اسلام آباد:

وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک  نے کہا ہے  کہ پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمان  کو استعمال کرنا چاہتی ہے اور ان کے کاندھے  پر رکھ کر بندوق چلانا  چاہتی ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے  ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمان  کو استعمال کرنا چاہتی ہے مولانا  صاحب کی بالکل اسٹریٹ پاور ہے اور وہ پر امن احتجاج کرتے ہیں، جلاؤ گھیراؤ کی سیاست نہیں کرتے، پی ٹی آئی مولانا صاحب کے کندھے  پر رکھ کر بندوق چلانا  چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی  نے ہمیشہ سڑکوں کی سیاست کی، جلاؤ  گھیراؤ  ہی ان کی سیاست ہے۔ رہنما ن لیگ  بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی صوابی میں بالکل احتجاج کرے، احتجاج کا حق ہے لیکن پر امن احتجاج ہونا چاہیے۔  

تاہم  ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک لاہور میں تحریک انصاف  کے  احتجاج کی بات  ہو رہی ہے تو لاہور میں  انٹرنیشنل ایونٹس ہیں،  پاکستان نیوزی لینڈ کا  انٹرنیشنل کرکٹ میچ ہے، لوگوں کو باہر نکالنا پی ٹی آئی کا سر درد  بن چکا ہے۔  پی ٹی آئی بے شک سڑکوں پر جائے اس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وزیراعظم کے مشیر  بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آئین میں ججز کے تبادلے کا طریقہ کار واضح طور پر درج ہے، سینئرٹی کا معاملہ چیف جسٹس نے طے کرنا ہے اور اگر یہ معاملہ کسی فورم پر  چیلنج کیا جاتا ہے تو وہ بھی سامنے آ جائے گا۔

انہوں  نے کہا کہ یہ ابہام ضرور ہے کہ  ٹرانسفر ہو کر آنے والے ججز مستقل ہوں گے  عارضی طور پر اس کا فیصلہ  چیف جسٹس صاحبان نے کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فی الحال کسی نئے الیکشن کا متحمل نہیں ہو سکتا ، ہم نے ایک سال میں بہت کچھ حاصل کیا ہے، پاکستان دوبارہ اڑان کے لیے تیار ہے، حکومت نے مثبت اقدام اٹھائے، ثمرات جلد عوام تک پہنچیں گے۔

وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اپوزیشن میں ہیں، پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ ان کا  کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں آپس میں  گروپ بندی اور کھینچا تانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ  ٹرمپ کی فلسطین کے حوالے سے پوزیشن انتہائی قابل مذمت ہے ، حکومت  بھی امریکی صدر  ٹرمپ کے اقدام کی مخالفت کرتی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے  لیگی رہنما نے کہا کہ  دیکھ لیں کہ  پی ٹی آئی  کیسے لوگوں سے توقع رکھتی ہے؟۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بیرسٹر عقیل ملک کہ پی ٹی آئی نے کہا کہ چاہتی ہے کے مشیر

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم: صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ اور کتنی کمی ہو سکتی ہے؟

وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم نے ملک میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے ایک نئی سیاسی اور آئینی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

ترمیم کے مسودے کے مطابق تعلیم، آبادیاتی منصوبہ بندی اور مالی وسائل کی تقسیم جیسے اہم شعبے، جو 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے دائرہ اختیار میں آ گئے تھے۔ دوبارہ وفاق کے کنٹرول میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

اس حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم اگر منظور ہو گئی تو صوبائی خودمختاری میں واضح کمی واقع ہو سکتی ہے، جبکہ وفاق کے اختیارات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ ترمیم کا مقصد قومی سطح پر پالیسی سازی میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ریاستی نظام کو مؤثر بنانا ہے، تاکہ اہم معاملات پر یکساں فیصلے ممکن ہو سکیں۔

صوبوں کی مالی خودمختاری وفاق کے ماتحت آ جائےگی، نصرت جاوید

اس حوالے سے کالم نگار اور سینیئر سیاسی تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہاکہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری صوبوں کے اختیارات میں نمایاں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ نظام میں قومی خزانے کا قریباً 60 فیصد حصہ صوبوں کو منتقل ہوتا ہے، لیکن اگر وفاق کے اختیارات میں اضافہ ہوا تو صوبوں کی مالی خودمختاری وفاق کے ماتحت آ جائے گی

نصرت جاوید کے مطابق اس صورت میں مرکز مزید مضبوط ہو جائے گا اور صوبائی حکومتیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق پر منحصر ہو جائیں گی، کیونکہ مالی وسائل کا کنٹرول وفاق کے ہاتھ میں ہوگا۔

ان کے خیال میں یہ ترمیم اگر منظور ہو جاتی ہے تو ملک کے سیاسی اور مالی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور سرمائے کا بڑا حصہ وفاق کی جانب منتقل ہو جائےگا۔

صوبوں کو دیے گئے مالی وسائل کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا، انصار عباسی

سینیئر تجریہ کار انصار عباسی کا کہنا تھا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ابھی تفصیلات واضح نہیں ہو سکیں، تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق ترمیم میں صوبوں کے اختیارات، مجسٹریسی نظام کی بحالی اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ترمیم کے تحت ضلعی سطح پر مجسٹریسی نظام کی بحالی پر غور کیا جا رہا ہے، جس سے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو دوبارہ عدالتی نوعیت کے اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں ان عہدوں پر فائز افسران کو موقع پر سزائیں دینے اور کئی سالوں کی قید تک کے احکامات جاری کرنے کے اختیارات حاصل تھے۔

’اس نظام کی بحالی سے صوبائی حکومتوں کا کنٹرول ضلعی سطح پر مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے کیونکہ مجسٹریٹس براہِ راست صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔‘

انصار عباسی کے مطابق اگر صوبوں کو مزید اختیارات دیے جاتے ہیں تو ان کی گورننس کپیسٹی میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ ’جب تک صوبے اپنی مالی اور انتظامی صلاحیت نہیں بڑھاتے، وفاق سے منتقل ہونے والے وسائل مؤثر انداز میں استعمال نہیں ہو سکیں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ترمیم کے تناظر میں یہ بھی تجویز زیرِ غور ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دیے گئے مالی وسائل اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے۔

’وفاقی حکومت کے بہت سے پروگرامز سے صوبوں کے شہری مستفید ہوتے ہیں‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے ذمے اب بھی متعدد ایسے پروگرامز ہیں جن سے براہِ راست صوبوں کے شہری مستفید ہوتے ہیں، جیسے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ، اگر صوبے اپنے حصے میں کمی قبول نہیں کرتے تو انہیں ان سماجی فلاحی پروگرامز میں مالی شرکت کرنی چاہیے۔

’اسی طرح زرعی سبسڈیز اور دیگر عوامی فلاحی اسکیمیں بھی جن سے صوبوں کے شہری براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہیں، مستقبل میں صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں منتقل کیے جانے کا امکان ہے۔‘

انہوں نے مزید کہاکہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق اگر وفاق ان پروگرامز سے بتدریج دستبردار ہو جائے تو ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کی بچت ممکن ہے۔

انصار عباسی کے مطابق کچھ شعبے ایسے ہیں جنہیں مرکزی سطح پر برقرار رکھا جانا چاہیے ان میں تعلیم کا شعبہ نمایاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تعلیم وفاق کے ماتحت ہو تو ایک قومی نصاب، یکساں نظریہ اور ہم آہنگ قومی شناخت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

’اٹھارویں آئینی ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، اس میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، بشرطِیکہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں۔‘

18ویں ترمیم جب منظور ہوئی تو اس وقت بھی کئی اعتراضات کیے گئے تھے، احمد ولید

سیاسی تجزیہ کار احمد ولید نے کہاکہ وفاقی حکومت ایک بار پھر قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے تحت فنڈز کی تقسیم کے طریقہ کار پر نظرثانی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

ان کے مطابق وفاق کو طویل عرصے سے شکایت ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد زیادہ تر مالی وسائل صوبوں کو منتقل ہو گئے، جس کی وجہ سے وفاق کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم کی شدید کمی رہ جاتی ہے۔

احمد ولید نے مزید بتایا کہ جب 18ویں ترمیم منظور کی گئی تھی تو اس وقت بھی وفاق میں اس پر کئی اعتراضات اٹھائے تھے۔ ان کے مطابق عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران کئی تقاریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ سارا پیسہ صوبوں کو دے دیا گیا ہے، اور وفاق کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔

’وسائل کی کمی کی وجہ سے وفاق کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘

انہوں نے کہاکہ وفاق کو پاک افواج، پینشن یافتہ سرکاری ملازمین اور مختلف قومی ذمہ داریوں کا مالی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، جو کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اب جو منصوبہ بندی سامنے آ رہی ہے، اس کے مطابق این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والے فنڈز کا ایک بڑا حصہ واپس وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔

’حکومت خود اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ وفاق کے پاس پیسے نہیں بچتے، اور جب کسی بھی قومی ضرورت کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں تو وفاق کے پاس وہ رقم موجود نہیں ہوتی۔‘

احمد ولید کے مطابق اس فیصلے کا سب سے بڑا اثر صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر پڑے گا، اگر صوبوں کی فنڈنگ میں کمی ہوئی تو وہ اپنے جاری منصوبے بروقت مکمل نہیں کر سکیں گے۔

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ

’جب وسائل کم ہوں گے تو صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے سست روی کا شکار ہو جائیں گے، جس کا براہِ راست نقصان عوام کو پہنچے گا، کیونکہ کچھ منصوبے ایسے بھی ہوتے ہیں جو وفاق سے آنے والی فنڈنگ پر ہی چل رہے ہوتے ہیں، تو اب اگر فنڈنگ نہیں آئے گی تو وہ تمام منصوبے متاثر ہوں، ان سارے معاملات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ماہرین اٹھارویں ترمیم حکومت پاکستان ستائیسویں آئینی ترمیم صوبوں کے اختیارات وفاق فنڈز وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم: صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ اور کتنی کمی ہو سکتی ہے؟
  • حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے، بیرسٹر سیف
  • اسلام آباد احتجاج پر پارٹی پر پابندی اور کے پی میں گورنر راج، فیصل واوڈا نے پی ٹی آئی کو خبردار کردیا
  • مولانا فضل الرحمان اسلام آباد پہنچ گئے، 27ویں آئینی ترمیم زیرِ غور
  • ترک پارلیمانی وفد کی بنگلہ دیش کے خارجہ مشیر سے ملاقات، روہنگیا کیمپوں کا دورہ
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • لاہور میں بلوچستان کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں گے، مولانا ہدایت الرحمان
  •  بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا : ملک محمد احمد خان