WE News:
2025-09-18@13:09:27 GMT

ملک کو 1971 جیسی صورتحال درپیش ہے، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

ملک کو 1971 جیسی صورتحال درپیش ہے، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب

وزیراعظم اور وزیرداخلہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کوتشویشناک قرار دیا ہے۔

اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ملک کے تشویشناک حالات میں لاپتا افراد بلوچستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، حکومت ہوش کے ناخن لے۔

یہ بھی پڑھیں: قوانین کو ہتھیار بنایا جارہا ہے جس کا نشانہ صرف عمران خان ہیں، عمر ایوب

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایف سی کے 18جوانوں کی شہادتیں ہوئی، جہاں آئی جی بغیر سیکیورٹی پروٹوکول کوئٹہ چھاونی سے باہر نہیں نکل سکتے، بلوچستان کے 8 اضلاع میں کوئی پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرا سکتا، یہ صورتحال بنی ہوئی ہے بلوچستان میں کوئی ترانہ نہیں گا رہا۔

عمر ایوب کا کہنا موقف تھا کہ ملک کو 1971 جیسی صورتحال درپیش ہے، دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد مارنگ بلوچ کو روکنے کی کوشش کی گئی تو لاکھوں لوگوں کا مجمع اکٹھا ہوگیا، ملک کس ڈگر جا رہا ہے اور یہ لوگ عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسپیکر ایاز صادق کا عمر ایوب کو ٹیلیفون، پی ٹی آئی کا مذاکراتی اجلاس میں شرکت سے صاف انکار

عمر ایوب کے مطابق ایف بی آر ایک ہزار 10 گاڑیاں لینے کے چکر میں ہے، شہباز شریف قومی اسمبلی میں تقریر نہیں کر سکتے، سب ڈرپوک لوگ ہیں یہ انسٹالڈ حکومت ہے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں، یہ اتنا بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کھلے ماحول میں ہماری عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرواسکیں۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کو ہوش نہیں ہے، ملک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے، اس حکومت نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے، ہم لوگ 8  فروری کو صوابی میں احتجاج کرتے ہوئے یوم سیاہ منائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

8 فروری اپوزیشن لیڈر بلوچستان صوابی عمر ایوب مینڈیٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر بلوچستان صوابی عمر ایوب مینڈیٹ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ

پڑھیں:

راجہ فاروق خان ریاست کے بڑے لیڈر ہیں، فرید خان

سابق صلعی صدر پی ایم ایل نواز کا کہنا تھا کہ راجہ فاروق کے نقطہ نظر سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن گفتگو، بیانات میں احترام کا رشتہ قائم رہنا ضروری ہے، ایک قومی لیڈر کے خلاف بازاری زبان استعمال کرنا درست نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق ضلعی صدر مسلم لیگ (ن) سابق ایڈمنسٹریٹر ضلع کونسل جہلم ویلی فرید خان نے کہا کہ راجہ محمد فاروق حیدر خان ریاست کے بڑے لیڈر، کشمیریوں کی توانا آواز ہیں جو حالات کی سنگینی سے عوام اور تاجر برادری کو آگاہ کر رہے ہیں، ان کے نقطہ نظر سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن گفتگو، بیانات میں احترام کا رشتہ قائم رہنا ضروری ہے۔ ایک قومی لیڈر کے خلاف بازاری زبان استعمال کرنا درست نہیں، قابل مذمت ہے، تاجر بھی ہمارے بھائی ہیں، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے لوگ بھی محب وطن اور ہمارے بھائی ہیں۔ عوامی حقوق کی جدوجہد جائز لیکن ریاستی انتشار قبول کرنا اور مہاجرین کی بارہ سیٹیں ختم کرنا شائد کسی کے بس میں نہ ہو ان بارہ سیٹوں کا تعلق ریاست جموں کشمیر کی تحریک حریت کشمیر سے جڑا ہے، پرامن جدوجہد عوام کا جمہوری حق ہے لیکن ہلکی سی شرارت، شرانگیزی ریاستی نظام کیلے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، اس لئے تھوڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ فرید خان نے کہا کہ قیادت اعتماد کر کے حلقہ سات جہلم ویلی سے پارٹی ٹکٹ دے، جیت کیلئے پورا زور لگائیں گے، فتح یا شکست کا فیصلہ رب کریم کے پاس ہے، ہم پوری تیاری سے انتخابی میدان میں اتریں گے، انشاء اللہ آئندہ انتخابات میں حلقہ سات جہلم ویلی میں عوامی تائید و حمایت سے سیاسی مخالفین کو شکست دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • طاقتور حلقوں کو فارم 47 سے بنی حکومت کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، اعظم سواتی
  • بلوچستان کو 2021-22ء میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 11 ارب 15 کروڑ کم ملنے کا انکشاف
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • راجہ فاروق خان ریاست کے بڑے لیڈر ہیں، فرید خان
  • لوگ کہتے ہیں میں کرینہ کپور جیسی دکھائی دیتی ہوں، سارہ عمیر
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین
  • وزیراعظم  اور سعودی ولی عہد کی اہم ملاقات، خطے کی تازہ صورتحال اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ: کیا اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ حل ہوگیا؟