Juraat:
2025-11-05@00:47:35 GMT

احتساب تو ثبات چاہتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

احتساب تو ثبات چاہتا ہے

ب نقاب /ایم آر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام نہاد اور قانون سے بالا تر شرفاء کی طرف شاید احتساب کی ایک انگلی بھی نہ اُٹھ سکے،کرپشن سے گدلے پانی کے تالاب میں گرنے والے پتھر سے پانی کناروں سے باہر آچکا ، اب لوٹ مار کو اخلاقی سندمل چکی ، ٹی وی چینلز پربیٹھے حکومتی تنخواہ دار اب جھوٹ کو سچ قرار دیکر میڈیا کو پارسا ئی کے سرٹیفکیٹ دکھائیں گے ،نیب کوماضی میں” پگڑی اُچھال ادارہ” قراردینے والوں کو سانپ سونگھ گیا ،ان مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے 26کروڑ لوگوں کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جائے گا ،کھوکھلی نعرے بازی ہے کہ اُن سے کسی قسم کے افاقے کی توقع نہیں ،کرپشن کی جونکوں کو خراج تحسین پیش کرنے والے نام نہاد دانش ور نہیں جانتے کہ مرض لاعلاج سطح پر پہنچ گیا اور سب تدبیریں اُلٹی ہونے والی ہیں ۔
کرپشن زدہ شرفاء کی مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اُڑا رہی ہیں ،150میگا اسکینڈلز میں کون سا شریف اور معزز ہے جو سر بازار ننگا نہیں ہوا مگر بے لباسی کو شاہی لباس سمجھ کر اترایا جارہا ہے ،جن کے خلاف انقلاب آنا تھا وہ انقلاب کا مذاق اُڑا کر خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں۔ ان کے سارے جرائم گیلے کاغذ کی طرح ہیں جس پر نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نہ مٹایا جاسکتا۔
غلطیاں شاید بڑے لوگوں کا آرٹ ہوتی ہیں۔ ماضی میں عمران جسے منافقت کے ایوانوں میں بغاوت کی للکار سمجھا گیا خود قابل احتساب وزیروں ،پارلیمنٹیرین کے حصار میں گھر گیا ، احتساب ثبات چاہتا ہے ۔لوٹ مار کرنے والے کتنے ہی بڑے کیو ں نہ ہوتے ،پابند ِ سلاسل ہونا تھے ۔ ماڈل ٹائون میں گرنے والی 14لاشوں کا جے آئی ٹی نے جنہیں مجرم ٹھہرایا ،وہ بدستوردندناتے پھرتے رہے ،احتساب کی ہوا اُنہیں چھو کر بھی نہ گزری۔ وقت کے حکمرانوں نے ماضی کی شاید کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
اورنگزیب عالمگیر نے اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک قبر کھدوائی مو ذن روزانہ کھودی گئی قبر میں کھڑا ہوکر اذان دیتا، شہشاہ وقت کا کہنا تھا کہ مو ذن جب اللہ اکبر کہے تو مجھے باور ہو کہ لافانی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ میں فانی ہوں۔ جاہ و حشمت ،عزو جلال چار روزہ ہے ، ڈھلتی چھائوں ۔قبر کامقصد یہ ہے کہ مجھے آخر مرنا ہے خاک نشیں ہونا ہے۔
شہنشاہ جہانگیر کی بیوی اپنے وقت کی طاقت ور ترین عورت تھی جہانگیر دربار لگاتا تو اُس کے بالوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتا آج شاہدرہ کے قریب نورجہان کی قبر کے صرف آثار باقی ہیں موت کے بے رحم ہاتھ سب کچھ فنا کر گئے ۔ایک مغل حکمران پر جب عتاب ٹوٹا ،اقتدار کی نیا ڈوبی قابض فوج محلات پر آچڑھی تو وہ صرف اپنی جان بچا کر بھاگا۔ بھاگتے ہوئے رات کے سناٹے میں اُس نے دور تک اپنی بیٹیوں اور بیوی کی درد ناک چیخیں سنیں ان چیخوں کی باز گشت بھاگتے ہوئے میلوں اُس کا پیچھا کرتی رہیں ۔
بہادر شاہ ظفر کو لال قلعہ میں قید کردیا گیا اُس کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو خونی گیٹ پر ہاتھ پائوں باندھ کر قتل کردیا گیا۔ شہزادوں کے سر طشت میںرکھ کر ابو ظفر بہادر شاہ کی مہمان نوازی کیلئے بھیجے گئے۔ چشم ِ فلک نے وہ المناک منظر بھی دیکھا ،جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا آخری تاجدار مغل ایک غاصب ،ڈاکو اور احسان فراموش قوم کی عدالت میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ 21دن مقدمہ کی سماعت کے بعد شہنشاہ ہند مجرم قرار پایا، خود ساختہ عدالت کے فیصلے کے مطابق لوہے کی سلائیاں آگ میں تاپ کر شہنشاہ ہند کو دونوں آنکھوں سے محروم کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ فطرت کے قوانین کو جب انسان توڑنا چاہتاہے تو فطرت کبھی اُسے معاف نہیں کرتی۔
راجہ داہر کو درباری نجومیوں نے باور کرایا کہ اگر تم اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتے ہو تو اپنی خوبصورت اکلوتی بہن کی شادی کسی اور سے نہ کرنا ،انہی نجومیوں میں سے ایک نجومی نے یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ تم خود اپنی بہن سے شادی کر لو۔ راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کر لی۔ قانون فطرت کے خلاف یہ اُس کا جرم عظیم تھا ۔بس یہیں سے اُس کے اقتدار کی طنابیں ٹوٹنے لگیں ۔رب کائنات کا کوڑا حرکت میںآیا
سینکڑوں کوس دور سے محمد بن قاسم اُس کی سرکوبی کیلئے روانہ ہوا۔
راجہ داہر کی فوج اُس کے اپنے ہاتھیوں کے پائوں تلے کچلی گئی اور وہ خود عبرت ناک موت سے دوچار ہوا ۔محمد بن قاسم جب فاتح کی حیثیت سے راجہ داہر کے محل میں داخل ہوا تو احاطے میں اُس کی بہن کی لاش جل رہی تھی۔ بر صغیر کی دھرتی پر قدم قدم پر بکھرے یہ تاریخی واقعات ایک تازیانہ ایک سبق کی شکل میں موجود ہیں ۔وقت کے اُن حکمرانوں کیلئے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ۔رضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران جب جلاوطنی کے دوران موت کے آہنی پنجے کا شکار ہوا تو وطن میں چند گز زمین کا ٹکڑا نصیب نہ ہو سکا۔ جب احتساب محض کمزور لوگوں کیلئے قانون بن جائے اور طاقت ور اِس کی لاش کو گھسیٹتے پھریں تو قدرت کا کوڑا حرکت میں آتا ہے کیونکہ سب سے بڑا محتسب وہی ہے۔ عمران خان نے احتساب کی روایت کو پس پشت ڈال کر قابل ِ احتساب لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ،بے لاگ احتساب کسی تفریق کے بغیر جاری و ساری رہتا ہے ۔
غرناطہ کے موسیٰ اور دلی کے بخت خان کی طرح جنوبی ہند کے ملک جہان خان نے بھی نامساعد حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا اُس نے غیرت و حمیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو کٹھن ہے مگر بالآخر عزت کے معبد کی طرف جاتا ہے ۔عمران خان کو یہی کرنا تھا نہ کرسکا ،یہاں یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ ایک بڑے صوبہ میں 14افراد کے قاتلوں میں سے ایک بھی گرفتار نہ ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: راجہ داہر

پڑھیں:

’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘

’’ فرصت ہی نہیں ملتی‘‘ آج کل جیسے دیکھو ، یہی رونا ہے۔ فرصت ہی نہیں، دو گھڑی آرام کی بھی۔ عدیمی الفرصتی کا ایسا بہانہ، کہ نہ ملنے کا شکوہ کیا، تو سننے کو ملا ’’کہ یہاں تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور آپ ملنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ ہمیں تو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے گویا یہ سب کا تکیہ کلام ہی بن گیا ہے کہ ہر زبان پر ایک ہی جملہ سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘

ارے بھئی یہ فرصت کس چڑیا کا نام ہے جو آپ کے ہاتھ نہیں آرہی۔کبھی تو یہ ہر گھرمیں بڑے آرام سے اڑتی، چہچہاتی نظر آتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا¡ سادگی نے دامن چھوڑا، تکلفات نے جگہ لی، بناوٹ و تصنع نے گھر کیا۔ اسٹیٹس کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن کا چین گیا، راتوں کی نیندیں حرام ہوئیں۔ ایک ہی دھن سوار ہے کہ فلاں کے پاس وہ سب کچھ، میرے پاس نہیں۔ بس اسی غم میں دن رات کُڑھتے ہوئے ایسے گَھن چکر بنے کہ کولہو کے بیل بنے ہوئے نہ ہی بچوں کے لیے وقت، نہ ہی اپنے سے ملاقات کا سمے۔ وہ ملاقات جو ہماری ذات کا سُکھ چین کا باعث تھی۔

آسائشوں کی لمبی دوڑ اور کچھ پانے نہیں، بلکہ سب کچھ پانے کی ہوِس نے ہم سے زندگی کا حُسن ہی چھین لیا۔ خود اپنی ہی ذات سے بے گانہ کر کے وہ خوشیاں ہی چھین لی ہیں، جو زندگی کا محور و مرکز تھیں۔ لمبی عمروں کا باعث تھیں۔ نہ وہ بے ساختہ قہقہے و محفلیں رہیں۔ نہ بیتی باتوں کی وہ پھلجڑیاں، جو وقت بے وقت گزرے زمانوں کو یاد کر کے، کہ کیسے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کتنے بیتے زمانے تصور ہی تصور میں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ نہ ہی وہ فرصت کے لمحات رہے جب ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہوئے خود کو فکروں سے آزاد کرلیتے تھے۔ ذہنی پریشانیوں کے جال میں الجھنے کے بہ جائے۔ انھیں مل کر سلجھاتے ہوئے اون کے ان پریشانیوں کے بکھیڑوں کو آسانی سے لپیٹ لیتے تھے۔ مل بیٹھنا ہی اس کا سب سے بڑا حل تھا۔ اپنوں کی سنگت میں، سادگی سے گزرے لمحے کیا کچھ یاد دلاتے ہیں۔ کہاں تو یہ عالم کوئی آگیا سو بسمہ اﷲ دلوں کی طرح دسترخواں بھی کھلا، جو بھی گھر میں بنا، چاہے دال روٹی یا چٹنی روٹی آنے والا اس میں خوشی خوشی شریک ہوگیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ نہ کوئی شکایت، نہ بناوٹ، نہ آنے والا پریشان کہ معاف کیجیے بنا بتائے، یا بے وقت آگیا اور نہ میزبان کے ماتھے پر کوئی شکن، نہ بھاگم بھاگ پیزا، چکن بروسٹ لانے کا جھنجھٹ۔ کیسی سادگی تھی، نہ آنے والا نہ کھلانے والا تذبذب کا شکار کہ تھوڑے سے وقت میں مہمان کی خاطر داری کیسے کریں۔ مزے سے گپ شپ لگائی، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہوئے۔ ایک دوسرے کو پیار اور خلوص بانٹتے ہوئے ایسے رخصت ہوئے کہ وہی لمحے یاد گار بن کر زندگی کو بڑھا دیتے اور اب حال یہ ہے کوئی بے وقت آگیا تو فوری بچھا ہوا دسترخوان لپیٹ ، میاں کو بازار کی دوڑ لگوائی، چکن رول سے لے کر آئس کریم تک کہ سب کچھ لے کر آئیے۔ انھوں نے ہمارے جانے پر کیسے میز بھری تھی۔ کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک ہی نہ کٹ جائے، اور بیگم گپ شپ کے بہ جائے۔ آپ ذرا بیٹھیے، میں ابھی آئی کہتے ہوئے یوں باورچی خانے بھاگیں کہ رہے سہے لوازمات، وہ کباب، سموسے بھی لگے ہاتھوں تل لیں کہ دسترخوان خالی نہ رہ جائے اور یوں جو دو گھڑی ملنے کے میسر بھی آئے وہ بھی ہم نے تکلفات کی بھاگ دوڑ میں اور مہمان داری میں گنوادیے۔ اوپر سے یہ شکایت، اف ڈھنگ سے بات بھی نہ ہو سکی۔ بتاکر آتے تو کم از کم آرام سے سب بندوبست ہو جاتا۔

گزرے زمانوں و فی زمانہ یہی تو فرق ہے، جو ہمیں مار گیا ہے۔ یہ نام نہاد کے ڈھکوسلے اور خواہ مخواہ کے دکھاوے نے ہماری زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ قصور سارا اپنا کہ بے جا لوازمات میں خود کو ایسا الجھایا ہے کہ ان سے نکل ہی نہیں پاتے اور الزام دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ملتی، ایک اسٹیٹس اور اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر نے ہماری ذہنی آسودگی کو عرش سے فرش پر لاپٹخا ہے۔ اب تو ملنے پر بھی، ’’بتاؤ ماشاء اﷲ بچے اچھی ملازمت پر لگ گئے۔ تم لوگوں کی محنت نے بچوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔‘‘ پہلے اب یہ باتیں کہاں سننے کو ملتی ہیں اور اب بچوں کو کچھ بنانے کے بہ جائے ان کے لیے کچھ بنانے کے خیال نے بات چیت کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ ’’ارے تم نے بیٹے کے لیے کون سی گاڑی خرید لی۔ میں نے تو اپنے بیٹے کے لیے نئی ماڈل کی گاڑی خریدی ہے اور موبائل بھی وہ والاجو آج کل مارکیٹ میں نیا آیا ہے۔ اس کے دوست کے پاس وہی تھا۔ سو اس کی فرمائش تو پوری کرنی تھی اور پھر چل سو چل، قصہ گاڑی، موبائل سے ہوتا ہوا ختم ہوتا ہے کہ تم نے ڈیفنس میں کوئی پلاٹ وغیرہ لیا اور سننے والا صدمے میں ایسے جاتا ہے کہ میاں کے کان کھاتا ہے کہ دیکھ لیں ان کے پاس ہر چیز نئی سے نئی  اور ایک ہم ہیں بیوی کا رونا دیکھ کرمیاں قرضوں کا بوجھ اٹھائے راہ عدم سدھار جاتے ہیں۔

آج کل کے زمانے کی سو فی صد ہو بہو تصویر ہے۔ خواہشوں کے اِزدحام نے انسان کو ایسے نگلا ہے کہ یہ بھی حاصل کرنا، وہ بھی حاصل کرنا، کوٹھی، بنگلا آگیا، تو مہنگے سے مہنگا فرنیچر و پردے بھی درکار، رکھ رکھاؤ کے لیے لباس بھی قیمتی، ہاتھوں میں نئی گھڑی اور موبائل اور اس بھیڑ چال میں کچھ وقت اپنے لیے نکالنے کا سوچتے بھی ہیں، تو پھر خیال آتا ہے۔ بہتر ہے وہ کام بھی کر ہی لوں، اچھا موقع ہے، منافع ہی منافع ہے اور اس منافع کو حاصل کرنے کے لیے ہم جو اپنی لاکھوں سی قیمتی جان کا منافع داؤ پر لگارہے ہیں، جو صرف اور صرف فراغت و فرصت کے لمحات میں پوشیدہ و انھی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اپنی صحت، قیمتی ان مول دولت کو یوں ضائع کرتے ہوئے، ہمیں تھوڑا سا بھی دکھ و ملال نہیں ہوتا۔ وہ دولت جو کسی قیمت پر ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتی۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو کبھی آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیجیے۔

لاکھوں سی جان کو ہم نے مصروفیت کے تانوں بانوں میں الجھاکر ایسا توڑا مروڑا ہے کہ ہماری اصلی صورت ہی بگڑ کر رہ گئی ہے۔ یہ وقت سے پہلے آتا ہوا بڑھاپا، یہ بالوں میں سفیدی، ماتھے پر شکنیں، نظر میں دھندلاہٹ، ٹانگوں میں درد، سب شکستہ عمارت کی وہ نشانیاں، جو حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کے پیچھے ہم نے پائی ہیں۔ سب کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں آج عمر کی اس منزل پر آئینہ کیسے آپ کے حالت زار کی چغلی کھا رہا ہے۔ جن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تم نے زندگی بتادی۔  خوار ہوتے رہے ، ریشم و اطلس کے خواب دیکھتے رہے۔آج تمہاری دسترس سے دور تمہارے لیے بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ تم میں اب نہ وہ جان ہے نہ وہ ہمت ہے کہ ان سے لطف اندوز ہو سکو ۔

آنکھوں میں وہ دم نہیں، ٹانگوں میں بھاگنے کی جان نہیں، دوائیوں اور گولیوں سے فرار ناممکن، وہ ہی اب آپ کی ہم دَم و ساتھی۔ اگر نہ ملیں تو کیسے کیسے مرض حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دواؤں کا ایسا عادی بنایا، جس کے بغیر جینا محال ہوگیا۔ سوچو تو بہت کچھ، نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے ، زندگی کی گاڑی کی رفتار کچھ کم کر کے اپنی عمر کو صحت مند بنائیں۔ فرصت نہ ملنے کا رونا روکر اسے داؤ پر مت لگائیں، سُکھ، چین، شانتی، سکون سے بیٹھ کر ہر مسئلے کا حل نکالیں۔ ہر چیز کو ذہن پر سوار مت کریں کہ یہ نہ ہوا تو وہ ہو جائے گا، ایسے نہ ہوا تو یہ ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ صحت مند ہوں گے تو سب کچھ ہوجائے گا۔ ہر کام پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

عمر کی وہ نقدی، یوں بے دریغ انتھک لٹاتے خرچ کرتے ہوئے ہم اس احساس سے ہی عاری ہوگئے کہ جانے زندگی کے کتنے پل باقی ہیں، جو باقی رہ گئے ہیں۔ کاش ہم کبھی فرصت کے چند لمحوں میں کبھی اپنے لیے بھی تو جیتے۔‘‘ اپنی زندگی تو جیتے، اپنے آپ کو آئینے کے سامنے سنوارتے ہوئے کبھی اپنے اندر تو جھانکتے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ وہ قیمتی لمحات زندگی کے جو بیت گئے واپس نہیں آئیں گے۔ آسائش آپ خرید سکتے ہیں، لیکن زندگی نہیں خرید سکتے۔ زندگی کے آخری اوور کو پورا کرنے کے لیے زندگی کی خالی کشکول میں کوئی چند سکے بھی زندگی کے، آپ کو ادھار نہیں دے سکتا۔

اس لیے فرصت کا رونا روکر اپنی زندگی کو گہن مت لگائیے، جو آپ کے پاس ہے اسے غنمت جانیے کہ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔ اسی میں آپ کے آج کا سکھ و چین ہے اور کل کی طویل العمری کی نوید ہے۔ اپنے آج کو کل کے لیے قربان مت کریں جیب میں جتنی بھی فرصت کے پل ملیں، انھیں استعمال کیجیے کیوں کہ کل یہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کھوٹے سکے بن کر آپ کے کسی کام نہ آئیں گے۔ کسی سے ملنا ہے، کسی کا حال پوچھنا ہے، کسی کی تیمار داری کرنی ہے تو اپنی مصروفیت کا دامن جھٹک کر ’’وقت‘‘ نکالیے۔ زندگی اتنی ارزاں شے نہیں کہ اسے یوں توڑ مروڑ دیا جائے۔ قدرت کے اس ان مول عطیے سے فیض اٹھاتے ہوئے، پل پل زندگی اپنے لیے جیتے ہوئے، یہ مت کہیے کہ فرصت نہیں ملتی بلکہ یوں کہیے کہ وقت نکالنا پڑتا ہے تو پھرآج ہی سے اپنے لیے وقت نکالیے۔ یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور آپ کے بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیں گویا کہ آہیں بھرتے ہی رہ جائیں کہ ہمیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے کارن تم نے اپنی زندگی کے بے بہا فرصت کے لمحات گنوادیے۔ آج ہم تو وہیں کھڑے ہیں، لیکن تم نے اس اپنی تمام عمر کی تگ و دو میں کیا حاصل کیا ’’صرف دو گز زمین کا ٹکڑا‘‘ اب تو سمجھ جائیں، زندگی آپ سے کیا مانگتی ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رک جائے، کھڑی ہو جائے تو بے کار، دوسروں کے لیے بوجھ ،جینا مشکل و دوبھر ، اس لیے اسے چلتا رکھنے کے لیے فراغت و فرصت کا تیل ضرور دیجیے ورنہ زنگ آلود گاڑی تو دھکا دینے سے بھی نہیں چلتی اور دنیا کیا اپنے بچوں پر بھی بوجھ بنی نظر آتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کاالمیہ
  • دکھ روتے ہیں!
  • کبھی کبھار…
  • خود کو بدلنا ہوگا
  • اپر کوہستان مالیاتی اسکینڈل میں گرفتار ملزم محمد یحییٰ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
  • امریکا کو کرپٹو کا چیمپئن بنانا چاہتا ہوں: ٹرمپ
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • جعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع