مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر اور موجودہ صورتحال
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے مسلمان حکومت آٹھویں صدی ہجری میں قائم ہوئی اور شاہ میر نے ۷۴۰ھ مطابق ۱۳۳۹ء میں سلطان شمس الدین اول کے لقب کے ساتھ اسلامی اقتدار کا آغاز کیا۔
اس کے بعد وادی کشمیر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے ۱۸۴۶ء میں جموں کے ہندو ڈوگرہ خاندان کے تسلط میں چلی گئی جب فرنگی حکمرانوں نے ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت پچھتر لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض کشمیر کا یہ خطہ ڈوگرہ خاندان کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ مگر جب گلاب سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کرنا چاہا تو کشمیر کے مسلم حکمران شیخ امام دین نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور میدانِ جنگ میں گلاب سنگھ کو شکست دے کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔
اس کے بعد کرنل لارنس کی قیادت میں انگریزی فوج میدان میں آئی اور شیخ امام دین کو شکست دے کر اس نے گلاب سنگھ کو کشمیر کا قبضہ دلا دیا۔ تب سے کشمیری عوام کی جنگ آزادی جاری رہی ہے اور کشمیری مسلمان ڈوگرہ حکمرانوں کے دور سے مسلسل نبرد آزما چلے آرہے ہیں۔
۱۸۳۱ء میں مجاہدین بالاکوٹ کے امیر حضرت سید احمد شہیدؒ کشمیری عوام کی دعوت پر ان کی مدد اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے مظفر آباد آرہے تھے اور تاریخی روایات کے مطابق ان کے مجاہدین نے مظفر آباد چھاؤنی کو فتح بھی کر لیا تھا مگر بالاکوٹ کے مقام پر حضرت سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے رفقاء کی شہادت کے باعث یہ مہم آگے نہ بڑھ سکی۔
۱۹۳۱ء میں ڈوگرہ حکمرانوں کے وحشیانہ مظالم کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے ’’آل انڈیا مجلس احرار اسلام‘‘ میدان میں آئی اور تیس ہزار کے لگ بھگ رضاکاروں نے ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہو کر گرفتاری دی جبکہ ۲۲ نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا اور باقاعدہ سیاسی جماعتیں تشکیل پائیں۔
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے موقع پر توقع پیدا ہو گئی تھی کہ واضح مسلم اکثریت رکھنے اور پاکستان کے پڑوس میں ہونے کے باعث جموں و کشمیر کی ریاست پاکستان میں شامل ہوگی اور کشمیری عوام کو ڈوگرہ خاندان کی ایک سو سالہ غلامی سے نجات مل جائے گی۔ مگر جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں، کشمیر اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقہ جات سمیت پوری ریاست کا بھارت کے ساتھ یک طرفہ الحاق کا اعلان کر دیا اور بھارت نے اپنی فوجیں فوری طور پر ریاست میں داخل کر دیں۔ جس کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمان عوام نے علم جہاد بلند کیا اور قبائل کے غیور پٹھانوں اور پاکستانی فوج کی مدد سے جموں و کشمیر کا وہ خطہ آزاد کرا لیا جسے ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔
اُدھر گلگت، بلتستان اور سکردو کے عوام بھی ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور علم جہاد بلند کر کے اپنے علاقے کو ڈوگرہ خاندان سے آزاد کرا لیا۔ یہ علاقہ جموں و کشمیر کے ’’بین الاقوامی طور پر متنازعہ خطہ‘‘ کا حصہ ہے اور تنازع طے ہونے تک حکومت پاکستان نے عارضی طور پر اس خطہ کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔
پاکستان کے بجائے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کی راہ ہموار کرنے میں جہاں ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی اپنی ریاست کے عوام کے ساتھ غداری کا بڑا رول ہے وہاں قادیانیوں کا کردار بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس لیے کہ اس وقت بھارت کے پاس کشمیر میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ تھا جو مشرقی پنجاب کے ضلع گوداسپور سے گزرتا تھا۔ مشرقی پنجاب کے بارے میں تقسیم کا یہ فارمولا تھا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ جو علاقے مسلم اکثریت کے ہیں وہ پاکستان کا حصہ ہوں گے اور جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے وہ بھارت میں شامل ہوں گے۔ اس فارمولے کے مطابق علاقوں کی تقسیم اور بین الاقوامی سرحد کے تعین کے لیے لارڈ ریڈ کلف کی سربراہی میں کمیشن کام کر رہا تھا۔ قادیانیوں کا مرکز ’’قادیان‘‘ ضلع گوداسپور میں واقع ہے اور اس ضلع میں آبادی کی پوزیشن یہ تھی کہ اگر قادیانی گروہ اپنا شمار مسلمانوں کے ساتھ کراتا تو ضلع گورداسپور مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پا کر پاکستان میں شامل ہو جاتا۔ اور اگر قادیانیوں کا شمار غیر مسلموں میں ہوتا تو یہ علاقہ غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار پا کر بھارت کا حصہ بنتا۔ یعنی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان آبادی کے تناسب کی کنجی قادیانیوں کے ہاتھ میں تھی مگر قادیانی گروہ نے، جو آج قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں پاکستانی پارلیمنٹ کے فیصلے کے خلاف پوری دنیا میں شور مچا رہا ہے اور اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کر کے خود کو زبردستی مسلمان کہلانے پر بضد ہے، تقسیم ہند کے موقع پر انہوں نے قادیانی امت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت پر ریڈ کلف کمشن کے سامنے اپنا کیس مسلمانوں سے الگ اور جداگانہ حیثیت سے پیش کیا جس کی وجہ سے گورداسپور کا یہ علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ تسلیم نہ ہوا اور اسے بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اسی سے بھارت کو کشمیر میں داخلے کا راستہ ملا اور اس نے فوجیں داخل کر کے ریاست پر قبضہ کر لیا۔
دوسری طرف مظفر آباد، پونچھ اور میرپور میں کشمیری مجاہدین قبائلی مسلمانوں اور پاکستانی فوج کی مدد سے علم جہاد بلند کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور بعض دستے پونچھ شہر اور سری نگر کے نواح میں پہنچ گئے تھے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اقوام متحدہ نے ایک واضح قرارداد کے ذریعے سے کشمیری عوام کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہوئے جنگ بندی کی اپیل کر دی کہ انہیں ان کی آزادانہ مرضی اور عوامی استصواب کے ذریعے سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے کا حق دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کی اس اپیل پر جنگ بندی کر دی گئی۔ اس وقت تک جتنا حصہ آزاد ہو چکا تھا اس میں میر پور، راولاکوٹ اور مظفر آباد کے علاقوں پر مشتمل ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کے نام سے آزاد حکومت قائم کر دی گئی جبکہ گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات کو حکومت پاکستان نے عارضی انتظام کے طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جموں و کشمیر کے مسلم اکثریت کا ڈوگرہ خاندان کشمیری عوام گلاب سنگھ کشمیر کا کے خلاف شامل ہو کے ساتھ ہے اور کی مدد کر دیا کے لیے اور اس
پڑھیں:
مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
ویب ڈیسک: پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ کرکٹ نہ کھیلنے کا مشورہ دیدیا۔
ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے، بھارت پاکستان کے وجود سے خوش نہیں ، وہ پاکستان سے نفرت کرتا ہے اور بھارت ہمارے ساتھ کرکٹ کھیل کر ہماری ہی بے عزتی کرتا ہے، اس سے بہتر ہے کہ ہم بھارت کیساتھ کرکٹ نہ کھیلیں۔
رکن پنجاب اسمبلی علی امتیاز کا نام پی این آئی لسٹ سے نکالنے کی درخواست، جواب طلب
مشاہد حسین نے کہا کہ بھارتی ہم سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں، وہ پاکستان آنے سے انکار کردیتے ہیں، بھارت پاکستان کی نفرت میں اس حد تک گرچکا ہے کہ 2 سال قبل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت نے پاکستان کو آگے نہ آنے دینے کیلئے شکست کھائی لہٰذا ہمیں بھی ایسی ٹیم کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے ۔
چیئرمین پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ نے مزید کہا کہ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے جیت کو بھارتی فوج اور پہلگام واقعے کے متاثرین کے نام کیا، بھارت خود دہشتگرد ہے جس نے جارحیت کی اور جواب میں پاکستان نے اس کی پھینٹی لگائی اب بھارت اسی شکست کو پروپیگنڈا کیلئے استعمال کررہا ہے۔
ٹریفک قوانین سخت، گاڑیاں وموٹرسائیکلیں نیلام ہوں گی