ٹرمپ کی دھمکی کارگر‘ نہرپاناما میں امریکی جہازوں کی فیس معاف
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا
کے سرکاری بحری جہاز اب پاناما کینال سے کسی بھی قسم کی فیس ادا کیے بغیر گزر سکیں گے۔ محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہاہے کہ پاناما کی حکومت نے آمادگی ظاہر کی ہے کہ پاناما کینال سے گزرنے والے امریکی سرکاری جہازوں پر آئندہ فیس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے امریکا کو کروڑوں ڈالر کی بچت ہو گی۔دوسری جانب اس آبی گزر گاہ کا انتظام سنبھالنے والی ’پاناما کینال اتھارٹی‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتھارٹی نے امریکا کو ایسی کوئی رعایت دینے پر تاحال اتفاق نہیں کیا ہے۔اتھارٹی کے مطابق وہ امریکی حکام سے اس حوالے سے مزید بات چیت کے لیے تیار ہے۔واضح رہے کہ امریکا کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا پہلا دورہ وسطی امریکا کے ممالک کا کیا تھا۔ اس دورے میں وہ اتوار کو پاناما پہنچے تھے جہاں انہوں نے پاناما کے صدر ہوزے راول ملینو اور پاناما کینال کے حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔اس دورے میں امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ چین پاناما کینال پر اثر و رسوخ اور کنٹرول کی “ناقابلِ قبول” کوشش کر رہا ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا تو امریکا پاناما کینال تک رسائی کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔مارکو روبیو نے اتوار کو پاناما کینال کا بھی دورہ کیا تھا اور وہاں کی انتظامیہ سے گفتگو کی تھی۔ پاناما کینال بحرِ اوقیانوس (اٹلانٹک) اور بحر الکاہل (پیسیفک) کو ملانے کے لیے بنائی گئی آبی گزرگاہ ہے جس کا کنٹرول وسطی اور جنوبی امریکہ کے سنگم پر واقع ملک پاناما کے پاس ہے۔امریکہ کے تعاون سے بننے والی اس کینال سے گزرنے والے جہازوں سے پاناما فیس وصول کرتا ہے۔امریکہ نے 1999 میں اس کینال کا کنٹرول پاناما کے سپرد کر دیا تھااور اب اس کی نگرانی ایک خود مختار سرکاری ادارہ ’پاناما کینال اتھارٹی‘ کے پاس ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینال کے استعمال کی فیس پر تنقید کر چکے ہیں اور انہوں نے کینال کو پاناما کے حوالے کرنے کے فیصلے کو ’احمقانہ‘ قرار دیا تھا۔صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاناما نے امریکہ کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا۔پاناما کینال کی وجہ سے شمالی امریکا سے بحرِ اوقیانوس کی طرف جانے والے یا آنے والے بحری جہازوں کا سفر تقریباً 11 ہزار کلومیٹر تک کم ہوجاتا ہے۔امریکہ اس بحری راستے کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے اور یہاں سے گزرنے والے جہازوں میں سے 74 فی صد امریکہ کے ہوتے ہیں۔اس کینال کا استعمال کرنے والا دوسرا بڑا ملک چین ہے جس کا اس کینال کے ٹریفک میں شیئر 21 فی صد ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاناما کینال پاناما کی پاناما کے امریکہ کے اس کینال نے والے
پڑھیں:
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔