے کی اس تجارتی جنگ کاپس منظرنہ تونیاہے اورنہ ہی اچانک سامنے آیاہے۔
عالمی سیاسی منظرنامہ گزشتہ چنددہائیوں سے جس کروٹ پرہے،اس میں معیشت اورٹیکنالوجی کا امتزاج طاقت کے نئے پیمانے متعین کررہاہے۔یہ دور میدانِ جنگ میں گولیوں کی گونج سے زیادہ،معدنی وسائل کی تقسیم پرمبنی پالیسیوں کی گونج سن رہاہے۔چینی دانشورڈینگ شیوپنگ کایہ جملہ آج تاریخ کی سچائی بن چکاہے کہ ’’مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے پاس تیل ہے،ہمارے پاس نایاب معدنیات ہیں۔
چین اورامریکاکے مابین جاری تجارتی جنگ اس وقت نہایت ہی نازک موڑپرآپہنچی ہے۔ایک طرف دونوں ممالک ایک دوسرے پربھاری محصولات (ٹیرف)عائدکرکے معاشی ضربیں لگارہے ہیں، تو دوسری طرف چین نے اپنی سب سے بڑی طاقت نایاب معدنیات کوبطورہتھیارا ستعمال کرناشروع کردیا ہے۔ ان معدنیات کی برآمدپرپابندی کے احکامات جاری کرنا امریکاکے لئے ایساہی ہے جیسے کسی زندہ جسم سے سانس کی ڈورکھینچ لی جائے۔
امریکاکاان نایاب معدنیات پرانحصار بے حد زیادہ ہے۔ سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم اور دیگر ریئرارتھ عناصرجدید ٹیکنالوجی کے بنیادی ستون ہیں۔میزائل سازی،جیٹ طیارے ،موبائل فونز،ریڈار،الیکٹرک گاڑیاں،اورحتیٰ کہ سبزتوانائی کی مصنوعات میں ان کا استعمال لازم ہے۔ان معدنیات کو’’نایاب ‘‘اس لئے کہاجاتاہے کہ یہ زمین میں قلیل مقدارمیں پائے جاتے ہیں،اور انہیں علیحدہ کرنا،صاف کرنااورپروسیس کرنا انتہائی مہنگااورماحول دشمن عمل ہے۔
دنیامیں سب سے زیادہ ذخائرآسٹریلیا، چین،امریکا،برازیل اورروس میں پائے جاتے ہیں،مگر پروسیسنگ کا92فیصدحصہ صرف چین کے پاس ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق،چین اس وقت عالمی سطح پر61 فیصدتک نایاب معدنیات پیداکرتاہے اور92 فیصدتک ان کی ریفائننگ چین کے ہاتھ میں ہے۔اس یکطرفہ اجارہ داری نے چین کواس شعبے کابلاشبہ شہنشاہ بنادیاہے۔
یہ معدنیات نہ صرف قیمتی ہیں بلکہ ماحولیاتی طورپرمہلک بھی ہیں۔ان کی کان کنی میں تابکاری عناصرشامل ہوتے ہیں، جوماحول اورانسانی صحت کے لئے خطرناک ہیں۔یہی سبب ہے کہ یورپ اوردیگر مغربی اقوام نے اس میدان سے راہِ فرار اختیارکی اور چین نے اس خلاکوکئی دہائیوں کی جامع منصوبہ بندی سے پرکر دیا ۔ چین نے سات اہم نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی لگادی ہے،جن میں ایسے عناصربھی شامل ہیں جوامریکی دفاعی صنعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف امریکاکی دفاعی تیاریوں میں خلل پڑا،بلکہ عالمی منڈی میں بے چینی بھی بڑھ گئی ہے۔
چین نے اپریل سے برآمدات کے لئے سپیشل لائسنس لازمی قراردے دیاہے،جوکہ’’دوہری استعمال‘‘ کے معاہدات کے تحت ایک جائزقدم ہے۔یہ معدنیات جنگی اورغیر جنگی، دونوں ٹیکنالوجیزمیں استعمال ہوتی ہیں، جس سے ان کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سینٹرآف سٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل سٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق، ایف 35 جیٹس، ٹوموہاک میزائل اوردیگرہائی ٹیک دفاعی آلات کا انحصارانہی معدنیات پرہے۔چین کی موجودگی نہ ہوتوامریکاکے لئے یہ دفاعی سلسلہ تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
امریکاکے پاس بھی محدودمقدارمیں ذخائر ہیں، مگرپروسیسنگ کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین سے معاہدے کی کوشش کی تاکہ چین پرانحصارکم کیاجاسکے۔ بدقسمتی سے،یوکرین کے وہ علاقے جہاں یہ معدنیات ہیں،روسی قبضے میں آچکے ہیں۔دراصل یوکرین کی جنگ میں امریکا اوریورپ کی دلچسپی انہی معدنیات کی وجہ سے ہے لیکن ناکامی کی وجہ سے اب ٹرمپ کی پالیسی کایوٹرن انہی مفادکے لئے ہے۔اسی لئے ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کوکھلی دھمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی اوراس سے براہِ راست ان معدنیات کے حصول کامطالبہ کیاتھا جوابھی تک پور انہیں ہوسکا۔
گرین لینڈکوامریکاخریدنے کی پیشکش کرچکا ہے۔ معدنیات سے مالامال یہ خطہ،ڈنمارک کی مالی امدادپرانحصارکرتاہے،مگرٹرمپ کی جارحانہ حکمت عملی نے اس تجویزکوعالمی سطح پرمزاح کانشانہ بنادیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمتوازن فیصلوں نے امریکاکودوہری مشکل میں ڈال دیاہے۔نہ صرف اس نے چین جیسے اجارہ دار کو ناراض کردیاہے بلکہ یورپ جیسے اتحادی بھی اس کے اقدامات سے نالاں ہیں۔یہ جنگ محض تجارتی یااقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے نئے مراکزکاتعین کررہی ہے۔اگرامریکا نے وقت پرکوئی نیا راستہ نہ چنائوتوممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ میدانِ جنگ میں موجودتو ہو،مگراس کے پاس جنگ جیتنے کے لئے ہتھیار نہ ہوں۔یوں بھی تاریخ سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ امریکااب تک36سے زائدممالک میں جارحیت کا مرتکب ہوچکاہے اورہرجنگ کا مقدررسواکن شکست اور فرار پر مبنی ہے۔آئیے!چین اورامریکا میں موجودہ تناؤکو سمجھنے کے لئے اس تنازعہ کا شواہدکے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں طاقت کے مراکز کس کے ہاتھ میں ہوگا؟
دراصل اس کشیدگی کی بنیادٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں2018ء میں چین پرٹیکنالوجی چوری، غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں،اورذہین ملکیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکرتے ہوئے250 ارب ڈالرمالیت کی چینی مصنوعات پر ٹیرف لگاکررکھی تھی جس کے جواب میں چین نے اپنے ردعمل میں 110ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات(سویا بین،الیکٹرانکس، پٹرولیم) پر ٹیرف کاجواب دیاتھا۔2023ء تک دونوں ممالک کے درمیان 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائدہوچکے تھے۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، امریکا کو 2023ء تک0.5 فیصد جی ڈی پی کانقصان،جبکہ چین کو1.2 فیصد جی ڈی پی کااقتصادی دھچکالگا۔گویاامریکااورچین کے درمیان یہی نایاب معدنیات کامحاذایک مرتبہ پھر ایک خوفناک جن کی صورت میں عالمی تجارتی منڈی میں آن پہنچاہے۔
نایاب زمینی معدنیات وہ17کیمیائی عناصر ہیں جن کے بغیرآج کی ٹیکنالوجی چاہے وہ اسمارٹ فونزہوں،الیکٹرک گاڑیاں یاجنگی میزائل سسٹم ،ناممکن ہیں۔ سکینڈیئم سے لے کر لٹیٹیئم تک،یہ تمام عناصرایسے ہیں جوزمین کی گودمیں تووافرمقدارمیں موجودہیں، مگران کانکالنااورصاف کرناانتہائی مشکل اورمہنگاعمل ہے۔تاریخی طورپر،ان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ بیسویں صدی میں یورینیم کے بعدیہی وہ دوسرے خاموش ہتھیارہیں جونہ صرف عالمی طاقتوں کی جنگی اوراقتصادی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں بلکہ یہ نایاب معدنیات جدید تہذیب کامضبوط ستون بن کر مستقبل فاتح قوم کااستعارہ بن گئی ہیں۔
گزشتہ دوعشروں میں چین نے نہ ان معدنیات کی کان کنی اوران کی پروسیسنگ میں بھی دنیاپرغلبہ حاصل کرلیاہے۔کان کنی سے پروسیسنگ تک چین کی بالادستی نے امریکاکی صنعتی اورمعاشی دنیا پرلرزہ طاری کردیا ہے۔ بین الاقوامی اعدادوشمارکے مطابق، چین اس وقت دنیا بھر میں61 فیصد نایاب معدنیات پیداکرتاہے، جبکہ ان کی پروسیسنگ کا 92 فیصد حصہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ بالادستی محض اتفاق نہیں،بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہے۔1980ء کی دہائی میں جب مغربی ممالک نے ماحولیاتی تحفظ کے نام پرکان کنی کے سخت قوانین بنائے،توچین نے اس موقع کوغنیمت جانا۔اس نے کم لاگت،کم مزدوری ، اورماحولیاتی پابندیوں میں نرمی کے ذریعے دنیابھرکی صنعت کواپنی جانب متوجہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج چین کے صوبے انرمونگولیا اورجیانگشی میں واقع کانیں دنیا کی ٹیکنالوجی کوسہارا دے رہی ہیں۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی پر غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • ہمیں دشمن نہ سمجھیں اور کشمیریوں کو نشانہ بنانا بند کریں، عمر عبداللہ
  • دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، امجد حسین ایڈووکیٹ
  • ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بعد اوگرا میں تعیناتی کیلئے 3نام فائنل، سمری وزیراعظم آفس کو ارسال
  • پی ایس ایل 10: اسلام آباد یونائیٹڈ نے ملتان سلطانز کو 7 وکٹوں سے شکست دیدی
  • بی جے پی کی حکومت کو تمام جماعتوں سے بات چیت کرنی چاہیئے، ملکارجن کھرگے
  • ملتان سلطانز نے لاہور قلندرز کو 33رنز سے شکست دیدی
  • روٹی کی قیمت 30 روپے مقرر ،سرکاری نرخنامہ کے مطابق روٹی کی فروخت کو یقینی بنائیں ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ
  • خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
  • یقینی بنانا چاہیے کہ ٹیکنالوجی انسانوں اور کرہ ارض کے لیے مثبت کردار ادا کرے، احسن اقبال