حضور نبی اکرمؐ کا ہر اْمتی آپؐ سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ مسلمان فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب تو ہو سکتا ہے مگر جب بات ناموس رسالتؐ پر پہرہ دینے اور عشق مصطفی ؐ کے اظہار کی ہو پھر کوئی مصلحت اْس کا راستہ نہیں روک پاتی، کچھ عرصہ سے مغرب کی طرف سے شانِ رسالت مآبؐ اور شعائر دین کے حوالے سے تکلیف دہ واقعات رونما ہوئے جس سے اْمہ کے نوجوانوں کے دل دماغ گھائل ہوئے اور شدید جذباتی ردعمل نے جنم لیا۔ ان واقعات کی وجہ سے عوامی سطح پر ٹکراؤ اور تصادم کا ماحول پیدا ہوا، مغرب کے بیشتر ملک ایسے واقعات کو آزادی اظہار کے پیرائے میں دیکھتے ہیں جبکہ مقدسات کی توہین پر ہمارا نکتہ نظر مختلف ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو مقدسات کی توہین کو جائز قرار دے یا اگر مگر کے ساتھ اس توہین کا راستہ کھولے۔ جب سے سوشل میڈیا کا زمانہ آیا ہے مقدسات کی توہین کو آزادی اظہار کے طور پر پیش کرنے کے پروپیگنڈا میں بھی شدت آئی ہے۔ عالم اسلام کی طرف سے عوامی اور سرکاری سطح پر کوششیں کی گئیں کہ بین المذاہب رواداری اور تہذیبی تصادم کو روکنے کے لئے مقدسات کی توہین کو روکا جائے، ان کوششوں سے کسی حد تک ذہن بدلے ہیں اور مقدسات کی توہین کو ایک جرم کے طور پر قبول کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھی احترام مذاہب ڈے منائے جانے کا فیصلہ کیا گیا جو خوش آئند ہے، تاہم اب بھی اس ضمن میں بہت سارا کام کرنا باقی ہے، اہل اسلام اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے خطہ میں جذباتی ردعمل عقل پر ہمیشہ حاوی پایا گیا ہے اور ہمارے علمائ، آئمہ مساجد اور نیم خواندہ مولوی حضرات نے ہمیشہ جلتی پر تیل گرایا ہے۔ کبھی اس صورت حال کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ مغرب کے لوگ ایک مخصوص آب و ہوا میں پرورش پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو چیزیں حلال وحرام کے زمرے میں آتی ہیں اْن کے ہاں یہ معمولات زندگی کا حصہ ہیں۔ اہل مشرق کی طرف سے اسلام کی قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں اہل مغرب کو منظم انداز کے ساتھ کبھی جانکاری نہیں دی گئی، اسلام کے بارے میں اْن کے تصورات لاعلمی یا تعصب پر مبنی رہے ہیں اور نائن الیون کے بعد اسلام کے اوپر انتہا پسندی کا داغ لگانے کے لئے جو تہمت بازی ہوئی اْس نے فقط میڈیا سے معلومات حاصل کرنے والے کچے ذہنوں کو اسلام کے بارے میں بری طرح متاثر کیا اور نہایت ہوشیاری کے ساتھ افغانستان کی ثقافت کو عملی ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا، حقیقت یہ ہے افغانستان ہو یا پاکستان کے خیبرپختونخوا کا خطہ یا بلوچستان یہاں مذہب سے زیادہ ثقافتی اقدار و روایات کے تحت لوگ زندگی بسر کرتے ہیں، یہی رویے اْن کے خواتین سے متعلق بھی ہیں مگر ’’پلاننگ‘‘ کے تحت خاندانی و علاقائی ثقافت اور اقدار و روایات کو اسلام کی تعلیمات بنا کر پیش کیا گیا جو ایک صریح غلط فہمی ہے۔ مغرب کی اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے علمی و عقلی سطح پر من حیث الجموع ہمارے اسلامی حلقوں اور تحریکوں نے جذباتیت سے پاک کردار ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ غلط فہمیاں دن بہ دن گہری ہوتی چلی گئیں، نائن الیون کے بعد اس میں شدت آئی اور مغرب میں آباد مسلمانوں کے لئے آزادانہ اپنے سماجی امور انجام دینا مشکل ہو گئے، وہ خود بھی اس بات پر پریشان تھے کہ اس الزام کا کیا جواب دیا جائے؟ اس ماحول میں بہرحال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بہت متحرک کردار ادا کیا، انہوں نے نائن الیون کے بعد تواتر کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، یورپ کے دورے کئے، کانفرنسز منعقد کیں اور بڑے زور دار دلائل دئیے، اس ضمن میں سیرت مصطفی ؐ پیش کی کہ اسلام کا نہ صرف انتہا پسندی سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ اسلام تو انتہا پسندانہ رویوں اور رجحانات کو ختم کرنے والا ضابطہء حیات ہے،یہ اسلام ہی تو ہے جس نے ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ بہرحال اب صورت حال بدل رہی ہے، حال ہی میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر ویانا میں بین المذاہب رواداری کانفرنس میں شرکت کی اور اسلام کی امن فلاسفی اور اس ضمن میں ریاست مدینہ کے عملی ماڈل پر سیر حاصل گفتگو کی، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا مؤقف تھا کہ اگر اسلام عدم برداشت کی حوصلہ افزائی کرنے والا دین ہوتا تو حضور نبی اکرمؐ ریاست مدینہ کے اندر دیگر مذاہب کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرتے اور نہ ہی اْنہیں دستوری تحفظ دیتے، آپؐ نے دیگر مذاہب کے ساتھ میثاق مدینہ کیا اور یہ میثاق تحریر فرماتے وقت دیگر مذاہب کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا اور اْنہیں مدینہ کی ریاست کے شہری کی حیثیت سے جان و مال کا تحفظ دیا اور اس بات کی گارنٹی دی کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی عبادات اور مذہبی رسومات انجام دے سکتے ہیں یہاں تک کہ دیگر مذاہب کو اپنی اقدار و روایات کے مطابق اپنے شہریوں کے حوالے سے عدالتی سطح پر فیصلے صادر کرنے کی بھی اجازت دی۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا یہ دعویٰ شرکائے کانفرنس کے لئے حیران کن تھا جس میں آپ نے کہا کہ حضور نبی اکرم ؐ نے نجران سے آئے ہوئے نصرانی وفد کو مسجد نبوی کے اندر عبادت کی اجازت دی، آپؐ غیر مذاہب نمائندوں کے احترام میں کھڑے ہوئے اور آپؐ نے گرجا گھروں کی حفاظت کی بھی گارنٹی دی، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا ہر جملہ ریفرنس کے ساتھ تھا شاید یہی وجہ ہے کہ اس عالمی کانفرنس کے موقع پر دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف مذاہب کے نمائندوں اور انسانی حقوق کے مختلف فورمز کے سربراہان نے اْن سے طویل ترین سوال و جواب کیا، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ایک ایک سوال کو ایڈریس کیا اور اْنہیں اپنی دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کے موضوع پر لکھی گئی کتب بھی تحفہ میں دیں۔ ہمارے سکالرز، علمائے کرام و دینی حلقوں کو مغرب کے ساتھ غیر جذباتی مدلل مکالمہ قائم کرنا ہو گا، وہ لوگ جذبات کی زبان کو نہیں سمجھتے، اْن کے ساتھ حقائق کی زبان میں بات کرنا ہو گی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈاکٹر حسن محی الدین قادری مقدسات کی توہین کو دیگر مذاہب اسلام کی مذاہب کے کیا گیا کے ساتھ اور اس ا نہیں کے لئے
پڑھیں:
چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کی دوست کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ پوری تفصیل سامنے آگئی
امریکی قدامت پسند سیاسی کارکن چارلی کرک کے قتل کے الزام میں گرفتار 22 سالہ ٹائلر رابنسن کے اپنے روم میٹ کو کیے گئے مسیجز سامنے آئے ہیں جس میں وہ کرک کو قتل کرنے کا انکشاف کررہا ہے۔
رابنسن کو گرفتار کرکے ان پر فرد جرم عائد کیا گیا ہے۔ استغاثہ کے مطابق روم میٹ نے پیغامات تفتیش کاروں کے حوالے کر دیے ہیں۔ ان پیغامات میں رابنسن نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ میں ہی یہ سب کچھ کرنے والا ہوں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی قدامت پسند سیاسی کارکن چارلی کرک کے قتل کے ملزم پر باضابطہ فردِ جرم عائد
چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کا اپنے روم میٹ کے ساتھ ٹیکسٹ مسیج پر یوں مکالمہ ہوا:
رابنسن: جو کر رہے ہو وہی چھوڑ دو، میرے کی بورڈ کے نیچے دیکھو۔
(جب روم میٹ نے کی بورڈ کے نیچے دیکھا تو وہاں ایک نوٹ تھا جس میں مبینہ طور پر لکھا تھا، ‘مجھے موقع ملا کہ میں چارلی کرک کو ختم کر دوں اور میں ایسا کرنے جا رہا ہوں۔’)
روم میٹ: ‘کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تم مذاق کر رہے ہو، ہاں؟؟؟؟’
یہ بھی پڑھیے: چارلی کرک کی آخری رسومات، غم سے نڈھال بیوی نے کیا پیغام دیا؟
رابنسن: میں ابھی بھی ٹھیک ہوں پیارے، مگر میں اوریم میں کچھ دیر کے لیے پھنس گیا ہوں۔ زیادہ دیر نہیں لگنی کہ گھر آ جاؤں مگر مجھے ابھی اپنی رائفل اٹھانی ہے۔ سچ بتاؤں تو میں یہ راز عمر بھر چھپا کر رکھنا چاہتا تھا۔ معاف کرنا کہ تمہیں اس میں شامل کرنا پڑا۔
روم میٹ: تم وہ شخص نہیں تھے جس نے یہ کیا، ہے نا؟؟؟
رابنسن: میں ہی تھا، مجھے معاف کردو۔
روم میٹ: مجھے لگا کہ اس شخص کو پکڑ لیا گیا تھا؟
رابنسن: نہیں، انہوں نے کسی پاگل بوڑھے کو پکڑ لیا، پھر کسی کو اسی طرح کے کپڑوں میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا۔ میں نے منصوبہ بنایا تھا کہ تھوڑی دیر بعد اپنی رائفل اپنے ڈراپ پوائنٹ سے اٹھا لوں گا، مگر شہر کے اس حصے کو لاک کر دیا گیا۔ یہاں خاموشی ہے، تقریباً نکلنے کے لیے مناسب ہے، مگر ایک گاڑی ابھی بھی ادھر کھڑی ہے۔
روم میٹ: کیوں؟
رابنسن: کیوں میں نے یہ کیا؟
روم میٹ: ہاں
رابنسن: میں اس کی نفرت سے تنگی ہو چکی تھی۔ بعض نفرت ایسی ہوتی ہے جسے مذاکرات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
رابنسن: اگر میں بنا دیکھے اپنی رائفل اٹھا لوں تو میرے بارے میں کوئی ثبوت باقی نہ رہتا۔ میں رائفل دوبارہ لینے کی کوشش کروں گا، امید ہے کہ لوگوں نے اپنی توجہ ہٹا لی ہوگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اسے پایا ہے یا نہیں۔
روم میٹ: تم نے یہ منصوبہ کتنی دیر سے بنایا تھا؟
رابنسن: شاید ایک ہفتے سے تھوڑا زیادہ۔ میں وہاں قریب پہنچ سکتا ہوں مگر اس کے پاس ایک اسکواڈ کار کھڑی ہے۔ میرا خیال ہے انہوں نے وہ جگہ پہلے ہی چھان لی مگر میں خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔
رابنسن: کاش میں نے واپس مڑ کر اسے اپنی گاڑی پر پہنچنے کے فوراً بعد اٹھا لیا ہوتا…. مجھے فکر ہے کہ اگر میں دادا کی رائفل واپس نہ لایا تو میرے والد کیا کہیں گے… مجھے نہیں معلوم اس پر سیریل نمبر تھا یا نہیں، مگر وہ مجھے ٹریک نہیں کرے گا۔ مجھے پرنٹس کی فکر ہے، مجھے اسے اس جھاڑی میں چھوڑنا پڑا جہاں میں نے کپڑے تبدیل کیے تھے۔ ساتھ لے جانے کا وقت نہیں تھا…. شاید مجھے اسے چھوڑنا پڑے اور امید رکھنی ہوگی کہ وہ پرنٹس نہ ملیں۔ میں اپنے والد کو یہ کس طرح سمجھاؤں گا کہ میں نے اسے کھو دیا….
واحد چیز جو میں نے چھوڑی وہ رائفل تھی جو تولیے میں لپٹی ہوئی تھی….
رابنسن: یہ پیغامات مٹا دو
یہ بھی پڑھیے: چارلی کرک کے قتل کے مرکزی ملزم کی اطلاع کس نے دی؟
رابنسن: میرے والد رائفل کی تصاویر چاہتے ہیں … وہ کہتے ہیں دادا جان جاننا چاہتے ہیں کہ کس کے پاس کیا ہے، فیڈز نے رائفل کی تصویر ریلیز کی ہے، اور وہ بہت منفرد ہے۔ وہ ابھی مجھے فون کر رہا ہے، جواب نہیں دے رہا۔
رابنسن: جب سے ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں، میرے والد ان کے کافی سخت گیر سپورٹر ہو چکے ہیں۔
رابنسن: میں خود چھوڑ کے پیش ہو جاؤں گا، یہاں میرے ایک پڑوسی میں شیرف کا ڈپٹی ہے۔
رابنسن: تم ہی وہ ہو جس کی مجھے فکر ہے پیارے۔
روم میٹ: مجھے تمہاری زیادہ فکر ہے۔
رابنسن: میڈیا سے بات مت کرنا براہِ کرم۔ کوئی انٹرویو یا تبصرہ نہ دینا۔ … اگر پولیس کوئی سوال کرے تو وکیل طلب کرو اور چپ رہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
charlie kirk murder ٹائلر رابنسن چارلی کرک