Jasarat News:
2025-11-24@17:19:38 GMT

مہنگی چینی کی ذمہ دارحکومت ہے،شوگرملزایسوسی ایشن

اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور:پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ ایف بی آر پورٹلز کی بندش اور حکومتی ڈیلرز کی وجہ سے ہوا۔دیگروجوہات میں چینی کی بین الصوبائی ترسیل پر پابندیاں شامل ہے ۔

 اعلامیے میں کہا گیا کہ انڈسٹری عرصے سے یہ کہہ رہی تھی کہ پورٹلز بندش سے چینی کی سپلائی کم ہو گی، حکومت کو بندش سے قیمتیں بڑھنے کے حوالے سے بھی خبردار کیاگیا، حکومت نے ملوں پر دباو ڈالے رکھا تا کہ غیرضروری درآمدی چینی کو فروخت کیا جائے.

۔

ایسوسی ایشن نے کہا کہ عوام کی اکثریت نے درآمدی چینی کو پسند نہیں کیا، سندھ میں پورٹلز بند رکھے گئے تاکہ پورٹ پر درآمدی چینی کو پہلے فروخت کیا جا سکے۔

 جب سے حکومت یہ پابندیاں لگا رہی تھی تب سے چینی کی سپلائی کم ہونے لگ گئی ،ان اقدامات سے چینی کی قیمتیں بڑھیں جس کی ذمہ دار شوگر انڈسٹری نہیں ہے۔

 پنجاب میں ضلعی انتظامیہ نے ملوں کو مجبور کیا کہ حکومتی نامزد کردہ ڈیلرز چینی فروخت کریں، جنہوں نے مارکیٹ میں اپنے فائدے کے لیے چینی مہنگی فروخت کی ۔

بیان میں کہا گیا کہ نئی چینی مارکیٹ میں آنے سے قیمتیں معمول پر آنے کا امکان ہے، حکومت سے مطالبہ ہے کہ چینی کی بین الصوبائی ترسیل پرغیرآئینی و غیرقانونی پابندی اٹھائی جائے۔

ویب ڈیسک Faiz alam babar

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چینی کی

پڑھیں:

مہنگی کاپیاں، یونیفارم، 17 بڑے نجی اسکول سسٹمز کو شوکاز نوٹس جاری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(کامرس رپورٹر) کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کے سترہ بڑے نجی اسکول سسٹمز کو تعلیمی شعبے میں اپنی جارہ داری کا غلط استعمال کرتے ہوئے، طلباء اور والدین کو اسکول کے لوگو والی مہنگی نوٹ بْکس، ورک بْکس اور یونیفارمز صرف اسکول یا اسکول کے منظور شدہ دکانوں سے خریدنے پر مجبور کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کئے ہیں۔کمپٹیشن کمیشن نے ایسے اسکولوں کیخلاف شکایات موصول ہونے پر سو موٹو اقدام کرتے ہوئے انکوائری کی۔ انکوائری میں اس بات کے واضح ثبوت ملے کہ یہ اسکول سسٹم، اپنے تمام برانچوں اور فرنچائز ، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ، اور ان میں لاکھوں طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں، میں ایڈمیشن حاصل کرنے والے طلباء کو اسکول کی ہی کاپیاں ، یونیفارم اور ورک بک اسکول سے یا مخصوص دکانون سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان اسکولوں نے گائیڈ لائنز اور پالیسی کے نام پر اسکول کی اپنی پراڈکٹ کی خریداری کے لئے سخت اصول لاگو کر رکھے ہیں ، اور والدین کے پاس کھلے بازار سے نسبتاً سستے داموں متبادل کاپیاں اور دیگر تعلیمی پراڈکت خریدنے کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔جن اسکول سسٹمز کو شوکاز نوٹسز جاری ہوئے ہیں ان میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم، دی سٹی اسکول، ہیڈ اسٹارٹ، لاہور گرامر اسکول، فروبلز، روٹس انٹرنیشنل، روٹس ملینیم، کے آئی پی ایس، الائیڈ اسکولز، سپرنوا، دارے ارقم، اسٹپ اسکول، ویسٹ منسٹر انٹرنیشنل، یونائیٹڈ چارٹر اسکول اور دی اسمارٹ اسکول شامل ہیں۔ یہ ادارے ملک بھر میں سیکڑوں کیمپسز چلاتے ہیں اور وسیع تعداد میں طلبہ پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے باعث ان کے پاس نمایاں مارکیٹ طاقت موجود ہے۔کمپٹیشن کمیشن کی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی کہ والدین کو لوگو والی اسٹیشنری، ورک بْکس اور یونیفارمز صرف اسکول کے منتخب کردہ وینڈرز سے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کئی اسکولوں میں لازمی اسٹڈی پیکس آن لائن پورٹلز یا مخصوص دکانوں کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں اور عام طور پر طلبہ کو کھلے بازار سے خریدی گئی کاپیاں یا یونیفارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق کئی اسٹڈی پیکس کی قیمت کھلی مارکیٹ میں دستیاب یکساں اشیا کے مقابلے میں 280 فیصد تک زیادہ پائی گئی۔اس کے علاوہ مخصوص وینڈرز کی تقرری سے ہزاروں اسٹیشنری فروشوں اور یونیفارم تیار کرنے والے چھوٹے کاروباروں کی مارکیٹ بری طرح محدود تی ہے۔ اسکولوں کی جانب سے ایسے انتظام کو مشروط فروخت کہا جاتا ہے جو کہ کمپٹیشن کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔طلباء کی ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں منتقلی کی زیادہ لاگت، محدود تعلیمی متبادل، اور سفر کی مشکلات والدین کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اسکول کے نافذ کردہ تمام تجارتی فیصلوں پر عمل کریں، یوں طلبہ کو ’یرغمال صارفین‘ بن جاتے ہیں، جن پر اسکول کی انتظامیہ اپنی اجارہ داری کا غلط استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں نجی اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد مجموعی انرولمنٹ کا تقریباً نصف ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں مہنگے برانڈڈ اسٹڈی پیکس اور یونیفارمز والدین کے لیے اضافی مالی دباؤ کا باعث بن رہے ہیں اور تعلیم کے شعبے میں غیر ضروری کاروباری رجحانات کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔کمیشن نے ان تمام اسکول سسٹمز کو چودہ دن کے اندر اپنا تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ مقررہ مدت میں جواب جمع نہ کرانے کی صورت میں یکطرفہ کارروائی کی جائے گی۔ قانون کے مطابق کمپٹیشن کمیشن تجارتی ادارے کے سالانہ ٹرن اوور کا 10 فیصد یا 750 ملین روپے تک جرمانہ عائد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

کامرس رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • لاہورقلندرز کی ویلیو میں 55 فیصد اضافہ، مہنگی ترین فرنچائز بن گئی
  • شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت کو چینی کی قیمتوں میں اضافے کا ذمے دار قرار دے دیا
  • شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت کو چینی کی قیمتوں میں اضافے کا  ذمے دار قرار دے دیا
  • صدر میں ایک بچہ پرانی کتابیں فروخت کے لیے ٹیبل پرسجارہاہے
  • گھرکی کفالت کے لیے بچہ ہاتھ میں چائے کاتھرماس پکڑ کرچائے فروخت کرنے کیلیے سڑک پرگھوم رہاہے
  • لیہ میں لالچ کے ہاتھوں بیٹے کو فروخت کرنے والا ملزم ایک سال بعد گرفتار
  • لاہور میں ٹماٹر کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، سرکاری نرخ سے 120 روپے زیادہ فروخت
  • حیدرآباد میں موسم سرد ہوتے ہی گیس کی بندش ،شہریوں کو مشکلات کا سامنا
  • مہنگی کاپیاں، یونیفارم، 17 بڑے نجی اسکول سسٹمز کو شوکاز نوٹس جاری