UrduPoint:
2025-04-25@09:45:46 GMT

پاکستان میں آباد افریقی نسل کی مقامی آبادیاں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

پاکستان میں آباد افریقی نسل کی مقامی آبادیاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) اس موضوع پر لکھتے ہوئے تین عشرے قبل رجب کے مہینے میں منگھو پیر کی چوٹی پر واقع خواجہ حسن سخی سلطان منگھو پیر بابا کا مزار، میلہ، زرق برق لباس میں ملبوس مرد و زن اور بچے، گدھا گاڑی کی ریس، مگارمن (افریقی ڈھول) کی تال پر رقص، ساحلی گیت، مزار سے ملحقہ تالاب میں موجود درجنوں مگر مچھوں کے لیے گوشت کا نذرانہ، ملیر ماڈل کالونی سے متصل لاسی پاڑہ اور ملیر ندی سے وابستہ ان گنت واقعات دوبارہ ذہن میں تازہ ہو گئے۔

تب صرف یہی معلوم تھا کہ یہ لوگ شیدی قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد کراچی کے علاقے لیاری، منگھو پیر، گولیمار اور ملیر میں آباد ہے جبکہ منگھو پیر میں ان کا ایک سالانہ میلہ ہوتا ہے، اور بس۔

(جاری ہے)

ماضی میں یہ لوگ اس خطے میں کہاں سے آئے؟ پاکستان کے کن کن علاقوں میں آباد ہوئے؟ کیا یہ بھی غلاموں کی طرح یہاں لائے گئے تھے، جیسے امریکہ میں؟ ان کا ممکنہ دور غلامی کب ختم ہوا اور ان کے دوسری نسلوں سے اختلافات کب اور کیسے شروع ہوئے؟

افریقی خدوخال والے یہ لوگ مکرانی اور شیدی کہلاتے ہیں۔

چونکہ کراچی میں صدیوں سے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ تمام قومیں ایک دوسرے میں رچ بس گئیں، تو لیاری کی اکثریت خود کو بلوچ ہی کہتی ہے اور اس کی زبان بھی بلوچی ہی ہے۔ تاہم لیاری کے کچھ علاقے مخصوص افریقی خدوخال رکھنے والوں کے گڑھ ہیں، جو شیدی کہلانے پر آج بھی خفگی کا اظہار نہیں کرتے۔ غالباً اس کی وجہ ان کی بظاہر کم سماجی حیثیت ہو۔ جنوبی سندھ کی افریقی نژاد برادری سندھی بولتی ہے اور اب یہ قمبرانی یا بلالی کہلائے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔

معاشرے میں سیاسی شعور اور خواندگی کے باعث دیگر اقلیتوں کی مانند اس برادری میں بھی اپنے سماجی رتبے کے حوالے سے آگہی نے جنم لیا۔ سندھ کے باشعور افریقی نژاد باشندوں نے شیدی لفظ کو اپنے لیے ہتک آمیز قرار دیا ہے۔

امریکہ میں عرصہ دراز سے مقیم لیاری کے ایک سپوت اور مشہور شاعر ن م دانش کے بقول، ''لفظ شیدی سے ہمیں شدید اختلاف ہے کیونکہ اس سے ہمیں ہتک کی بو آتی ہے اور ہم خود کو شیدی کہلوانا قطعی پسند نہیں کرتے۔

ثقافت کئی نسل کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن اکثریتی اور طاقت ور گروہ اقلیت کو ایک مخصوص شناخت دے کر معاشرے میں تعصب کو فروغ دیتے ہیں۔‘‘

اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں غلاموں کی تجارت زوروں پر تھی، جس میں عمان کا عرب سلطان زنج بار پیش پیش تھا۔ موجودہ کینیا اور تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے غلاموں کو پہلے عمان میں مسقط کی بندرگاہ لے جایا جاتا تھا۔

پھر یہ غلام بحری جہازوں میں بھر کر کراچی پہنچائے جاتے تھے۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ اندرون ملک غلاموں کی خرید و فروخت کی ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ افریقی نژاد غلاموں کی آمد کے بارے میں ماہرین کی آراء مختلف ہیں۔

اس موضوع پر ڈاکٹر فیروز احمد کی تحقیق بہت مربوط اور مستند سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق، ''سندھ میں افریقی غلاموں کی آمد ٹالپروں کے دور حکومت میں شروع ہوئی کیونکہ ٹالپروں نے بلوچ جنگجو سرداروں کو جاگیروں اور انعامات سے نوازا تھا، جن کے باعث وہ عیش و آرام کے طالب ہو گئے تھے۔

ٹالپر حکمران غلاموں کو زراعت یا کسی پیداواری کام کی غرض سے نہیں رکھتے تھے، بلکہ انہیں محافظ یا گھریلو ملازمین بنایا جاتا تھا۔ امریکہ کے برعکس سندھ میں افریقی نژاد غلاموں پر تشدد کے شواہد نہیں ملتے۔ ہاں البتہ ان کو معاوضہ دینے کے بجائے صرف ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہی مالک کا فرض تھا۔ تاہم چند غلام ایسے بھی تھے، جو اپنی بہادری، ذہانت اور وفاداری کے باعث مالکوں کے نور نظر بنے اور ''خانہ زاد‘‘ کہلائے۔

1801 میں پیدا ہونے والے 'ہوش محمد‘ عرف ہوشو شیدی کا شمار ان بے باک اور نڈر غلام سپہ سالاروں میں ہوتا ہے جنہیں ٹالپروں نے ''قمبرانی‘‘ کا لقب دیا اور ان کی پرورش شاہی خاندان میں کی گئی تھی۔ ہوشو شیدی 1843 میں انگریزوں کے خلاف حیدرآباد میں لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ انہوں نے آخری دم تک یہی نعرہ بلند کیا تھا: ''مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ ( مر جاؤں تو مرجاؤں، سندھ نہیں دوں گا)۔

سندھی قوم پرست انہیں آج بھی اپنا رہنما مانتے ہیں۔

گو کہ سندھ نسلی تعصبات والا کوئی فرسودہ معاشرہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود افریقی نژاد نسل کا باعزت مقام حاصل کرنا ایک دشوار عمل تھا، جس کی سماجی حیثیت اس کے مخصوص خدوخال، رنگ اور بالوں سے متعین کی جا چکی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی برادریوں کو منظم کیا۔ مقامی برادریوں سے میل جول بڑھایا اور بعد ازاں قمبرانی قوم کی دوسری برادریوں اور قبیلوں میں شادیوں سے نسلی اختلاط کی بنیاد پڑی۔

ٹالپروں کی 1843 میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے باعث سندھ کے قمبرانیوں یا بلالیوں کی غلامی نے آزادی کا روپ دھارا ۔ انگریز چونکہ کراچی پر چار سال قبل ہی قبضہ کر چکے تھے، اس لیے آزاد ہونے والے ان افریقی نژاد غلاموں کی بڑی تعداد کراچی کے علاقے لیاری میں آن بسی، جنہیں '' نو آزاد شیدی‘‘ کہا گیا۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ایرانی ساحلی علاقوں میں قحط نے غلاموں میں بغاوت کی راہ ہموار کی۔

بغاوت کے نتیجے میں ہزاروں غلام آزاد ہوئے۔ ان میں سے کچھ مشرقی مکران میں ہی آباد ہو گئے جب کہ اکثریتی سیاہ فام باشندوں نے کراچی میں لیاری کے علاقے بغدادی میں سکونت اختیار کی، جہاں ٹالپروں سے آزاد ہونے والے ''نو آزاد شیدی تاجر‘‘ پہلے ہی سے آباد تھے۔

مکران سے آنے والے مکرانی، لسبیلہ سے آنے والے لاسی اور کَچھ سے ہجرت کرنے والوں کو کچھی پکارا جانے لگا جب کہ لیاری میں افریقی نسل کے باشندوں کا نام ''مکرانی‘‘ پڑ گیا۔

لیاری میں سندھی اور بلوچی دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن زیادہ تر سیاہ فام باشندے بلوچی کو اپنی زبان قرار دیتے ہیں جب کہ مذہبی اعتبار سے یہ لوگ شیعہ سنی مسلم عقائد کا ایک منفرد امتزاج اپنائے ہوئے ہیں۔ لسبیلہ سے ہجرت کرنے والے سیاہ فام لوگ ملیر کے مضافات اور ماڈل کالونی کے لاسی پاڑے میں آ کر آباد ہوئے، اور محنت مزدوری یا کھیتوں میں کام کر کے گزر بسر کرنے لگے۔

اندرون سندھ میں قمبرانیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند ریکارڈ تو موجود نہیں لیکن قیاس ہے کہ افریقی نسل سے تعلق رکھنے والی برادریوں کی آبادی ہزاروں میں ہو گی۔ اکثر افراد جنہیں قمبرانی سمجھا جاتا ہے، دراصل مخلوط نسل کے ہیں کیونکہ خالص افریقی نژاد اب صرف ٹالپر گھرانوں میں بطور گھریلو ملازمین کام کر رہے ہیں۔

کراچی میں ایک اندازے کے مطابق 20 سے 25 لاکھ بلوچ آباد ہیں، جن میں سے نصف آبادی افریقی نژاد باشندوں کی ہے۔

مکران کی ساحلی علاقوں میں بس جانے والے افریقی نسل کے افراد نے گوادر، پسنی اور جیوانی کو اپنا مسکن بنایا۔ ماہی گیری کا پیشہ اپنایا اور کئی بستیاں آباد کیں۔ یہاں کے بیس پچیس فیصد لوگوں کے خدوخال مکمل افریقی ہیں جبکہ اکثریت کم سیاہ رنگت کے حامل افریقی نژاد افراد کی ہے۔ مکران کے ساحلی علاقوں کے مخلوط افریقی نسل کے بلوچ سنی مسلمان ہیں یا ذکری فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

بلوچستان کے سیاہ فام لوگ سماجی اور معاشی طور پر دوسرے بلوچوں سے کم حیثیت تھے۔ ان کی اچھی خاصی تعداد 1970 کی دہائی میں عمان کی فوج میں بھرتی ہوئی۔ اسّی کی دہائی میں جب خلیجی ریاستوں میں تیل دریافت ہوا، تو بلوچ مزدوروں کے لیے روزگار کے دروازے کھلے اور اپنی محنت کے بل پر بلوچ اور افریقی نژاد خاندان جلد ہی مالی طور پر مستحکم ہو گئے۔

مسقط میں مخلوط نسل کے بلوچوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ البتہ قلات میں اب بھی مخلوط نسل کے متعدد افراد معمولی اجرت پر جاگیرداروں کے خدمت گاروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں سیاہ فام نسل کو ''نقیب‘‘ یا ''درزداگ‘‘ ( ذات سے باہر) کہا جاتا ہے جبکہ شیدی کے متبادل کے طور پر ''سیاہ کرداگ‘‘ (سیاہ فام) اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

افریقی نژاد باشندوں کی اکثریت سماجی اعتبار سے غریب اور پسماندہ ہے، لیکن اس نسل کے کئی افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان میں ''محمد صدیق مسافر‘‘ بھی شامل ہیں، جنہوں نے خود کو معلم، ادیب، شاعر اور مدیر کی حیثیت سے منوایا۔

ایک غیر روایتی ساز بینجو بجانے کے ماہر بلاول بیلجیم (محمد بلال) نے اس ساز سے سندھی اور بلوچی موسیقی میں جدت پیدا کر کے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔

بلال کی والدہ ایک مغنیہ اور والد ''کوزانک‘‘ بجانے کے ماہر تھے۔ لیاری کے مشہور شاعر ن م دانش نے اپنی منفرد شاعری سے ایک الگ مقام بنایا۔

1950 کی دہائی میں فٹبال کے مایہ ناز کھلاڑی ''محمد عمر‘‘ نے بین الاقوامی مقابلوں میں تیرہ مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کر کے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔ بلوچوں اور افریقی نژاد باشندوں کا سیاست میں ہمیشہ ایک جمہوری کردار رہا ہے۔

سیاست میں لیاری کے عوام سندھ اور بلوچستان کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بعض سیاہ فام دانشوروں نے اپنی مالی بدحالی اور دشوار صورت حال کے پیش نظر دنیا بھر کے سیاہ فاموں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور سفاکیوں کی داستانیں سن یا جان کر ان سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔ محمد صدیق مسافر نے اپنی کتاب ''غلامی اور آزادی کے آنکھیں کھول دینے والے حالات‘‘ میں جابجا سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے افریقی نژاد باشندوں نے مقامی روحانی رسم و رواج کے ساتھ ساتھ قدیم افریقی تمدن کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے، جس میں ایک قابل ذکر رواج ''گواتی‘‘ ہے، جس میں آسیب اتارا جاتا ہے۔ مگارمن کی تیز تھاپ پر شیدی رقص افریقی کلچر کی باقیات تصور کیا جاتا ہے، جو نہ صرف منگھوپیر کے میلے میں بلکہ کراچی اور مکران کی متعدد خانقاہوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے افریقی نژاد مقامی باشندے فٹبال اور باکسنگ میں تو اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے لیکن اس کے علاوہ ان کی حس مزاح، فنون لطیفہ میں کردار، رقص میں دلچسپی اور روایتی کُشتی ''مکھ‘‘ میں مہارت بھی قابل ذکر ہیں۔ لیکن افسوس کہ پاکستانی ریاست نے ان شعبوں میں ایسے باشندوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں پیشہ وارانہ سطح تک پہچانے کے کوئی مناسب مواقع فراہم نہیں کیے۔

پاکستان کی افریقی نژاد برادریاں، چاہے وہ جنوبی سندھ کی ہوں، لیاری کی یا بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بسنے والی، وہ سیاسی اور مذہبی لحاظ سے جمہوری اور روشن خیال سوچ کی حامل ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افریقی نسل علاقوں میں غلاموں کی لیاری کے کے باعث جاتا ہے نے اپنی اور ان صدی کے نسل کے ہو گئے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا مری کو 129 سال سے جاری مفت پانی کی فراہمی کیوں بند کرنے جا رہا ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحتی مقام گلیات سے مری کو پانی کی سپلائی میں مزید توسیع اور نئی پائپ لائن بچھانے کے عمل کو روک کر، 129 سال سے جاری مفت پانی کی فراہمی پر نظرِ ثانی کا عمل شروع کر دیا ہے۔

گلیات میں پانی کی شدید قلت، معاملہ کیسے اٹھا؟

خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن رجب علی عباسی نے گلیات میں پانی کی شدید قلت اور وہاں سے مری کو مفت پانی کی فراہمی کے معاملے کو اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلیات کی مقامی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے، جبکہ ان کا پانی مفت میں مری کو دیا جا رہا ہے اور کوئی آبپاشی فیس (آبیانہ) وصول نہیں کی جا رہی، جو ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مری واٹر بورڈ مفت پانی حاصل کر کے مری کے صارفین سے فیس وصول کر رہا ہے، جبکہ گلیات کے مقامی افراد پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملے پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے غیر معمولی اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا۔

نئی پائپ لائن بچھانے کا عمل روک دیا گیا

گلیات سے منتخب اراکین نے پانی کے مسئلے کو سنگین قرار دیا اور بتایا کہ گلیات ایک سیاحتی علاقہ ہے لیکن وہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ گلیات سے رکنِ خیبر پختونخوا اسمبلی نذر احمد عباسی نے بتایا کہ مری کو پانی کی سپلائی ان کے علاقے درویش آباد سے ہوتی ہے، لیکن اب وہاں کی مقامی آبادی کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت گلیات سے مری کو پانی کی فراہمی کے لیے مزید پائپ لائن بچھا رہی تھی، جسے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گلیات میں گورنر ہاؤس کے قریب واٹر ٹینکس بنائے گئے ہیں، جہاں پانی کو ذخیرہ کرکے اپ لفٹ کیا جاتا ہے اور پھر ڈونگا گلی میں انگریز دور کے اسٹیل ٹینک میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، جہاں سے پانی مری کو بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپ لفٹ کا خرچہ بھی صوبائی حکومت برداشت کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: مری کے مال روڈ کی توسیع اور بحالی کا 550 ملین روپے مالیت کا منصوبہ منظور

رپورٹس کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے مری کے لیے نئی لائن بچھانے کے منصوبے کو روک دیا ہے۔ مزید برآں، اس پورے معاملے کو سیاحتی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے تاکہ پانی کی تقسیم، اخراجات اور قانونی حیثیت پر جامع رپورٹ پیش کی جا سکے۔

سپریم کورٹ کا مقامی آبادی کے حق میں فیصلہ

رکن اسمبلی نذیر عباسی نے بتایا کہ اس معاملے پر مقامی لوگ سپریم کورٹ گئے اور کیس کیا۔ عدالت نے مقامی آبادی کے مؤقف کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 6 سال قبل عدالت میں جو رائیلٹی کا تخمینہ لگایا گیا تھا، وہ 40 سے 50 ارب روپے بنتا ہے۔ مری واٹر بورڈ کا مؤقف تھا کہ پانی کی فراہمی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کوئی رائیلٹی طے ہوئی تھی۔

نذیر احمد عباسی نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مری واٹر بورڈ اس مفت پانی کو آگے بیچ کر پیسے کما رہا ہے، جبکہ جس علاقے سے پانی آ رہا ہے، وہاں کے لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور انہیں ان کا آئینی حق نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر گلیات کو رائیلٹی کی مد میں ادائیگی کی جائے تو اس سے پانی کی سپلائی کو بہتر بنانے اور مقامی آبادی کو فراہمی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔

معاملہ سیاحتی کمیٹی کے حوالے، پنجاب حکام کو بھی بلانے کی ہدایت

معاملے پر وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم نے بھی بات کی اور کہا کہ پنجاب صوبے کے وسائل کو استعمال تو کر رہا ہے لیکن رائیلٹی ادا نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھائے گی اور اس پر حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے۔ اراکین نے اسپیکر خیبر پختونخوا سے مری کو پانی کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کے لیے رولنگ دینے کی درخواست کی، جس پر اسپیکر نے کہا کہ عام شہریوں کو پینے کا پانی بند کرنا درست نہیں۔ جو توسیع ہو رہی تھی، اسے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے معاملے کو اسمبلی کی سیاحتی کمیٹی کے سپرد کیا اور ہدایت دی کہ تمام متعلقہ حکام کو بلا کر پوچھ گچھ کی جائے اور پنجاب کے حکام کو بھی بلایا جائے۔

مری کو گلیات سے پانی کی فراہمی کب شروع ہوئی تھی؟

رکن اسمبلی اور گلیات کے رہائشی نذیر احمد عباسی کے مطابق، مری کو پانی کی فراہمی 1896 سے ہو رہی ہے۔ اس وقت گلیات میں پانی کی قلت نہیں تھی اور پانی لینے والے بااختیار اور طاقتور ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پانی کے بدلے نارتھ ویسٹ کو پنجاب سے گندم کوٹہ بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ نذیر عباسی نے کہا کہ اس وقت سے مری کو پانی کی فراہمی جاری ہے۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی تا مری گلاس ٹرین منصوبہ، 4 روٹس میں کون سے اسٹیشنز آئیں گے؟

گلیات سے یومیہ مری کو کتنا پانی جاتا ہے؟

رکن اسمبلی نذیر عباسی کے مطابق، گلیات سے مری کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانی کی فراہمی جاری ہے اور یومیہ پانچ لاکھ گیلن پانی مری کو بھیجا جاتا ہے، جس سے مقامی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یومیہ مفت پانی صوبائی حکومت کے خرچ پر مری کو سپلائی کرنا ناانصافی ہے اور حکومت اب اس پر باقاعدہ کام کر رہی ہے تاکہ مقامی آبادی کو انصاف اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سیاحتی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے گی، جس کی روشنی میں معاملہ وفاق اور پنجاب کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اور اگر بات نہ بنی تو پانی کی فراہمی بند بھی کی جا سکتی ہے۔

مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر انحصار

پنجاب کے مشہور مقام سیاحتی مری کا پانی کے لیے خیبر پختونخوا پر انحصار ہے۔ اور گلیات سے فراہم پانی کو ہوٹلز اور گھروں سپلائی کیا جاتا ہے۔ مری کے مقامی رہائشی نے بتایا کہ مری کا پانی کے لیے 70 فیصد گلیات پر ہے جبکہ 30 فیصد تک مقامی سطح ہر پانی دستیاب ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ خیبر پختونخو اگر پانی کی فراہمی بند کرتی ہے یا کم بھی کرتی ہے تو اس کا مری میں زندگی پر بہت زیادہ منفی اثر پڑے گا۔ انھوں نے بتایا کہ پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے تو سیاحت کو نقصان پہنچے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پانی پنجاب خیبر پختونخوا قلت گلیات مری

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کا یوم تاسیس؛ رہنماؤں کی پارلیمنٹ ہاؤس سے اسلام آباد ہائیکورٹ تک واک
  • کیا کلیسائے روم اب ایک افریقی پوپ کے انتخاب کے لیے تیار ہے؟
  • کینیڈا الیکشن؛ 50 سے زائد پاکستانی بھی میدان میں
  • افریقی ملک بینن میں القاعدہ جنگجوؤں کا حملہ؛ 54 فوجی ہلاک
  • کینیڈا الیکشن،50سے زائد پاکستانی بھی میدان میں اتر گئے
  • کینیڈا الیکشن؛ 50 سے زائد پاکستانی بھی میدان میں اتر گئے
  • عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت مستحکم
  • آج عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں استحکام
  • خیبر پختونخوا مری کو 129 سال سے جاری مفت پانی کی فراہمی کیوں بند کرنے جا رہا ہے؟
  • کراچی: شادی میں ہوائی فائرنگ، چھت پر کھڑی خاتون جاں بحق