عمران خان 3 سال فوج کے خلاف رہے، اب مدد مانگ رہے ہیں، ملک احمد خان
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف کو خط لکھ کر عمران خان اپنے اس سیاسی نظریے پر قائم نہیں رہے جس پر وہ پچھلے 3 سال سے قائم تھے، وہ پہلے فوج کے کردار کے خلاف تھے اور اب اسی فوج سے کردار ادا کرنے کی استدعا کررہے ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملک احمد خان نے کہا کہ 2018 میں بھی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر آئے، عمران خان کی انتخابات کے حوالے سے پوزیشن نئی نہیں، 2014 سے وہ مسلسل ایک ہی رٹی ہوئی بات بار بار دہراتے ہیں، انہیں اس وقت بھی اعتراض تھا، وہ جیت جائیں تو ٹھیک ہے اور اگر نہ جیتیں تو انہیں اعتراض ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کے مزید مندرجات سامنے آگئے
ملک احمد خان نے کہا کہ عمران خان صرف یہ چاہتے ہیں کہ صرف وہی ہوں، ان کے ساتھ جائز اختلاف بھی کرے وہ جیل میں ہو، یہی عمران خان کا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف جو مقدمات درج ہیں، ان سے آرمی چیف کا کیا تعلق ہے، وہ مدعی تو ہوسکتے ہیں لیکن فیصلے کا اختیار تو پاکستان کی آئینی عدالتوں کو ہے، اب وہ ریلیف مانگ رہے جو ایک عجیب سی بات ہے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ عمران خان نے 3 سال کیوں قوم کا وقت ضائع کیا، ان 3 برسوں میں ان کی یہی پوزیشن تھی کہ کسی بھی عدالتی، سیاسی یا انتخابی معاملے میں فوج کا کردار نہیں ہونا چاہیے تو اب وہ فوج سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے کردار ادا کرے اور پی ٹی آئی کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے آرمی چیف کو خط کیوں لکھا؟ بیرسٹر گوہر نے وجہ بتادی
انہوں نے کہا کہ کسی غریب کی جھونپڑی کو آگ لگانے کا جرم ناقابل ضمانت ہوتا ہے تو کیا ایک ہی دن ریڈیو پاکستان سمیت دیگر شہروں میں مختلف مقامات اور عدالتی ریکارڈ جلانے، قانون نافذ کرنے والےا داروں کے اہلکاروں کے خلاف پیٹرول بموں کا استعمال کرنے اور شہدا کے مجسمے جلانے والوں پر مقدمہ نہ ہو۔
ایک سوال کے جواب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں بھی مل جائیں تب بھی وہ پنجاب میں حکومت نہیں بناسکتی، پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے باوجود 60 سیٹوں کا فرق ہوگا، تاہم انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں، سپریم کورٹ کا اس حوالے سے فیصلہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون منظور کیا ہے، اگر وہ عدالت میں بیٹھ کر سیاست کریں گے تو پارلیمنٹ کے پاس انہیں روکنے کا پورا حق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان میں زیادہ جمہوری مادہ نہیں، کسی حکومت مخالف اتحاد میں شامل نہیں ہورہے، مفتاح اسماعیل
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا سیاست میں دوبارہ فعال ہونا خوش آئند ہے، ان کی مدبرانہ سیاست میں اس ملک کے مسائل کا حل اور ترقی کا راز ہے، لوگوں کو غربت سے نکالنے کے جو منصوبے ان کے تھے وہ آج مریم نواز کررہی ہیں، نواز شریف کا ملکی سیاست میں بڑا کردار ہے اور وہی ملک سے منفی سیاست کا خاتمہ کریں گے۔
پی ٹی آئی کو لاہور میں جلسے کی اجازت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قانون ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے جلسے کی اجازت لینا ضروری ہے، اگر آپ پرامن جلسے کی اجازت لے کر اس کا غلط استعمال کرتے ہیں، لوگوں کو بلا کر بلوا کرتے ہیں، لوگوں کی املاک، بینک اور ایمبولینسز جلاتے ہیں، میٹرو بس، پبلک ٹرانسپورٹ، ریڈیو پاکستان کو نذر آتش کرتے ہیں اور چھاؤنیوں میں جاکر آگ لگاتے ہیں تو ایسی انتشاریوں کو ان کے سابقہ کردار کی بنیاد پر ہی اجازت دی جاتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آرمی چیف اسپیکر پنجاب اسمبلی آگ بانی پی ٹی آئی جلاؤ گھیراؤ خط عمران خان لاہور جلسہ ملک احمد خان وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا رمی چیف اسپیکر پنجاب اسمبلی بانی پی ٹی ا ئی جلاؤ گھیراؤ لاہور جلسہ ملک احمد خان وی نیوز ملک احمد خان نے کہا انہوں نے کہا کہ پی ٹی ا ئی کو ا رمی چیف کے خلاف
پڑھیں:
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔