کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا المناک سلسلہ بدستور جاری ہے، میرواعظ عمر فاروق
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
کل جماعتی حریت کانفرنس کے چئیرمین نے وادی بھر میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افراد کی گرفتاری پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے اپیل کی ہے کہ انہیں فوری رہا کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چئیرمین میرواعظ محمد عمر فاروق میں حراستی تشدد اور گولی چلانے کے حالیہ واقعات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا المناک سلسلہ بدستور جاری ہے کیونکہ مجرموں کو کبھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کٹھوعہ میں حراستی تشدد کے بعد خودکشی کرنے والے گوجر قبیلے کے نوجوان مکھن دین اور سوپور میں قابض فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ٹرک ڈرائیور وسیم ملا کے قتل پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ان واقعات کو نہایت قابل مذمت اور انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے ۔
حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا المناک سلسلہ بدستور جاری ہے کیونکہ مجرموں کو کبھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جوابدہی کا عمل قائم نہیں اور متاثرین کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ حکام بشمول منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے جرائم کو روکا جائے اور اگر بدقسمتی سے یہ واقعات پیش آئیں تو ان کی مکمل تحقیقات کی جائے اور مجرموں کو سخت سزا دی جائے۔ میرواعظ عمر فاروق نے وادی بھر میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افراد کی گرفتاری پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے اپیل کی ہے کہ انہیں فوری رہا کیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: افسوس کا اظہار عمر فاروق انہوں نے
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن