Juraat:
2025-09-18@13:03:13 GMT

احتساب تو ثبات چاہتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

احتساب تو ثبات چاہتا ہے

ب نقاب /ایم آر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام نہاد اور قانون سے بالا تر شرفاء کی طرف شاید احتساب کی ایک انگلی بھی نہ اُٹھ سکے،کرپشن سے گدلے پانی کے تالاب میں گرنے والے پتھر سے پانی کناروں سے باہر آچکا ، اب لوٹ مار کو اخلاقی سندمل چکی ، ٹی وی چینلز پربیٹھے حکومتی تنخواہ دار اب جھوٹ کو سچ قرار دیکر میڈیا کو پارسا ئی کے سرٹیفکیٹ دکھائیں گے ،نیب کوماضی میں” پگڑی اُچھال ادارہ” قراردینے والوں کو سانپ سونگھ گیا ،ان مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے 26کروڑ لوگوں کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جائے گا ،کھوکھلی نعرے بازی ہے کہ اُن سے کسی قسم کے افاقے کی توقع نہیں ،کرپشن کی جونکوں کو خراج تحسین پیش کرنے والے نام نہاد دانش ور نہیں جانتے کہ مرض لاعلاج سطح پر پہنچ گیا اور سب تدبیریں اُلٹی ہونے والی ہیں ۔
کرپشن زدہ شرفاء کی مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اُڑا رہی ہیں ،150میگا اسکینڈلز میں کون سا شریف اور معزز ہے جو سر بازار ننگا نہیں ہوا مگر بے لباسی کو شاہی لباس سمجھ کر اترایا جارہا ہے ،جن کے خلاف انقلاب آنا تھا وہ انقلاب کا مذاق اُڑا کر خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں۔ ان کے سارے جرائم گیلے کاغذ کی طرح ہیں جس پر نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نہ مٹایا جاسکتا۔
غلطیاں شاید بڑے لوگوں کا آرٹ ہوتی ہیں۔ ماضی میں عمران جسے منافقت کے ایوانوں میں بغاوت کی للکار سمجھا گیا خود قابل احتساب وزیروں ،پارلیمنٹیرین کے حصار میں گھر گیا ، احتساب ثبات چاہتا ہے ۔لوٹ مار کرنے والے کتنے ہی بڑے کیو ں نہ ہوتے ،پابند ِ سلاسل ہونا تھے ۔ ماڈل ٹائون میں گرنے والی 14لاشوں کا جے آئی ٹی نے جنہیں مجرم ٹھہرایا ،وہ بدستوردندناتے پھرتے رہے ،احتساب کی ہوا اُنہیں چھو کر بھی نہ گزری۔ وقت کے حکمرانوں نے ماضی کی شاید کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
اورنگزیب عالمگیر نے اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک قبر کھدوائی مو ذن روزانہ کھودی گئی قبر میں کھڑا ہوکر اذان دیتا، شہشاہ وقت کا کہنا تھا کہ مو ذن جب اللہ اکبر کہے تو مجھے باور ہو کہ لافانی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ میں فانی ہوں۔ جاہ و حشمت ،عزو جلال چار روزہ ہے ، ڈھلتی چھائوں ۔قبر کامقصد یہ ہے کہ مجھے آخر مرنا ہے خاک نشیں ہونا ہے۔
شہنشاہ جہانگیر کی بیوی اپنے وقت کی طاقت ور ترین عورت تھی جہانگیر دربار لگاتا تو اُس کے بالوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتا آج شاہدرہ کے قریب نورجہان کی قبر کے صرف آثار باقی ہیں موت کے بے رحم ہاتھ سب کچھ فنا کر گئے ۔ایک مغل حکمران پر جب عتاب ٹوٹا ،اقتدار کی نیا ڈوبی قابض فوج محلات پر آچڑھی تو وہ صرف اپنی جان بچا کر بھاگا۔ بھاگتے ہوئے رات کے سناٹے میں اُس نے دور تک اپنی بیٹیوں اور بیوی کی درد ناک چیخیں سنیں ان چیخوں کی باز گشت بھاگتے ہوئے میلوں اُس کا پیچھا کرتی رہیں ۔
بہادر شاہ ظفر کو لال قلعہ میں قید کردیا گیا اُس کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو خونی گیٹ پر ہاتھ پائوں باندھ کر قتل کردیا گیا۔ شہزادوں کے سر طشت میںرکھ کر ابو ظفر بہادر شاہ کی مہمان نوازی کیلئے بھیجے گئے۔ چشم ِ فلک نے وہ المناک منظر بھی دیکھا ،جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا آخری تاجدار مغل ایک غاصب ،ڈاکو اور احسان فراموش قوم کی عدالت میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ 21دن مقدمہ کی سماعت کے بعد شہنشاہ ہند مجرم قرار پایا، خود ساختہ عدالت کے فیصلے کے مطابق لوہے کی سلائیاں آگ میں تاپ کر شہنشاہ ہند کو دونوں آنکھوں سے محروم کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ فطرت کے قوانین کو جب انسان توڑنا چاہتاہے تو فطرت کبھی اُسے معاف نہیں کرتی۔
راجہ داہر کو درباری نجومیوں نے باور کرایا کہ اگر تم اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتے ہو تو اپنی خوبصورت اکلوتی بہن کی شادی کسی اور سے نہ کرنا ،انہی نجومیوں میں سے ایک نجومی نے یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ تم خود اپنی بہن سے شادی کر لو۔ راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کر لی۔ قانون فطرت کے خلاف یہ اُس کا جرم عظیم تھا ۔بس یہیں سے اُس کے اقتدار کی طنابیں ٹوٹنے لگیں ۔رب کائنات کا کوڑا حرکت میںآیا
سینکڑوں کوس دور سے محمد بن قاسم اُس کی سرکوبی کیلئے روانہ ہوا۔
راجہ داہر کی فوج اُس کے اپنے ہاتھیوں کے پائوں تلے کچلی گئی اور وہ خود عبرت ناک موت سے دوچار ہوا ۔محمد بن قاسم جب فاتح کی حیثیت سے راجہ داہر کے محل میں داخل ہوا تو احاطے میں اُس کی بہن کی لاش جل رہی تھی۔ بر صغیر کی دھرتی پر قدم قدم پر بکھرے یہ تاریخی واقعات ایک تازیانہ ایک سبق کی شکل میں موجود ہیں ۔وقت کے اُن حکمرانوں کیلئے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ۔رضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران جب جلاوطنی کے دوران موت کے آہنی پنجے کا شکار ہوا تو وطن میں چند گز زمین کا ٹکڑا نصیب نہ ہو سکا۔ جب احتساب محض کمزور لوگوں کیلئے قانون بن جائے اور طاقت ور اِس کی لاش کو گھسیٹتے پھریں تو قدرت کا کوڑا حرکت میں آتا ہے کیونکہ سب سے بڑا محتسب وہی ہے۔ عمران خان نے احتساب کی روایت کو پس پشت ڈال کر قابل ِ احتساب لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ،بے لاگ احتساب کسی تفریق کے بغیر جاری و ساری رہتا ہے ۔
غرناطہ کے موسیٰ اور دلی کے بخت خان کی طرح جنوبی ہند کے ملک جہان خان نے بھی نامساعد حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا اُس نے غیرت و حمیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو کٹھن ہے مگر بالآخر عزت کے معبد کی طرف جاتا ہے ۔عمران خان کو یہی کرنا تھا نہ کرسکا ،یہاں یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ ایک بڑے صوبہ میں 14افراد کے قاتلوں میں سے ایک بھی گرفتار نہ ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: راجہ داہر

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ
  • لازوال عشق
  • اسرائیل ختم ہو جائیگا، شیخ نعیم قاسم
  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا قطر حملے پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage
  • اسرائیلی بربریت کو اب فوری طور پر رکنا چاہیے، اسرائیل کو انسانیت کیخلاف جنگی جرائم پر احتساب کے کٹہرے میں لانا چاہیے،وزیراعظم شہباز شریف