WE News:
2025-11-04@04:39:53 GMT

کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

آج 5 فروری ہے جسے ہم کشمیر کے ساتھ یومِ یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں۔ آج یاد دہانی کا دن بھی ہے اور ہمیں غیروں سے پہلے خود ایک دوسرے کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے متعلق ہمارا مقدمہ کن قانونی اصولوں پر قائم ہے۔ دوسروں سے پہلے ہمیں خود کو یقین دلانا ہے کہ ہم قانونی طور پر درست مقام پر ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم 3 بنیادی سوالات پر غور کریں۔

پہلا سوال: کشمیر کے مسئلے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں نوجوان نسل کو بالخصوص اس بارے میں کئی غلط فہمیاں لاحق ہیں۔ ان کی بہ نسبت مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو اس تنازعے کی قانونی بنیادوں کا زیادہ بہتر فہم حاصل ہے۔

قانونی تجزیے کے لیےدرج ذیل قانونی دستاویزات کا مطالعہ بہت ضروری ہے:

1928ء کا ’معاہدۂ پیرس‘، جس کی رو سے یہ اصول طے پایا کہ قبضے کے ذریعے کسی ریاست پر ملکیت حاصل نہیں ہوسکتی، اور جلد یا بدیر قابض طاقت کو مقبوضہ علاقہ خالی کرنا پڑتا ہے، خواہ قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوئی ہو، یا ختم ہوگئی ہو؛ 1945ء کا ’اقوامِ متحدہ کا منشور‘ جس کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 4، میں نہ صرف طاقت کے استعمال بلکہ اس کی دھمکی کو بھی ناجائز قرار دیا گیا؛ 1947ء کا ’قانونِ آزادیِ ہند‘ جس میں انگریزوں کے انخلا کے بعد برصغیر کی مختلف سیاسی اکائیوں کے مستقبل کےلیے اصول طے پائے؛ 1947ء کا ’اسٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘ جس کی رو سے کشمیر کے مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ طے کیا کہ حالات جوں کے توں رکھے جائیں گے؛ 1947ء کی ’دستاویزِ الحاق‘، جس کی رو سے مبینہ طور پر مہاراجا نے بھارت سے کشمیر کا الحاق کیا؛ اور 1948ء کی ’قراردادیں‘ جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس موضوع پر منظور کیں۔

ان قانونی دستاویزات اور متعلقہ قانونی اصولوں کا تجزیہ کیا جائے، تو طے پاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ ریاستِ جموں و کشمیر الحاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، کیونکہ اس وقت تک مہاراجا کشمیر پر اپنا کنٹرول کھو چکا تھا اور نیز یہ دستاویز (اگر مصدقہ ہےتو) جبر اور اکراہ کی حالت میں لکھی گئی۔ پھر جب بھارت خود معاملے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا اور وہاں سے استصوابِ راے کو تسلیم کرلیا، تو قانونی طور پر وہ الحاق کے دعوے سے دستبردار ہوا اور اس کے بعد الحاق کی دستاویز کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔

نتیجہ یہ ہے کہ قانونی طور پر ریاستِ جموں و کشمیر ایک مقبوضہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا اور جس کا کچھ حصہ آزاد کرالیا گیا ہے (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت-بلتستان)۔ یہ prolonged occupation کی بدترین مثال ہے۔

اس نتیجے پر مزید کچھ نتائج مرتب ہوتے ہیں:

اگر یہ قبضہ ہے، تو جب تک قبضہ ختم نہ ہو حالتِ جنگ برقرار ہے، خواہ فائربندی ہوئی ہو اور خواہ مزید مزاحمت نہ ہورہی ہو؛ اگر یہ قبضہ ہے، تو یہ بین الاقوامی تنازعہ ہے، نہ کہ بھارت کا اندرونی معاملہ؛ اگر یہ قبضہ ہے، تو بھارت کی حیثیت قابض طاقت کی ہے جو مقبوضہ علاقے کی آبادی کی ہیئت (demography) میں تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتا؛ اگر یہ قبضہ ہے، تو مقبوضہ علاقے کے لوگوں سے قابض طاقت کی وفاداری کا حلف نہیں لیا جاسکتا؛ اور اگر یہ قبضہ ہے، تو مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کا حق ہے۔

دوسرا سوال: کیا یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے؟

پچھلی بحث سے اس سوال کا جواب واضح ہے۔

اگر یہ قبضہ ہے، اور یقیناً ہے، تو یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی مسلح تصادم ہے جس پر پورے کے پورے بین الاقوامی قانونِ جنگ (International Law of Armed Conflict)کا اطلاق ہوتا ہے۔

بعض لوگوں نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے لیے جو دلائل دیے ہیں، ان میں 2 اہم دلائل کا تجزیہ ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 26 ویں ترمیم کے بعد اصل مسئلہ: چیف جسٹس کی تعیناتی

پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ 1957ء میں کشمیر میں (نام نہاد) انتخابات کے بعد وہاں کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ تاہم ایک تو ان انتخابات اور ان کے نتیجے میں منتخب ہونے والی اسمبلی کی بین الاقوامی قانون کی رو سے کوئی حیثیت نہیں ہے، دوسرے، اس اسمبلی کی قرارداد کے بعد ایک دفعہ پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھا اور وہاں سے قرارداد نمبر 122 منظور ہوئی جس کی رو سے طے پایا کہ یہ انتخابات اُس استصوابِ راے کا متبادل نہیں جس کا فیصلہ 1948ء میں ہوا تھا۔ چنانچہ معاملہ جوں کا توں رہا۔

دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ 1972ء کے شملہ معاہدے نے کشمیر کو ’دو طرفہ تنازعے‘ میں تبدیل کرلیا۔ یہ دعوی بھی قطعی بے بنیاد ہے۔ 1972ء میں جب یہ معاہدہ طے پارہا تھا، اس وقت پاکستان کی پوزیشن انتہائی کمزور تھی لیکن اس کے باوجود اس معاہدے میں صراحت کے ساتھ قرار پایا کہ فریقین کی قانونی تعبیرات پر اس معاہدے سے کچھ اثر نہیں پڑے گا اور یہ کہ کوئی فریق صورت حال میں یک طرفہ تبدیلی نہیں کرے گا۔ اس معاہدے کی اور بھی کئی باتیں اہم ہیں، جیسے بین الاقوامی سرحدات اور لائن آف کنٹرول کا الگ ذکر۔ بہرحال، یہ بات قطعی بے بنیاد ہے کہ اس معاہدے نے اقوامِ متحدہ کی قراردادیں غیر متعلق کردیں۔ یہ بھارت کا پروپیگنڈا ہے جسے ہمارے ہاں بعض لوگوں نے ناسمجھی میں (اور بعض نے ذاتی مفادات کی خاطر) فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔

اس کے ساتھ اس دلیل کا بھی اضافہ کیجیے کہ کشمیر تو خیر مقبوضہ علاقہ ہے، اگر کوئی ریاست اپنے ہی علاقے میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف اس طرح کے مظالم ڈھائے جیسے بھارت مسلسل کشمیر میں ڈھارہا ہے، تو معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ اس ریاست کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن جاتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں بین الاقوامی قانون براے حقوقِ انسانی نے ریاست کے اقتدارِ اعلی (sovereignty) کا پرانا تصور تبدیل کرلیا ہے اور اب اسے ’تحفظ کی ذمہ داری‘ (responsibility to protect) کا عنوان دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: سپریم کورٹ ایک سنگین آئینی بحران کے دہانے پر

نیز یہ امر بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے مسلمہ ہے کہ اگر کسی ریاست کے اندرونی معاملات سے بین الاقوامی امن کو خطرہ ہو، تو وہ بین الاقوامی مسئلہ بن جاتا ہے۔ (دیکھیے، اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 7 اور دفعہ 39۔) اب یہ امر کس سے پوشیدہ ہے کہ کشمیر 2 نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان خطرناک جنگ کا سبب بن سکتا ہے، اور کئی دفعہ بن بھی چکا ہے۔ اس لیے اسے کسی طور پر بھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں کہا جاسکتا۔

تیسرا سوال: ہمیں کون سے قانونی راستے دستیاب ہیں؟

سب سے پہلے تو ہمیں اپنے بنیادی تصور کو درست کرنا ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کا نہیں، بلکہ اس میں اصل فریق کی حیثیت کشمیریوں کو حاصل ہے جنہیں پاکستان ایک غاصب ریاست کے قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ اس زاویے سے آزاد جموں و کشمیر کےلیے آزادی کے بیس کیمپ اور اس کی حکومت کو ’جلاوطن حکومت‘ کی حیثیت  تسلیم کرنی ہوگی۔ یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہوجائے گا جیسے دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا، تو اس کی جلاوطن حکومت قائم کی گئی اور برطانیہ وغیرہ نے اس کی مدد کی اور آہستہ آہستہ فرانس کو جرمنی کے قبضے سے چھڑایا گیا۔ بین الاقوامی فورمز پر آزاد کشمیر کی حکومت کو اسی طرح آگے رکھ کر پاکستان اس کے پشتیبان کا کردار ادا کرے، تو یہ معاملہ زیادہ مؤثر طریقے سے دنیا کے سامنے اٹھایا جاسکتا ہے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ ہے اور پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کشمیر یقیناً پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور کشمیر کے بغیر پاکستان کےلیے بقا اور وجود کا سوال لاحق ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔

باقی رہا قانونی راستوں کا سوال، تو امکانات بہت ہیں۔ سوال امکانات کا نہیں، عزم اور منصوبہ بندی کا ہے۔

مزید پڑھیں: 26 ویں ترمیم کے بعد اصل مسئلہ: چیف جسٹس کی تعیناتی

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اگر کسی مستقل رکن کی جانب سے ویٹو کا خطرہ ہو، تو جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ وہاں ویٹو کی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہے اور  اس سے بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھانے میں مدد ملے گی۔

حقوقِ انسانی کی پامالی کے پہلو سے تو بہت بات ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن جیسا کہ تفصیل سے واضح کیا گیا، یہ صرف حقوقِ انسانی کی پامالی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پامالی مقبوضہ علاقے میں قابض طاقت کی جانب سے ہورہی ہے، اس لیے یہ جنگی جرائم بھی ہیں۔ اس پہلوکو خصوصا دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

ان جنگی جرائم کو کئی فورمز پر اٹھایا جاسکتا ہے جن میں ایک فورم بین الاقوامی فوجداری عدالت کا بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کسی نے اس عدالت کے منشور کی توثیق نہیں کی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس معاملے کو اس عدالت کی طرف بھیج دے گی، لیکن اس عدالت میں مقدمہ شروع کرنے کا ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ اس عدالت کے پراسیکیوٹر کے پاس اگر ثبوتوں اور شواہد سمیت وافر مقدار میں جنگی جرائم کی شکایات جمع ہوجائیں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کا جائزہ لے اور اگر وہ مطمئن ہو کہ بظاہر مقدمہ بنتا ہے، تو وہ عدالت میں مقدمہ شروع کرانے کی کارروائی کرسکتا ہے۔ اگر اپنی مصلحتوں کی بنا پر پاکستان کی حکومت اس پہلو سے کام نہ کرے، تو یہ کام عام افراد بھی کرسکتے ہیں اور بالخصوص دنیا کے مختلف ممالک میں موجود کشمیری (diaspora) اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی جامعات، بالخصوص ان کے شعبہ ہائے قانون، کشمیر کے مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر تحقیق میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

5 فروری بھارت پاکستان مسئلہ کشمیر مسئلہ کشمیر کی قانونی حیثیت یوم یکجہتی کشمیر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پاکستان مسئلہ کشمیر مسئلہ کشمیر کی قانونی حیثیت یوم یکجہتی کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی قانون مقبوضہ علاقے پاکستان اور جس کی رو سے پاکستان کے کی قانونی اس معاہدے کشمیر کے اس عدالت سے پہلے نہیں ہے کے ساتھ ہے اور کے بعد کے لیے

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔

عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د

ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فوج کو سیاست سے دور رکھیں، جنرل کی جرنلسٹوں کو شٹ اپ کال
  • پاک-بھارت جنگ روکنے کا 57ویں مرتبہ تذکرہ، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ کسی بھی تعاون سے متعلق امکان کو مسترد کردیا
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا: اختیار ولی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان