بنگلا دیشی عوام کا شیخ مجیب کی یادگار اور رہائش گاہ پر دھاوا، توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگادی WhatsAppFacebookTwitter 0 6 February, 2025 سب نیوز


ڈھاکہ:بنگلا دیش میں مظاہرین نے بنگلا آرائی کرتے ہوئے شیخ مجیب کی یادگار اور معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کی تاریخی رہائش گاہ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور آگ لگادی۔
برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بدھ کی رات ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈھاکا ایک ریلی نکالی اور مارچ کیا جسے ’بلڈوزر پروسیشن‘ کا نام دیا گیا۔
اس جلوس کا مقصد شیخ حسینہ کے مرحوم والد اور بنگلا دیش کی علیحدگی کی تحریک کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کے گھر کو گرانا تھا جنہوں نے 1971 میں پاکستان سے ملک کی علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
مارچ کے آغاز اور مظاہرین کے اشتعال کی وجہ شیخ حسینہ کا اپنی جماعت عوامی لیگ پارٹی کے حامیوں سے بھارت سے تقریر کرنے کا منصوبہ سامنے آنے کے باعث ہوا، وہ اپنی 15 سال سے جاری حکمرانی کے خلاف طلبا کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کے بعد بھارت فرار ہونے پر مجبور ہوگئیں اور وہاں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین رات 8 بجے گھر کے قریب جمع ہونا شروع ہوئے، اس موقع پر عمارت میں گھسنے سے پہلے مظاہرین میں سے کچھ نے لاٹھیاں، ہتھوڑے، بیلچے اور دیگر اوزار اٹھائے ہوئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عمارت کی بالائی منزل پر رات 9 بج کر 30 کے قریب آگ لگادی گئی، رات گئے تک کم از کم ایک کرین اور ایک ایکسکیویٹر موقع پر پہنچا، اس دوران عمارت کے کچھ حصے منہدم ہو گئے۔
مقامی میڈیا کے مطابق عوامی ہجوم کی جانب سے عوامی لیگ پر پابندی کا بھی مطالبہ کیا، منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں گھر کی ایک منزل پر آگ کے شعلے دکھائی دے رہے تھے۔
مقامی میڈیا کے مطابق سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی آن لائن تقریر کے بعد عوامی لیگ کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔
ڈھاکا ٹریبیون نے رپورٹ کیا کہ سوشل میڈیا پر مطالبہ کیا گیا تھا کہ اگر شیخ حسینہ آن لائن تقریر کرتی ہیں توشیخ مجیب الرحمان کی دھانمنڈی 32 میں واقع رہائش گاہ کی طرف ’بلڈوزر جلوس‘ لے جایا جائے۔
رپورٹ کے مطابق رات 8 بجے کے قریب مظاہرین ایک ریلی کی شکل میں شیخ مجیب کی رہائش گاہ پہنچے، عوام مین گیٹ کو توڑتے ہوئے زبردستی اندر گھس گئے، مظاہرین نے رہائش گاہ میں موجود شیخ مجیب الرحمان کی تصاویر کو بھی نذ ر آتش کردیا۔
امتیازی سلوک مخالف اسٹوڈنٹ موومنٹ کے کنوینر حسنات عبداللہ نے فیس بک پر پوسٹ کیاکہ آج رات، بنگلا دیش کی سرزمین فاشزم سے آزاد ہو جائے گی۔
مظاہرین نے اس موقع پر کہا کہ شیخ مجیب الرحمان کا خاندان آمریت اور فسطائیت کی علامت ہے، بنگلادیش سے مجیب ازم کے فاشزم کے ہر نشان کو مٹا دیا جائے گا، مظاہرین کی جانب سے شیخ حسینہ واجد کو واپس لا کر پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق دیگر شخصیات، بشمول انقلاب منچہ کے کنوینر اور جاتیو ناگورک کمیٹی کے رکن شریف عثمان ہادی نے بھی حملے کی وارننگ پوسٹ کی۔
گزشتہ سال 5 اگست کوبھی مظاہرین نے شیخ مجیب کی رہائش گاہ پر حملہ کیا اور کچھ حصےکو آگ لگا دی تھی۔
یہ گھر بنگلا دیش کی تاریخ میں ایک علامتی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ شیخ مجیب نے یہاں سے نام نہاد تحریک آزادی کی قیادت کی تھی۔
شیخ حسینہ کے دور حکومت میں اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جہاں عالمی رہنما سرکاری پروٹوکول کے تحت دورہ کرتے تھے۔
بنگلا دیش میں انقلاب اور حکومتی تبدیلی کے بعد سے شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ تاحال زیرعتاب ہے، شیخ حسینہ کیخلاف عوامی غصہ اب بھی برقرار ہے اور عوام کی جانب سے احتجاج کیے جاتے ہیں، شیخ حسینہ گزشتہ سال اگست میں بنگلا دیش سے بھارت فرار ہو گئی تھیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: شیخ مجیب الرحمان شیخ مجیب کی مظاہرین نے بنگلا دیش رہائش گاہ عوامی لیگ ا گ لگادی کے مطابق کے بعد

پڑھیں:

بجٹ 2025ء اور ابن آدم کی ٹوٹی کمر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مجھے آج سے 40 سال پہلے کا بجٹ بھی یاد ہے جب جون کے مہینے میں تمام عوام کو بجٹ کا بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ سرمایہ دار بجٹ سے پہلے اُن اشیا پر سرمایہ لگاتا تھا جس کا اُس کو اندازہ ہوتا کہ آنے والے بجٹ میں اس اشیا پر پیسے بڑھیں گے۔ سرکاری ملازم کو انتظار ہوتا کہ اُس کی تنخواہ بڑھنے والی ہے، پنشنرز کو انتظار ہوتا کہ اُس کی پنشن میں اضافہ ہوگا۔ اُس زمانے میں اتنے ٹیکس بھی نہیں ہوتے تھے آج تو عوام ٹیکس پر ٹیکس ادا کررہی ہے۔ KE کے خلاف عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو اللہ کی مخلوق نے ایک درخواست پیش کی جس میں تحریر ہے کہ کے ای سمیت ملک بھر میں تمام الیکٹرک سپلائز کمپنیز سے درج ذیل 13 نکاتی ٹیکسز کی وضاحت طلب کی جائے۔
-1 بجلی کی قیمت ادا کردی تو اس پر کون سا ٹیکس؟
-2 کون سے فیول پر کون سی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟
-3 کس پرائس پر الیکٹر سٹی پر کون سی ڈیوٹی؟
-4 کون سے فیول کی کس پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟
-5 بجلی کے یونٹس کی قیمت ’’جو ہم ادا کرچکے‘‘ پر کون سی ڈیوٹی اور کیوں؟
-6 ٹی وی کی کون سی فیس، جبکہ ہم الگ سے پیسے دے کر کیبل استعمال کرتے ہیں؟
-7 جب ماہانہ بل ادا کیا جاتا ہے تو یہ کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟
-8 کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟
-9 جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کررہے ہیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟
-10 کس چیز کے اور کون سے Further ’’اگلے‘‘ چارجز؟
-11 ودہولڈنگ چارجز کس شے کے؟
-12 میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا اس کا کرایہ کیوں؟
-13 بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟
-14 اگر گزشتہ 6 ماہ میں ایک دفعہ بھی آپ کے یونٹ 200 کو ٹچ کرجائیں تو اگلے 6 ماہ آپ کے یونٹ کا ریٹ پہلے 200 یونٹ والا ہی ہوگا۔ جبکہ ہر مہینے ادائیگی کرنے پر بار بار ادائیگیاں۔ یہ کون سا ظلم کا فارمولا ہے۔ اس کے علاوہ ہر 100 یونٹ کے بعد ایک سلیب الگ بنا رکھا ہے۔ اتنے ظالمانہ ٹیکس لینے کے بعد بھی ہوس نہیں بھری تو ہر 100 یونٹ کے بعد 500 کا بھتا الگ رہتا ہے۔ یہ ظلم کا ایسا نظام ہے جو ہمارے ملک کے سوا کسی اور ملک میں رائج نہیں، مگر شاباش ہے حکومت اور حکومتی اداروں کو جن کو یہ ظلم نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ غیر قانونی لوڈشیڈنگ الگ۔ ابن آدم سوچ رہا تھا کہ شاید موجودہ حکومت کو اپنے عوام پر ترس آجائے مگر بجٹ 2025ء نے ابن آدم کی اس سوچ کو تبدیل کردیا، موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے جس کو صرف حکومت نے پیش کیا ہے۔
پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام، ان کی تعداد، شرح اور انہیں جمع کرنے کا طریقہ کار ہمیشہ سے حکومت اور صنعتی و تجارتی حلقوں کے درمیان تنازعات کا باعث رہا۔ فی الواقع کاروباری برادری ٹیکس دینا چاہتی ہے، فکس ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن اکثر لوگ نظام سے خوفزدہ ہیں۔ صرف ایک بجلی کے بل پر کئی کئی مدوں میں ٹیکس لاگو ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا ٹیکس نظام عوام دوست بنایا جائے مگر حکومت اس میں ناکام نظر آتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہر سال کا پیش کردہ وفاقی بجٹ کبھی بھی عوامی خواہشات کے مطابق نہیں ہوتا لیکن اس سال کا وفاقی بجٹ تو سرے سے ہی عوام توقعات اور خواہشات سے مطابقت نہیں رکھا۔ دنیا بھر کے ممالک عوام کو ریلیف دینے کے بجٹ میں اقدامات اٹھاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہر دفعہ بجٹ میں غریب عوام سے قربانی مانگ کر ملک کے 15 فی صد اشرافیہ کو ریلیف دینے کے لیے بجٹ آتا ہے۔
حالیہ بجٹ بھی پہلے بجٹ کی طرح ایک گورکھ دھندا نظر آتا ہے۔ اس مرتبہ حکومت نے سرکاری ملازمین کو ہری جھنڈی دیکھا دی کہ آئی ایم ایف بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کو تیار نہیں تو دوسری طرح بجٹ کے اعلان سے پہلے ہی ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی وفاقی و صوبائی وزرا مشیران اسپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ اور ارکان سینیٹ کی تنخواہوں اور الائونس میں تقریباً 300 سے بھی کہیں زیادہ اضافہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا کہ حکومت صرف اپنا پیٹ بھر رہی ہے اُسے ملک کے غریب عوام سے کوئی دلچسپی، مجھے محمود خان اچکزئی کی تجویز بہت پسند آئی کہ جو حکومتوں میں رہے ان کی وسائل سے زیادہ جائدادیں ضبط کرکے آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کیا جائے۔ بات ہے بھی سچ اس وقت اگر صرف 3 سیاسی پارٹیوں کے وزرا، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے کو اگر دیکھیں تو ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ پاکستان کا سارا قرضہ باآسانی اُتر سکتا ہے۔ اول جماعت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان آج یہ سب ارب پتی بن چکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان میں تو اختیارات کی رسا کشی آج بھی جاری مگر اتنی ہمت کرے گا کون کیونکہ ان کو تو عوام لے کر آئے نہیں ہیں ان کی تو راتوں رات لاٹری نکل آئی جو شخص علاقے کے کونسلر کے قابل نہیں تھا وہ اسمبلیوں میں جا کر بیٹھ گیا، ملک میں حکومت عوام کی منتخب کردہ نہیں ہے لہٰذا ان کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بس اداروں کو فروخت کرنے کی تیاری میں لگے ہیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اوپر والے نہیں چاہتے کہ اس قوم کی حالت بدلے، واحد جماعت اسلامی ہے جو عوام کا درد رکھتی ہے باقی تو ملک کو تباہ کرنے والی کمپنی کے ملازم ہیں۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کے مطابق اگر آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے تو بجلی کی فی یونٹ قیمت آدھی ہوسکتی ہے۔ مگر حکومت نے آپ کے دھرنے پر وعدہ کیا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا آپ کو دوبارہ سے میدان میں آنا ہوگا عوام کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ امیر نے کہا کہ جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت پر خاموش نہیں رہ سکتی، آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا اداروں کے اپنے مفاد میں ہے۔ بجٹ میں مراعات یافتہ طبقہ پر مزید مراعات کی بوچھاڑ کی گئی ہے۔ تنخواہ دار، کسان، مزدور اور عام آدمی کے لیے بجٹ میں رتی برابر سہولت نہیں، حکومت اشیا ضروریہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکے عام آدمی کو سہولت دے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنی جدوجہد سے ملک میں موجود قیادت کے خلا کو پُر کرسکتی ہے۔ عوامی حقوق کی جدوجہد سے جماعت اسلامی کے قدم آگے بڑھے ہیں، یہ چومکھی جدوجہد ہے جو جماعت کے کارکن کو کرنی ہے اور معاشرے میں تبدیلی کی بنیاد رکھنی ہے۔ ہم نے رائے عامہ کو بہترین حکمت عملی سے تبدیل کرکے اپنا حامی بنانا ہے۔ معاشرے میں موجود ظالمانہ نظام کا خاتمہ کرکے منصفانہ نظام قائم کرنا ہے، کارکن اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں کامیابی ضرور ملے گی۔
ابن آدم کہتا ہے آج کے پرآشوب دور میں فلسفہ انسانیت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے جو آپ کو جماعت اسلامی کے اندر نظر آتا ہے آخر میں فیس بک کی اس پوسٹ کے ساتھ کالم ختم کرتا ہوں۔ بجٹ میں صحت کے لیے ’’ہوالشافی‘‘، تعلیم کے لیے ’’ربّ زدِنی علما‘‘ اور روزگار کے لیے ’’واللہ خیر الرزاقین‘‘ کے وطائف مختص کیے ہیں، حکومت کی اعلیٰ ظرفی قابل تحسین ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران پر حملہ نامنظور، نیو یارک میں ہزاروں افراد کا ٹرمپ کے خلاف مظاہرہ
  • بجٹ 2025ء اور ابن آدم کی ٹوٹی کمر
  • پاکستان، چین، بنگلا دیش: مشترکہ ترقی کے نئے راستے
  • اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں، اسحاق ڈار
  • بنگلہ دیشی جامعات کے وائس چانسلرز کے وفد کا دورۂ پاکستان مکمل، 20 سے زائد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • غزہ اور ایران پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف امریکا و یورپی ممالک میں احتجاج
  • چینی کی قیمت میں اضافہ جاری، عوام کیلئے میٹھا بھی تلخ ہو گیا
  • بلوچستان، محرومیوں کی داستان
  • عمانی بائیکرز کا دورہ پاکستان دونوں برادر ممالک کے عوامی رابطوں کے استحکام اور ثقافتی تبادلوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا،حکومت بائیکرز کے دورہ کو محفوظ، آرام دہ اور یادگار بنانے کے لیے پرعزم ہے، رانا ثناء اللہ
  • بنگلہ دیشی وزارت خارجہ میں اہم تبدیلی، اسد عالم سیام نئے سیکرٹری خارجہ مقرر