امریکی ٹیکس اقدامات کو عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے تنازعات کے حل کے میکانزم میں پیش کر دیا ہے، چینی وزارت تجارت
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
بیجنگ :
چین کی وزارت تجارت کے ترجمان نے چین کی جانب سے WTO میں امریکی ٹیرف اقدامات کے خلاف کیس دائر کرنے پر صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر ٹیرف لگانا WTO کے قواعد کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ یکطرفہ پسندی اور تجارتی تحفظ پسندی کی ایک واضح مثال ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام قواعد پر مبنی کثیرالجہتی تجارتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتا ہے، چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کی بنیاد کو تباہ کرتا ہے اور عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کے استحکام کو متاثر کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بارہا یکطرفہ پسندی کو کثیرالجہتی پر ترجیح دی ہے، جس پر WTO کے اراکین کی جانب سے سخت مذمت بھی کی گئی ہے۔چین کی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ چین امریکہ کے ان اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے غلط اقدامات کو درست کرے۔ انہوں نے کہا کہ چین کثیرالجہتی تجارتی نظام کا مستقل حامی اور اہم معاون ہے اور دیگر WTO اراکین کے ساتھ مل کر یکطرفہ پسندی اور تجارتی تحفظ پسندی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں منظم اور مستحکم ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے تیار ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔