Daily Ausaf:
2025-07-25@02:54:44 GMT

مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر اور موجودہ صورتحال

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے مسلمان حکومت آٹھویں صدی ہجری میں قائم ہوئی اور شاہ میر نے ۷۴۰ھ مطابق ۱۳۳۹ء میں سلطان شمس الدین اول کے لقب کے ساتھ اسلامی اقتدار کا آغاز کیا۔
اس کے بعد وادی کشمیر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے ۱۸۴۶ء میں جموں کے ہندو ڈوگرہ خاندان کے تسلط میں چلی گئی جب فرنگی حکمرانوں نے ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت پچھتر لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض کشمیر کا یہ خطہ ڈوگرہ خاندان کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ مگر جب گلاب سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کرنا چاہا تو کشمیر کے مسلم حکمران شیخ امام دین نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور میدانِ جنگ میں گلاب سنگھ کو شکست دے کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔
اس کے بعد کرنل لارنس کی قیادت میں انگریزی فوج میدان میں آئی اور شیخ امام دین کو شکست دے کر اس نے گلاب سنگھ کو کشمیر کا قبضہ دلا دیا۔ تب سے کشمیری عوام کی جنگ آزادی جاری رہی ہے اور کشمیری مسلمان ڈوگرہ حکمرانوں کے دور سے مسلسل نبرد آزما چلے آرہے ہیں۔
۱۸۳۱ء میں مجاہدین بالاکوٹ کے امیر حضرت سید احمد شہیدؒ کشمیری عوام کی دعوت پر ان کی مدد اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے مظفر آباد آرہے تھے اور تاریخی روایات کے مطابق ان کے مجاہدین نے مظفر آباد چھاؤنی کو فتح بھی کر لیا تھا مگر بالاکوٹ کے مقام پر حضرت سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے رفقاء کی شہادت کے باعث یہ مہم آگے نہ بڑھ سکی۔
۱۹۳۱ء میں ڈوگرہ حکمرانوں کے وحشیانہ مظالم کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے ’’آل انڈیا مجلس احرار اسلام‘‘ میدان میں آئی اور تیس ہزار کے لگ بھگ رضاکاروں نے ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہو کر گرفتاری دی جبکہ ۲۲ نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا اور باقاعدہ سیاسی جماعتیں تشکیل پائیں۔
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے موقع پر توقع پیدا ہو گئی تھی کہ واضح مسلم اکثریت رکھنے اور پاکستان کے پڑوس میں ہونے کے باعث جموں و کشمیر کی ریاست پاکستان میں شامل ہوگی اور کشمیری عوام کو ڈوگرہ خاندان کی ایک سو سالہ غلامی سے نجات مل جائے گی۔ مگر جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں، کشمیر اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقہ جات سمیت پوری ریاست کا بھارت کے ساتھ یک طرفہ الحاق کا اعلان کر دیا اور بھارت نے اپنی فوجیں فوری طور پر ریاست میں داخل کر دیں۔ جس کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمان عوام نے علم جہاد بلند کیا اور قبائل کے غیور پٹھانوں اور پاکستانی فوج کی مدد سے جموں و کشمیر کا وہ خطہ آزاد کرا لیا جسے ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔
اُدھر گلگت، بلتستان اور سکردو کے عوام بھی ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور علم جہاد بلند کر کے اپنے علاقے کو ڈوگرہ خاندان سے آزاد کرا لیا۔ یہ علاقہ جموں و کشمیر کے ’’بین الاقوامی طور پر متنازعہ خطہ‘‘ کا حصہ ہے اور تنازع طے ہونے تک حکومت پاکستان نے عارضی طور پر اس خطہ کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔
پاکستان کے بجائے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کی راہ ہموار کرنے میں جہاں ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی اپنی ریاست کے عوام کے ساتھ غداری کا بڑا رول ہے وہاں قادیانیوں کا کردار بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس لیے کہ اس وقت بھارت کے پاس کشمیر میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ تھا جو مشرقی پنجاب کے ضلع گوداسپور سے گزرتا تھا۔ مشرقی پنجاب کے بارے میں تقسیم کا یہ فارمولا تھا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ جو علاقے مسلم اکثریت کے ہیں وہ پاکستان کا حصہ ہوں گے اور جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے وہ بھارت میں شامل ہوں گے۔ اس فارمولے کے مطابق علاقوں کی تقسیم اور بین الاقوامی سرحد کے تعین کے لیے لارڈ ریڈ کلف کی سربراہی میں کمیشن کام کر رہا تھا۔ قادیانیوں کا مرکز ’’قادیان‘‘ ضلع گوداسپور میں واقع ہے اور اس ضلع میں آبادی کی پوزیشن یہ تھی کہ اگر قادیانی گروہ اپنا شمار مسلمانوں کے ساتھ کراتا تو ضلع گورداسپور مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پا کر پاکستان میں شامل ہو جاتا۔ اور اگر قادیانیوں کا شمار غیر مسلموں میں ہوتا تو یہ علاقہ غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار پا کر بھارت کا حصہ بنتا۔ یعنی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان آبادی کے تناسب کی کنجی قادیانیوں کے ہاتھ میں تھی مگر قادیانی گروہ نے، جو آج قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں پاکستانی پارلیمنٹ کے فیصلے کے خلاف پوری دنیا میں شور مچا رہا ہے اور اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کر کے خود کو زبردستی مسلمان کہلانے پر بضد ہے، تقسیم ہند کے موقع پر انہوں نے قادیانی امت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت پر ریڈ کلف کمشن کے سامنے اپنا کیس مسلمانوں سے الگ اور جداگانہ حیثیت سے پیش کیا جس کی وجہ سے گورداسپور کا یہ علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ تسلیم نہ ہوا اور اسے بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اسی سے بھارت کو کشمیر میں داخلے کا راستہ ملا اور اس نے فوجیں داخل کر کے ریاست پر قبضہ کر لیا۔
دوسری طرف مظفر آباد، پونچھ اور میرپور میں کشمیری مجاہدین قبائلی مسلمانوں اور پاکستانی فوج کی مدد سے علم جہاد بلند کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور بعض دستے پونچھ شہر اور سری نگر کے نواح میں پہنچ گئے تھے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اقوام متحدہ نے ایک واضح قرارداد کے ذریعے سے کشمیری عوام کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہوئے جنگ بندی کی اپیل کر دی کہ انہیں ان کی آزادانہ مرضی اور عوامی استصواب کے ذریعے سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے کا حق دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کی اس اپیل پر جنگ بندی کر دی گئی۔ اس وقت تک جتنا حصہ آزاد ہو چکا تھا اس میں میر پور، راولاکوٹ اور مظفر آباد کے علاقوں پر مشتمل ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کے نام سے آزاد حکومت قائم کر دی گئی جبکہ گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات کو حکومت پاکستان نے عارضی انتظام کے طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جموں و کشمیر کے مسلم اکثریت کا ڈوگرہ خاندان کشمیری عوام گلاب سنگھ کشمیر کا کے خلاف شامل ہو کے ساتھ ہے اور کی مدد کر دیا کے لیے اور اس

پڑھیں:

اقوام متحدہ میں پاکستان نے بھارتی جارحیت، کشمیر پر قبضے اور آبی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کردیا

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منعقدہ حالیہ کھلے مباحثے میں پاکستان نے بھارت کے خلاف ٹھوس اور دلائل سے بھرپور مؤقف اپناتے ہوئے اس کا حقیقی چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت کی دوبارہ سبکی، امریکی صدر نے 5 طیارے گرانے کا ذکر پھر چھیڑ دیا

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عثمان جدون نے بھارتی مندوب کے بے بنیاد الزامات پر بھرپور جواب دیا اور اسے فورم کے غلط استعمال کی کوشش قرار دیا۔

سفیر عثمان جدون نے کہا کہ بھارت جموں و کشمیر پر غیرقانونی قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔

 انہوں نے یاد دلایا کہ یہی بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر آیا تھا، مگر آج وہ انہی قراردادوں سے راہِ فرار اختیار کر رہا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ کشمیری عوام کا حق خودارادیت ایک ناقابلِ تنسیخ حق ہے جسے بھارت مسلسل پامال کر رہا ہے۔

مباحثے میں پاکستانی سفیر نے بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی اور اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی روشنی ڈالی۔

یہ بھی پڑھیں:پاک فوج نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا، وزیراعظم کا ای سی او اجلاس سے خطاب

انہوں نے زور دیا کہ عالمی تنظیموں کی متعدد رپورٹس میں بھارت کے اندر اقلیتوں کے خلاف ظلم و ستم کی نشاندہی کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں، سفیر نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کوشش کو بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

ان کے مطابق بھارت کا اصل مقصد پاکستان کو دریائے سندھ کے پانی سے محروم کرنا ہے، جو ناقابلِ قبول ہے۔

مباحثے کے دوران پاکستانی سفیر نے کہا کہ 7 سے 10 مئی کے دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کی، جس کے جواب میں پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے بھرپور اور مؤثر کارروائی کی۔

اس دوران بھارت کے 6 جنگی طیارے تباہ کیے گئے اور اسے نمایاں عسکری نقصان اٹھانا پڑا۔

سفیر نے بھارت کو خبردار کیا کہ وہ غرور اور جھوٹی برتری کے خمار سے نکل کر زمینی حقائق کا سامنا کرے اور اپنے رویے پر نظرثانی کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقوام متحدہ بھارت بھارتی جارحیت پاکستانی مندوب عثمان جدون

متعلقہ مضامین

  • پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کو بے نقاب کرنے کیلئے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں
  • فرانس کا تاریخی قدم، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، الطاف بٹ
  • نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
  • بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق اتفاق رائے سے ہوا تھا: وزیرِاعلیٰ بلوچستان
  • الحاق پاکستان کے نظریے کے فروغ میں جموں و کشمیر لبریشن سیل کا کلیدی کردار
  • جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، عثمان جدون
  • اقوام متحدہ میں پاکستان نے بھارتی جارحیت، کشمیر پر قبضے اور آبی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کردیا
  • سول سوسائٹی ارکان نے اگست 2019ء کے بعد کے اقدامات کو مسترد کر دیا
  • پاکستان کا غزہ میں فوری جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے حل پر زور