صدر زرداری کا دورہ چین کتنا مثبت اور کارآمد رہا؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
صدر پاکستان آصف علی زرداری نے 4 سے 8 فروری چین کے سرکاری دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران صدر زرداری کا چینی حکومت کی جانب سے شاندار استقبال کیا گیا اور دونوں ملکوں نے انسداد دہشتگردی، دفاع، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ دوطرفہ تعلقات کو مجروح کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔
اس دورے سے متعلق جاری ہونے والے دونوں ملکوں کے مشترکہ اعلامیے کو اگر دیکھا جائے تو اُن میں دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کی گئی ہے جو اس دورے کی کامیابی دکھائی دیتی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات تزویراتی اہمیت کے حامل ہیں اور اس میں خلل ڈالنے یا کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگی۔ چین پاکستان باہمی تعاون پر مبنی چہار موسمی تزویراتی شراکت داری تاریخ اور عوام کا انتخاب ہے اور اسے دونوں ممالک میں زندگی کے تمام شعبوں کی طرف سے وسیع حمایت حاصل ہے۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے سے متعلق بیان پر چین کا ردعمل سامنے آگیا
پاکستان دفتر خارجہ کی طرف سے بارہا اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ چین کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ بالکل اُسی طرح سے اس مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، چین کے خارجہ تعلقات کی پالیسی میں ایک ترجیح اور خصوصی اہمیت کا حامل ہیں۔ دونوں ملکوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو سمجھا اور ایک دوسرے کی حمایت کی ہے اور سٹریٹجک باہمی اعتماد اور عملی تعاون کو گہرا کیا ہے۔ پاکستانی سفارتی اُمور کے ماہرین اس دورے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ایم ایل ون پر پیشرفت سے سی پیک فعالی کا پتا چلے گا: ایمبیسیڈر مسعود خالد13 سال تک چین میں پاکستان کے سفیر رہنے والے ایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا ایک اہم پراجیکٹ پاکستان میں ریلوے لائن کو دو رویہ کرنا ہے جسے ایم ایل ون کہتے ہیں۔ صدر زرداری کے دورۂ چین سے اگر اس منصوبے پر پیشرفت ہوتی ہے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ سی پیک جو کُچھ عرصے کے لیے غیر فعال رہا وہ اب دوبارہ سے فعال ہونے جا رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اس دورے کے دوران دونوں مُلکوں کے درمیان جو پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے وہ بہت مثبت ہے۔ دونوں مُلکوں کی جانب سے ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے احترام کی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑ نہیں ڈال سکتا یہ ایک اچھی پیشرفت ہے۔
مزید پڑھیں: پاک چین صدور ملاقات کا اعلامیہ جاری، سی پیک، دفاع سمیت کئی اہم امور پر اتفاق
زرداری صاحب سربراہِ مملکت ہیں اور چین میں اُن کو سربراہِ مملکت کا پورا پروٹوکول دیا گیا۔ اُن سے قبل وزیراعظم نے دورہ چین کیا تھا اور اب صدرِ مملکت نے کیا ہے۔ چینی شہریوں کی حفاظت کا مسئلہ چین کے لیے بہت اہم ہے اور جب اُن کے شہری یہاں جاں بحق ہوتے ہیں تو وہاں اُن کی حکومت پر بھی دباؤ بڑھتا ہے، اس لیے چینی حکومت نے اپنے شہریوں کے جاں بحق ہونے کے حوالے سے بیانات بھی جاری کیے لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی خلل آیا، مختلف ممالک کے درمیان اس طرح کی اونچ نیچ لگی رہتی ہے۔ بحیثیت مجموعی صدر زرداری کا دورہ چین بہت مثبت رہا۔
پاکستان میں چینی شہریوں کی حفاظت سب سے اہم، ملک ایوب سنبلبیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیا سے وابستہ پاکستانی صحافی اور جیو پولیٹیکل تجزیہ نگار ملک ایوب سنبل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری کا دورۂ چین بہت اچھا اور مثبت رہا اور اِس دورے سے پاکستان اور چین کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے جو اعتماد کی فضا میں کمی دیکھنے کو آ رہی تھی، اُس کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
اُنہوں نے کہا کہ اس وقت چین کا پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ، پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی سیکیورٹی ہے۔ خاص طور پر کراچی میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے نے چین میں اس مسئلے کو بہت اُجاگر کیا ہے، پہلے چینی حُکام اس معاملے پر بات نہیں کرتے تھے لیکن اب اُنہوں نے کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے، اور اب چینی حکومت کا پاکستان سے سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ یہاں کام کرنے والے چینی باشندوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
مزید پڑھیں: پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ناکام ہوگی، ترجمان دفتر خارجہ
ملک ایوب سنبل نے کہا کہ دو مُلکوں کے تعلقات میں اُس وقت تک پیشرفت نہیں ہو سکتی جب تک پہلے سے موجود معاہدات پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ صدر زرداری کے دورۂ چین میں مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط تو کیے گئے ہیں لیکن اصل مسئلہ پرانے معاہدات پر عمل درآمد ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صدر زرداری خود تو چین آ گئے لیکن بلاول بھٹو زرداری واشنگٹن میں امریکی صدر کی جانب سے دیے گئے ناشتے میں شریک ہوئے جس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستان دونوں ملکوں کے مِل کر چلنا چاہتا ہے۔ بظاہر دو متحارب قوتوں کے ساتھ مِل کر چلنا بہت احتیاط اور توازن کا متقاضی ہے اور یہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی طے کرے گی کہ وہ کس طرح سے اِس تعاون کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
سی پیک کے حوالے سے مسائل پاکستان کی سائیڈ پر ہیں، ڈاکٹر طلعت شبیرانسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں چائنہ ڈیسک کے سربراہ اور سی پیک سے متعلقہ معاملات کے ماہر ڈاکٹر طلعت شبیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری کا دورہ چین سی پیک کے حوالے سے خاصا خوش آئند ہے۔ پاکستان اور چین نے دورے کے حوالے سے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں پہلے انہوں نے بین الاقوامی صورت حال جیسا کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی، یوکرین جنگ، اس کے بعد علاقائی صورتحال جیسا کہ افغانستان اور اس کے بعد دو طرفہ معاملات پر بات چیت کی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور چین کے مابین مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط
چین پاکستان میں اب سی پیک کا اپ گریڈڈ ورژن لانے جا رہا ہے جس میں لائیولی ہڈ کوریڈور، گرین کوریڈور جیسے منصوبے شامل ہیں، چین کو پاکستان میں سیکیورٹی تحفظات تو ہیں اور اس وقت مسائل پاکستان کی طرف ہیں جن میں سیکیورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے ساتھ ہی ساتھ جو سرکاری امور سے متعلق ہیں۔ جبکہ چین تو پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کا خواہاں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف زرداری پاکستان چین چین پاکستان دورہ چین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان چین چین پاکستان دورہ چین صدر زرداری کا دورہ دونوں ملکوں کے پاکستان میں کے حوالے سے پاکستان کی مزید پڑھیں پاکستان کے کے تعلقات کرتے ہوئے پاکستان ا دورہ چین چین میں دورے کے اور چین چین کے اور اس کہا کہ سی پیک ہے اور
پڑھیں:
بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!
وفاقی بجٹ 2025-26 کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا یہ بجٹ پاکستان کی کمزور معیشت کو بحال کرنے، مہنگائی کم کرنے اور صنعتی بنیاد کو سہارا دینے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے دعووں کے برعکس یہ ریلیف اور اصلاحات فراہم کرنے کے بجائے، تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں خاص طورپر ہمارے امپورٹیڈ وزیر خزانہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آج پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی ضرورت ہے جو اعتماد اور تعاون سے چلتی ہو، نہ کہ دباؤ اور جبر سے بجٹ کے اعلان کے بعد حکومت کے اقدامات درحقیقت ان لوگوں کو ایک پیغامِ عدم اعتماد دے رہی ہے جو طویل عرصے سے قومی آمدنی کا ستون رہے ہیں۔ یہ بجٹ کاروباری برادری کو قومی ترقی میں شراکت دار کے بجائے مشتبہ افراد کے طور پر دیکھتا ہے، جنہیں نگرانی اور سزا کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل آمدنی کا 70 فیصد سے زائد نجی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس شاندار کردار کو سراہنے کے بجائے، حکومت نے مبینہ طورپر ایک جارحانہ اور مخالفانہ لہجہ اختیار کر رکھا ہے، جو سرمایہ کے انخلاء، سرمایہ کاری میں کمی اور مزید کاروباروں کے غیر دستاویزی معیشت میں منتقل ہونے کے خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی معیشت میں روزگار اور جدت کے بنیادی انجن ہیں۔ اس شعبے کو نہ کوئی مؤثر ریلیف دیا گیا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، جو کہ پہلے ہی ایک پیچیدہ اور بوجھل نظام ہے۔ کاروباری برادری کی بار بار اپیلوں کے باوجود صنعتوں اور برآمد کنندگان کے لیے توانائی کی سبسڈی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔درمیانے طبقے اور کم آمدنی والے گروپوں کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کم از کم اجرت میں اضافے کی کوئی تجویز بھی بجٹ میں موجود نہیں، نہ ہی بنیادی اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی گئی ہے، اور نہ ہی بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے نجات دی گئی ہے اس کے برعکس بجٹ کے اعلان کے بعد پے درپے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیاجارہاہے۔ جیسے جیسے مہنگائی گھریلو آمدنی کو کھا رہی ہے، معاشی بدانتظامی کا بوجھ ایک بار پھر سب سے زیادہ کمزور طبقوں پر ڈال دیا گیا ہے۔حکومت اس بجٹ کو شفافیت اور دستاویزی معیشت کی جانب قدم قرار دے رہی ہے، مگر اس کے طریقے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔معاشی بحالی دباؤ سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ اقتصادی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایک ایسا ٹیکس نظام درکار ہے جو دباتا نہیں بلکہ سہارا دیتا ہے، توڑتا نہیں بلکہ تعمیر کرتا ہے۔حقیقی اصلاحات جبر سے حاصل نہیں کی جا سکتیں، بلکہ ان کے لیے احترام، انصاف اور اعتماد ضروری ہے۔اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے ٹیکس نظام کو اس انداز میں دوبارہ ترتیب دینا چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل دستاویزات کے فروغ کے لیے مراعات دے، نہ کہ دھمکیاں۔ توجہ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر ہونی چاہیے، نہ کہ بار بار انہی ٹیکس دہندگان کو نچوڑنے پر۔ ٹیکس تنازعات کا فیصلہ خود ایف بی آر کے بجائے آزاد ٹربیونلز کو کرنا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات، کاروباری اداروں کو ایک ایسے ماحول میں کام کرنے دیا جائے جو ان کی رازداری اور مالی وقار کا تحفظ کرے۔جب ہم اپنے خطے پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کی طرف سے زیادہ ترقی پسند اور کاروبار دوست پالیسیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت نے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (GST) کا ایک مؤثر نظام نافذ کیا ہے جو ایک ونڈو پلیٹ فارم کے ذریعے ٹیکس کی تعمیل کو آسان بناتا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنی برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی سطح پر نمایاں کیا ہے۔ ویتنام کارپوریٹ ٹیکس کی مراعات اور صنعت و آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہدفی امداد کے ذریعے عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر رہا ہے۔جب یہ ممالک معاشی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم کر رہے ہیں، پاکستان کا نیا بجٹ دونوں کو روکنے کا ہتھیار دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے پاس بہتر آپشنز موجود تھیں۔ وہ SMEs کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کر سکتی تھی، ٹیکس ہالیڈیز اور اسٹارٹ اپ گرانٹس متعارف کروا سکتی تھی، اور مقامی صنعت و پیداوار کو بڑھانے کے لیے GST کم کر سکتی تھی۔ برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر سہارا دیا جا سکتا تھا۔ ایف بی آر کو شفاف، خدمت گزار ادارہ بنایا جا سکتا تھا، جس میں مؤثر داخلی احتساب ہوتا۔بدعنوانی کے خلاف اندرونی طور پر لڑنے کے لیے ”وسل بلوئر” نظام متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسے بنیادی شعبوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں وسائل مختص کیے جانے چاہیے تھے تاکہ انسانی ترقی کو پائیدار بنایا جا سکے۔بدقسمتی سے، بجٹ 2025-26 اصلاحات کا خاکہ نہیں بلکہ مالیاتی آمریت کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔اس صورت حال کا اگر بروقت ادراک نہ کیاگیااور اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے، تو ملک کاروباری طبقے کو خود سے دور کرنے، جدت کو کمزور کرنے، اور معاشی زوال کو مزید گہرا کرنے کے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔معاشی بحالی دھونس سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایسے ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جو سہارا دے، نہ کہ دباؤ ڈالے ،تعمیر کرے، نہ کہ توڑے۔ ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں کاروبار کو سراہا جائے، نہ کہ مجرم ٹھہرایا جائے اور جہاں پالیسی شراکت داری کا عکس ہو، نہ کہ سزا کا۔
پاکستان نے اس ماہ ایک اور مالی سال کا آغاز کرتے ہی بجٹ کے حوالے سے پائے جانے والے وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات کے باوجود، حکمرانوں نے عوامی جذبات کونظرانداز کرتے ہوئے اپنی خود ساختہ کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔یہ صحیحہے کہ آج پاکستان2سال قبل کے مقابلے مجیں جب ملک کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا تھا اور روپے کو شدید اتار چڑھاؤ درپیش تھا کافی فاصلے پر کھڑا ہے، ۔اس کامیابی کا سبب حکمرانوں کی پالیسیوں کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کا سبب ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی ہے جس نے پاکستان کو وقتی طور پر مالی استحکام دلا دیا۔مگر، عوام کے جذبات اور اقتدار کے ایوانوں کے بیانیے کے درمیان یہ خلیج ایک اہم مسئلہ کو اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں، لیکن ایسے نقادوں کی کمی نہیں جو ان دعووں کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں نے بارہا انتباہی اشاروں کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً 40 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 10 کروڑ افراد، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ”سب اچھا ہے” کے نعرے پر ملک کی قیادت کرنا مستقبل سے متعلق سنگین غلط فہمیوں کو جنم دے
سکتا ہے۔اس تلخ حقیقت کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلی کا گہرا چیلنج بھی ہے، جس کی عکاسی پاکستان بھر میں جاری بارش سے جڑے تباہ کن واقعات سے ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بمشکل ہی کوئی علاقہ ایسا ہوگا جہاں مون سون کی بارشوں نے غیر متوقع اثرات نہ ڈالے ہوں۔ بدلتے موسم کے رجحانات اس بات کا واضح پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کی غذائی سلامتی اب خطرے میں ہے۔گزشتہ مالی سالجولائی 2024 تا جون 2025کے دوران زرعی پیداوار میں محض 0.6 فیصد کی معمولی شرح نمو اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔زراعت میں جاری نقصانات نے پاکستان کے صدیوں پرانے فصلاتی نظام کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اگر غذائی تحفظ سے جڑے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ان کے بھیانک نتائج یقینی طور پر سامنے آئیں گے۔زراعت سے منسلک روزگار اور آمدنی کے بے شمار مواقع اس شعبے کو ملکی معیشت کے لیے نہایت اہم بناتے ہیں۔ جب تک غریب کسانوں کی آمدنی میں بہتری نہیں آتی اور انہیں مؤثر تحفظ نہیں ملتا، پاکستان کو آنے والے برسوں میں ایک وسیع تر سماجی و معاشی بحران کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ سادہ الفاظ میں، پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ ان افراد کی حفاظت کی جا سکے جو انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور جن کے لیے مستقبل کی کوئی امید نہیں۔ پاکستان کا صنعتی شعبہ بھی گہرے سوالات کی زد میں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ گزشتہ مالی سال میں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار میں 1.6 فیصد کمی آئی۔ فی الحال، پاکستان کے جاری کھاتے میں بہتری بنیادی طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے ملک کو اب تک بچا کر رکھا ہوا ہے۔ تاہم، پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کی ضمانت بالآخر برآمدات میں مضبوط اور متنوع اضافے سے ہی مشروط ہونی چاہیے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے زراعت سے لے کر صنعت تک برآمدات میں تنوع پیدا کرنا ناگزیر ہے۔آخر میں، اس ہفتے تنخواہ دار طبقے کے لیے نئے سادہ ٹیکس فائلنگ نظام کی رونمائی پر کی گئی سرکاری تشہیر پر بھی نظرثانی ضروری ہے۔ ٹیکس محصولات میں سب سے بڑی کمی پاکستان کے پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے تنخواہ دار طبقے میں نہیں بلکہ ان اہم شعبوں میں ہے جو یا تو انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے یا اپنی حیثیت سے کہیں کم ادا کرتے ہیں۔بارہا پاکستان کو ایسے خلا کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جو ریاستی رٹ نافذ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ لیکن اب جب کہ پاکستان کو اقتصادی میدان میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، ماضی کی غلطیوں کو درست کر کے ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھنا ناگزیر ہے۔بالآخر، پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت کا انحصار ان اصلاحات پر ہے جو طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ یہ اصلاحات اسی وقت کامیاب ہوں گی جب پاکستان کے رہنما واضح رہنمائی فراہم کریں گے اور خود اس پر عمل کر کے مثال قائم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔